منتخب کردہ کالم

سیاسی، عسکری اور عدالتی قائدین کے نام !…ذوالفقار احمد چیمہ

سیاسی، عسکری اور عدالتی قائدین کے نام !…ذوالفقار احمد چیمہ

میں دفتر میں بیٹھا ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو ہنر فراہم کرنے کے اسپیشل پروگرام کو حتمی شکل دینے میں محو تھا کہ باربار بجنے والی فون کی گھنٹی پر بھی توجّہ نہ دے سکا، اچانک دفتر کے دو سینئر ڈائریکٹر جنرل کمرے میں آپہنچے اور آتے ہی بڑے پرجوش انداز میں کہنے لگے ’’سر! مبارک ہو‘‘ میں نے کہا ’’کس بات کی؟‘‘ کہنے لگے ’’ لگتا ہے دربارِ الٰہی میں کروڑوں پاکستانیوں کی دعائیں قبول ہوگئی ہیں‘‘۔

میں نے ریموٹ پکڑتے ہوئے پوچھا ہوا کیا ہے؟ کہنے لگے’’سر! ہمارے پیارے ملک پر خدائے بزرگ و برتر کی رحمتیں نازل ہونا شروع ہوگئی ہیں، لگتا ہے چند مہینوں میں نقشہ ہی بدل جائے گا‘‘۔آخر ایسی کونسی بات ہے جس پر آپ اسقدر excited ہیں۔کہنے لگے سر ٹی وی تو آن کریں ایک خوشخبری نہیں ، خوشخبریوں کی لائن لگ گئی ہے، ہر طرف بریکینگ نیوز ہی چل رہی ہیں۔ ٹی وی آن کیا تو عجیب سماں تھا، ایک کے بعد ایک بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بابائے قوم کے مزار پر پہنچ رہے ہیں، ساتھ ہی پھر بریکنگ نیوز چلی، سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان اور تمام ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی مزارِ قائد پر پہنچ رہے ہیں، اس کے فوراً بعد بریکنگ نیوز آئی کہ آرمی چیف ، ائر چیف، نیول چیف اور تمام کور کمانڈر ز بھی کراچی کے لیے روانہ ہیں، ان کی منزل بھی بابائے قوم کا مزار ہے۔

چینل بدلے تو کچھ چینلز پس منظر بتا رہے تھے کہ عالمی صورتِ حال اور ملک کی سلامتی کو درپیش انتہائی تشویشناک چیلنجز کے پیشِ نظر تمام قومی اداروں کے سربراہ اور سیاسی قیادت کل رات ایوانِ صدر میں جمع ہوئی تھی (سب کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کے لیے صدرِ مملکت اور اسپیکر کے علاوہ کچھ اداروں کے اہم افراد نے کلیدی کردار ادا کیا) جہاں طویل بات چیت ہوئی، ملک کی بقاء اور سلامتی کو درپیش خطرات کی تفصیل بتائی گئی۔ قائدؒ کی روح کو گواہ بنایا گیا، حکیم اُلامّت کی فکر کے حوالے دیے گئے۔ جسدِ ملّت کے کٹے ہوئے بازو کی یاد دلائی گئی۔

گھر کی تعمیر کے وقت معماروں کے جذبوں کا تذکرہ ہوااوراس کی بنیادوں میں پڑنے والے لاکھوں شہیدوں کے خون کو یاد کیا گیا، ربّ العالمین اور رحمت العالمین ؐ کے مقّدس ناموں کے واسطے بھی دیے گئے، ٹھوس دلائل بھی کام آئے اور دلوں میں اترنے والے جذبات بھی اور بالآخرتمام شرکاء ہاتھ سے ہاتھ اور دل سے دل ملانے پر تیار ہوگئے ، مصافحے اور معانقے ہوئے اور اپنے اپنے انفرادی اور ادارہ جاتی مفاد قربان کردینے اور ملک کی بقاء اور استحکام پر متحد ہونے اور قوم کو ایک نیا قومی ایجنڈا دینے کا فیصلہ ہوا اور یہ طے ہوا کہ تمام اداروں کی قیادتیں بابائے قوم ؒ کے مزار پر جاکر عہد کریں گی اور کچھ ہی دیر بعد عہد نشر ہونے لگے۔

باباؒ کے مزار پر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ روحِ محمد علی ؒ کو گواہ بناکر باری باری عہد کرتے رہے کہ ہماری ترجیحِ اوّل صرف اور صرف ملک کی بقاء اور استحکام ہوگا۔ ہم آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں گے، کبھی غیرسیاسی قوتوں کا آلۂ کار نہیں بنیں گے۔

نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر حکومتی کنٹرول سے آزاد کردیے جائیں گے، کسی مشکوک کردار کے شخص کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا اور پھر عسکری قیادت بھی عہد کرتی ہوئی نظر آئی کہ آیندہ افواجِ پاکستان اپنے تمام تر وسائل اور توانائیاں صرف اور صرف اپنی پیشہ وارانہ اہلیّت بڑھانے پر خرچ کریں گی ملک کے سیاسی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیں گی۔ آئین پر پوری نیک نیّتی سے عمل کریں گی، الیکشن یا حکومت بنانے یا ہٹانے میں براہِ راست یا بالواسطہ کبھی دخل نہیں دیں گی۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بھی عہد کرتے ہوئے نظر آئے کہ وہ ہر قیمت پر آئین کا تحفّظ کریں گے۔ فیصلے اپنی ذاتی پسند و ناپسند نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہونگے ، کبھی کسی غیر آئینی اقدام کی مدد یا توثیق نہیں کی جائے گی۔

کیلنڈر پر تاریخیں بدلتی رہیں اور بریکنگ نیوز مسلسل چلتی رہیں۔ میڈیا قوم کو مسلسل باور کرارہا ہے کہ اس بار کیے گئے عہد روایتی وعدے نہیں ہیں اُن پر پوری نیک نیّتی سے عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ میڈیا کے مطابق مزارِ قائد ؒ سے آتے ہی وزیرِاعظم نے پہلی میٹنگ تعلیمی پالیسی اور نصاب کے بارے میں رکھّی۔ پرنسپل سیکریٹری نے صرف ایجوکیشن سیکریٹری کو بلایا ہوا تھا، پرائم منسٹر نے وہ میٹنگ منسوخ کرتے ہوئے حکم دیا کہ ’’تعلیم پر میٹنگ کا مطلب ہے ماہرینِ تعلیم کے ساتھ میٹنگ‘‘ دو روز بعد تمام وائس چانسلرز اور اہم کالجوں کی پرنسپل صاحبان کے ساتھ چار گھنٹے تک میٹنگ کی گئی۔

اس کے بعد پرائیوٹ اسکولوں کے مالکان کو بلاکر بتادیا گیا کہ پورے ملک میں ایک نصاب ہوگا، اگر ہم نے تعلیم پاکستان کے طلباء و طالبات کو فراہم کرنی ہے تو اس کا نصاب امریکی یاچینی نہیں پاکستانی قوم کی امنگوں کے مطابق ہوگا، اسی طرح صوبائی وزرائے اعلیٰ نے چند افسروں کے بجائے ہائی اور پرائمری اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان کے ساتھ بھی میٹنگیں کیں اور ایجوکیشن کی بہتری کے لیے کام شروع کردیا گیا، تمام صوبوں نے تعلیمی شعبے میں مختص بجٹ میں چار گنا اضافہ کردیا۔ پرائم منسٹر نے اگلی میٹنگ ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے بارے میں رکھ لی جس میں فیصلہ ہوا کہ وفاقی دارلحکومت اور چاروں صوبوں میں عالمی معیار کے تربیّتی ادارے بنائے جائیں گے۔

نیز یہ بھی طے ہوا کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے تمام تربیّت یافتہ ورکرز پاکستان فراہم کریگا اور اس سلسلے میں جنگی بنیادوں پر لاکھوں نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے گا۔ اس کے فوراً بعد وزیرِاعظم نے موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم میں انقلابی اصلاحات کے لیے فوری طور پر اجلاس بلایا جس میں ریٹائرڈ ججوں، سینئر پولیس افسروں، پراسیکیوٹرز، چند سینئر وکلاء اور ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جو تین ماہ میں ایسے سسٹم کا خاکہ پیش کریگی جس میں مقدمات کے فیصلے سالوں نہیں چند ہفتوں میں ہوجایا کریںگے۔

اُدھر وزرائے اعلیٰ نے سرکاری اسکولوں میں بہتری کے لیے حکمتِ عملی طے کرنے کے فوراً بعد سرکاری اسپتالوں کو اے کلاس اسپتال بنانے کے بارے میں میٹنگ بلالی۔ اس بار وزرائے اعلیٰ نے بھی ایک دو سیکریٹریوں (جو ہوسکتا ہے کہ میٹنگ کے گزشتہ روز ہی کسی اور منسٹری میں تعینات کردیے جائیں) کے بجائے تمام بڑے اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس اور محکمہ صحت کے ڈائریکٹر صاحبان کو بلایا، پروفیشنلز کو اٹانومی بھی دی گئی اور عزّت بھی۔ سرکاری ھسپتالوں اور سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر ہونے لگی، دیکھا دیکھی پولیس تھانوں اور پٹوار خانوں کے حالات اور سوچ میں بھی بہتری آنے لگی اور بے سہارا عوام کو انصاف اور ریلیف ملنے لگا۔

پھر بریکنگ نیوز چنگھاڑنے لگیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے اپنی پارٹی کے چند مشکوک کردار کے لوگوں کے لیے (جنکے نام کے ساتھ میاں، چوہدری ، رانا اور بٹ لگتا تھا) رائیونڈ اور پارٹی کے دروازے بند کردیے ہیں، ان ممبروں نے فوری طور پر پی ٹی آئی میں جانے کی کوشش کی، جہلم اور پنڈی کے مشیروں نے شامل کرنے پر زور دیا مگر عمران خان نے کہا’’ قائدؒ کی روح سے عہد کیا ہے ، اب کسی مشکوک شخص کو قبول نہیں کروں گا‘‘ ، پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین نے بھی ہنگامی میٹنگ بلاکر بدنام ارکان کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

چند اہم اداروں کے سربراہ مقرر کرنا تھے، ایک دو بااثر بیوروکریٹس نے اپنے بَیچ میٹوں اور دوستوں کو لگوانے کی کوشش کی مگر پارٹی کے صدر اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب دونوں نے وہ نام مسترد کردیے اور مختلف ذرایع سے نیک نام افسروں کے نام منگوائے اور ان میں سے بہترین کا انتخاب کیا گیا۔ اُدھر میڈیا نے عوام کے تاثرات لینا شروع کردیے جو اسکولوں، اسپتالوں، تھانوں اور پٹوار خانوں میں بہتری کی شہادت دینے لگے سرکاری محکموں میں ایمانداری ایثار اور ھمدردی کا کلچر پروان چڑھتا دیکھ کر تاجروں اور دکانداروں کی سوچ بھی بدلنے لگی اور وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے لگے، سرکاری خزانے کی جیبیں پیسوں سے پھول گئیں۔

میدانوں میں اُس خطرناک میٹریل کے ڈھیر لگ گئے جو خوارک میں ملاوٹ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ملاوٹ کرنے پر ایک مہینے میں صرف تین افراد کو گرفتار کرکے پانچ پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔ پھر ایسا کوئی واقعہ سننے میں نہ آیا۔ ہر طرف سکون و شادمانی نظر آنے لگی۔ لگتا تھا ارضِ پاک پر نور کی چادر تن گئی ہے۔ چند مہینوں میں ملک کا قد کاٹھ کئی گنا بڑا نظر آنے لگا، انڈونیشیا، ملائشیا اور ترکی کی قیادت پاکستان کو عالمِ اسلام کا لیڈر کہہ کر مخاطب کرنے لگیں، چین نے سرکاری طور پر اعلان کردیا کہ سی پیک کے منصوبوں میں پاکستان جو بھی شرائط مقرّر کرے گا ہمیں قبول ہونگی۔

اور پھر دنیا نے حیرت زدہ ہوکر دیکھا کہ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کی بدزبانی بھی رک گئی۔ امریکی حکومت نے اعلان کردیا کہ ہم پاکستان سے دوستی کی تجدید کرنا چاہتے ہیں، صدر ٹرمپ 2018میں پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہشمند ہیں اور وہ 2018 کے الیکشن میں منتخب ہونے والی سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت میںبڑی خوشی محسوس کریں گے۔ 23مارچ کی قومی تقریب میں چین، روس اور ترکی کے صدر اور سعودی عرب کے فرمانروا شرکت کررہے ہیں۔

پھر خبر آئی کہ ملک کے ہر طبقہء فکر نے اس تبدیلی پر بے حد خوشی و مسّرت کا اظہار کیا۔ سوائے میڈیا کے کچھ اینکروں اور کچھ تجزیہ کاروں کے، جنھیں یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ’’میرا کیا بنے گا‘‘ ایک باریش دانشور اور پنڈی کے اکلوتے ممبر نے فوج کا نمایندہ بننے کی کوشش کی تو ’ اُدھر‘ سے فوراً سرزنش کی گئی ، ایک سابق پروفیسر صاحب نے (جو کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ میں فِٹ ہونے کے شدید خواہشمند ہیں) یہ کہہ کر کہ ’’گورننس کمزور ہوگی تو فوج ان حالات میں خاموش تو نہیں بیٹھے گی‘‘ فوج کو سیاست میں ملوّث کرنے کی کوشش کی تو انھیں فوراً شٹ اپ کال ملی کہ’’پروفیسر صاحب کیوں اپنا بڑھاپا خراب کرتے ہو گورننس ٹھیک کرنا فوج کا نہیں حکومت کا کام ہے‘‘ ۔

مذہب کا جھنڈہ اٹھا کر گالیاں دینے اور بیگناہ شہریوں پر وحشیانہ تشدد کرنے والوں کی دکانیں بند ہوگئیں، فرقہ وارانہ گروھوں کے سرپرستوں نے ہاتھ کھینچ لیے، دھرنے کے ڈرامے ختم ہوگئے، زندگی رواں دواں ہوگئی ، پورے ملک میں ایک سکون ، ٹھہراؤ اور استحکام آگیا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاریہاں investکرنے کے لیے لائن میں لگ گئے، پاکستان آنے والے غیر ملکی مسافروں کے لیے جہازوں پر سیٹیں ملنی مشکل ہوگئیں۔ میڈیا نے بھی اپنی سوچ بدل لی اور قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کیا، ٹی وی ڈرامہ نویسوں کو ہدایات ملنی شروع ہوگئیںکہ ڈراموں میںاب کوئی واہیاتی نہیں دکھائی جائے گی ، صرف اپنی تہذیب کی عکاّسی کی جائے گی ۔ احساسِ کمتری کی جگہ خوداری اور خود اعتمادی نے لے لی ۔

پھر ایک اور بریکنگ نیوز چلی، بھارت کے تھنک ٹینکس پاکستان میں آنیوالی اس تبدیلی اور قومی یکجہتی کو ایٹم بم سے بڑی طاقت قرار دے رہے ہیںا ور اس کا نظارہ دیکھ کر مودی دیواروں سے ٹکریں ماررہا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ اُس نے فوری طور پر راء کے سربراہ سمیت کئی سینئر افسروں کو برخاست کردیا ہے کہ ’’پاکستان میں آنے والی اس تبدیلی کو کیوں نہیں روک سکے‘‘۔ اب آپ یہی کہیں گے ناں کہ اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔ یہ سارا خواب تھا۔

تو کیا ہوا، خواب حقیقت بھی تو بن سکتے ہیں،آئیں ملکر دعا کریں کہ’’ اے کائناتوں کے خالق اور مالک! اپنے نام پر بنائے گئے اس خوبصورت ملک پر رحم فرما اور اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دیکھا گیا یہ سہانا خواب سچا بنادے۔ تیرے لیے کیا مشکل ہے!‘‘