سیاسی جماعتوں میں ڈائیلاگ ہونا چاہئے!…کنور دلشاد
موجودہ حکومت کی پوری آئینی میعاد انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں گزری، ملک گیر سیاسی مہم جوئی جولائی 2014ء میں شروع ہوئی اور پھر پانامہ پیپرز کے حوالے سے نواز خاندان کے خلاف احتجاجی تحریک اور عدالتی احتساب کی بنیاد پر رونما ہونے والی صورت حال میں جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دینے کے بارے میں سرگوشیاں شروع ہوئیں جو اب تک جاری ہیں اور پھر باجوہ ڈاکٹرائن کے نام سے ایک قومی اخبار کی سوچ منظر عام پر آئی۔ امن و ترقی کے لئے جمہوریت کے استحکام کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ان معروضی حالات کے باوجود سیاسی رہنما قوم کو انتخابات کے التوا کی خبریں بھی سناتے رہے ہیں‘ حالانکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے غیر مبہم الفاظ میں تردید کر کے جمہوریت کے تسلسل کے بارے میں شکوک و شبہات کی کوششوں پر سخت گرفت کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے قومی انتخابات وقت پر ہوں گے۔
اسے ایک عالمی سچائی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جمہوریت کا تسلسل ہی عوام کو حکمرانی اور ملک کو زیادہ بہتر قیادت کے انتخاب کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس عمل سے عوام کو ان کے تمام وہ حقوق ملتے ہیں جن کی فراہمی کے لئے آج ہماری عدالت عظمیٰ کو از خود نوٹس لینا پڑ رہے ہیں اور اس سے بظاہر ثابت ہو چکا ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے سسٹم کو چلانے میں ناکام ہو گئی ہیں اور ہم کرپشن، اقربا پروری ، ذاتی مفادات اور ظلم و استحصال کی وجہ سے اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کی کسی سیاسی جماعت میں قد آور شخصیات نہیں ہیں اور جو ہیں وہ بھی اپنے میڈیا آپریشن کے ذریعے سامنے آئی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے ملکی سطح کے لیڈر سے ملنے کے لئے دس لاکھ روپے فیس مقرر کر دی ہے۔ ایسے سیاسی رہنما ووٹ کی قدر سے ہی نا واقف ہیں‘ لہٰذا آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے؟ کوئی بھی شخص ووٹ اس لئے دیتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہا ہے وہ اسے اس کا حق دلائے گا‘ اس کے مسائل حل کرائے گا اور ملک کی ترقی کے لیے مناسب قانون سازی میں حصہ لے گا۔ یہی ووٹ کی عزت ہے، ووٹ کا تقدس ہے ، حق نہ دیا اور ووٹ لے لیا تو یہ سیاسی نو سر بازی ہے ، ووٹر اعتماد کر کے اپنی قیمتی رائے دیتا ہے ، جس کو فروخت کر کے ووٹ لینے والا اپنی تجوری بھر رہا ہے اور اس کے بعد میں کون‘ تو کون، ووٹر کو پہچاننے سے بھی انکار ہو جاتا ہے ۔ ووٹر کو پتا ہونا چاہئے کہ زندگی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے ہے ۔ گویا اپنے حق کے چھن جانے پر موت ہے اور اگر کوئی قوم ، معاشرہ یا فرد اپنے حق کے لئے آواز بلند نہ کرے تو انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے ، کیونکہ جمہوریت سیاست عطا کرتی ہے، سیاست حکومت دیتی ہے، اور حکومت لینے والا ہی ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ہر صورت دے ورنہ وہ حق حکمرانی کھو بیٹھتا ہے‘ جیسے نواز شریف اپنی میگا کرپشن کی وجہ سے یہ حق کھو بیٹھے۔ اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی سے بھی محروم ہو گئے اور صادق اور امین والی ساکھ بھی کھو بیٹھے۔
نواز شریف پاکستان کی سیاست میں قصۂ پارینہ ہوتے جا رہے ہیں۔ نواز لیگ خدشات اور توقعات کے درمیان جھول رہی ہے۔ نواز شریف کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں ان کا کردار غیر فعال ہو جائے گا۔ نواز شریف کے اندرونی سیاسی حلقے اب کھلم کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کرانے میں اور ان کی تاحیات نااہلی کی پشت پر پرویز رشید، آصف کرمانی، مریم اورنگزیب اور خود مریم نواز کی سیاست کا بڑا دخل ہے۔ اسی طرح مجھے اطلاع ملی ہے کہ نواز شریف کی موجودہ روش کے پیچھے ایک انٹرنیشنل این جی او کے بعض کرداروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جن کی قومی احتساب بیورو میں جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اور این جی اوز کے بعض ملازمین کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے ذریعے آگے لایا گیا اور وزارت میں آنے سے بیشتر وہ اس این جی او کے با قاعدہ ملازم بھی رہے۔
مسلم لیگی رہنما نواز شریف اور مریم صفدر کی سیاست کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواز شریف اصولی طور پر معاملہ فہم رہنما تھے لیکن مریم صفدر کے جارحانہ طرز سیاست کی وجہ سے بند گلی میں کھڑے جا کھڑے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف سے ان کے مزاج کے برعکس فیصلے کروائے‘ بالخصوص عدلیہ کے خلاف بیانات دلوانے میں پرویز رشید کی تحریر کا بڑا دخل رہا ہے اور پرویز رشید نے مریم نواز کو بڑا لیڈر بنانے کی کوشش کی تھی جس میں فی الحال وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ کچھ حلقوں کے خیال میں مریم نواز مستقبل میں شریف خاندان کی سرفہرست سیاستدان بھی قرار دی جا رہی ہیں کیونکہ حمزہ شہباز میں سیاسی رہنما بننے کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح نواز شریف کے خاندانی حلقوں اور طبقوں کی رائے یہ ہے کہ نواز شریف پر کرپشن‘ منی لانڈرنگ کے الزامات اور اقامہ رکھنا سمیت ان کے فرزندگان حسن نواز اور حسین نواز ان کے سیاسی زوال کا سبب ہیں‘ جو اپنے والد کے بے تحاشہ سرمائے کی بنا پر لندن میں انتہائی پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں اور جو اپنی غیر ملکی بیگمات کے کہنے پر نواز شریف کی سیاست سے بھی علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ عدالتوں اور مقدمات کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ میری اطلاعات کے مطابق اسی وجہ سے مریم نواز کی بھائیوں سے ماضی میں تلخ کلامی بھی ہو چکی ہے اور جاتی امرا کے قریبی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ نواز شریف جس طرح کی سیاسی زبان استعمال کر رہے ہیں‘ وہ استعمال کروانے میں ان کے بعض قریبی رشتے دار بھی شامل ہیں‘ جنہیں یہ احساس بڑی شدت سے تھا کہ ان کی بلندی نواز شریف کے زوال کے بعد ہی شروع ہو گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے فیصلہ قومی انتخابات میں ہو جائے گا اور میری دانست میں اگر مسلم لیگ نون سادہ اکثریت سے قومی اسمبلی میں پہنچ جاتی ہے تو مستقبل کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہی ہوں گے۔ شہباز شریف کو صرف پنجاب تک محدود رکھا جائے گا اور اسی پس منظر میں شاہد خاقان عباسی اپنے منصب کو بالائے طاق رکھ کر نواز شریف اور اسحاق ڈار کے گرد گھوم رہے ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف صاحب کے صاحبزادگان ان سے لا تعلق ہو چکے ہیں اور اپنے والد کو سیاست سے دستبردار ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
نگران حکومت کو بروقت اور شفاف انتخابات کے لیے حالات پر نظر رکھنی ہو گی کیونکہ الیکشن کمیشن کے بعض اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ امید پیدا نہیں ہوتی کہ انتخابات کے نتائج خوشدلی سے تسلیم کر لیے جائیں گے۔ اس پوری صورتحال میں بنیادی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کی مرتب کردہ حلقہ بندیوں کے بعض نقائص ایسے ہیں جنہیں اگر سپریم کورٹ میں لایا گیا تو عام انتخابات کی منزل دور ہوتی جائے گی اور انہی نقائص کو دور کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر اپنی الیکشن ٹیم کے ذریعے اعتراض کنندگان کو ریلیف بھی دے رہے ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017ء میں جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ انتخابی عمل میں بڑے سقم پائے گئے تھے۔ ان بڑی بڑی خامیوں کو دور کرنے کے لئے حکومت کی انتخابی کمیٹی نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ یہ نظر اندازی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔
میری تجویز یہ ہے کہ انتخابی شیڈول جاری کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ انتخابات میں شفافیت کے لیے ان کی تجاویز کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد حقیقی طور پر کروایا جا سکے۔