’’تم وطن کی بہار ہو۔ فصل گل ہو۔ رنگ ہو۔ خوشبو ہو۔ مگر ایک دوسرے سے بٹے ہوئے ہو۔ قومی سیاسی پارٹیاں ہوں ان کی مقبولیت۔ ہیبت۔ غلبہ۔ ہر دلعزیزی تمہارے دم سے ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کا معاشرے پر دبائو تمہاری حمایت سے بڑھتا ہے۔ علاقائی تنظیمیں اپنے پروگرام تمہارے بل بوتے پر پیش کرتی ہیں۔ لسانی تنظیموں کی زبان میں روانی تم سے آتی ہے۔ علیحدگی پسند بھی تمہاری طاقت سے اپنے نعرے بلند کرتے ہیں۔ تمہارے توانا بازو ان اقتدار پسندوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ قائدین تمہارے کندھوں پر سوار ہوکر صدارتی محل۔ وزیرا عظم ہائوس میں داخل ہوتے ہیں۔ پھر تمہارے لئے گیٹ بند کردیتے ہیں۔ مخالف پارٹیوں کے سربراہ تو آپس میں ملتے ہیں۔ رشتے بھی قائم کرتے ہیں۔ لیکن تمہیں کبھی آپس میں ملنے نہیں دیتے۔‘‘
میں نے چند سال پہلے یہ جملے اپنے نوجوانوں کو مخاطب کرکے لکھے تھے۔ آج پھر کڑی دھوپ میں الیکشن کا موسم شروع ہوگیا ہے۔ اب پھر نوجوانوں کی اپنے سیاسی کارکنوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
میں نے اپنی نصف صدی سے زیادہ عملی اور عوامی صحافت کے دوران سیاسی کارکنوں کو نسل در نسل چلچلاتی دھوپ ۔ کڑکڑاتی سردی۔ موسلا دھار بارشوں میں اپنے اپنے قائدین کے لئے نعرے لگاتے۔ پرچم اٹھاتے۔ پجارو۔ مرسیڈیز۔ ڈبل کیبن۔بی ایم ڈبلیو کے ساتھ پیدل بھاگتے دیکھا
ہے۔ پاکستان بن رہا تھا۔ تب بھی طاقت یہی تھے۔ پھر صوبوں اور مرکز کی لڑائی دولتانہ۔ ناظم الدین کی کشمکش میں بھی یہی کارکن دونوں کی قوت تھے۔ ون یونٹ بن رہا تھا۔ ون یونٹ ٹوٹ رہا تھا۔ تب بھی۔ پھر جب 1970کا الیکشن کفر و اسلام کا معرکہ بنادیا گیا۔ تب بھی یہ کارکن ہی دونوں طرف ہمت اور حوصلے کا سر چشمہ بنتے تھے۔ سیاسی کارکنوں نے اپنے گھروں کی پروا نہیں کی۔ اپنے ماں باپ کو مشکلات میں ہی رہنے دیا۔ ان کی اپنی پڑھائیاں بھی متاثر ہوتی رہیں۔ کراچی ۔ لاہور۔ پشاور۔ کوئٹہ۔ گلگت۔ مظفر آباد۔ ملتان۔ حیدر آباد ۔ سکھر ۔ سیالکوٹ۔ فیصل آباد۔ کوہاٹ۔ مردان۔ سبّی۔ اوکاڑہ۔ لاڑکانہ۔ خانیوال۔ نواب شاہ۔ گھوٹکی۔ گجرات۔ روجھان۔ جھنگ۔ ہزاروں لاکھوں خاندان ایسے ہوں گے جو جمہوری جدو جہد میں تباہ ہوگئے۔ جمے جمائے کاروبار ختم ہوگئے۔ ان سیاسی کارکنوں نے اپنے آپ کو برباد کرلیا۔ لیکن اپنی پارٹی کا پرچم بلند رکھا۔
اس اتوار کو بھی پی ٹی آئی۔ پی پی پی ۔ ایم ایم اے۔ وطن جمہوری پارٹی اور نہ جانے کس کس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کیے ۔ یہ طاقت آخر کس کے دم سے تھی۔ پی ایم ایل این بھی جولائی 2017سے یہ طاقت دکھارہی ہے۔
میں آج تمام سیاسی کارکنوں سے بلا امتیاز جماعتی وابستگی مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ 70سال ہوگئے۔مجھے انہیں میدان عمل میں دیکھتے۔ نہ جانے یہ کارکنوں کی کونسی نسل ہوگی۔ چوتھی یا پانچویں۔ ان کا جذبہ وہی ہے۔جوش عمل وہی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ تبدیل ہوچکی ہے۔ رابطے کے ذرائع مختلف ہوگئے ہیں۔ پہلے کارکنوں کے گھروں پر دستک دی جاتی تھی۔ اب موبائل فون ۔ وٹس ایپ۔ فیس بک سے اطلاع دے دی جاتی ہے۔لیکن جلسہ ہو یا جلوس یا پولنگ کا دن۔ وہاں کارکنوں کو جسمانی طور پر موجود ہونا پڑتا ہے۔ سیاسی کارکن کی اہمیت اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی اسی طرح ہے۔ جس طرح بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں تھی۔
سیاسی پارٹیاں۔ ان کے موروثی سربراہ تو اپنی قیمت لگواتے ہیں۔ وصول کرتے ہیں۔ اپنے کارکنوں عہدیداروں سے مشورے کیے بغیر ان کو بیچ ڈالتے ہیں۔ وہ تو اپنی اہمیت جان لیتے ہیں۔ اور اسی مناسبت سے سودے بازی کرتے ہیں۔لیکن جن کے دم سے وہ اہم ہوتے ہیں یعنی آپ سیاسی کارکن۔ آپ اپنی اہمیت کیوں نہیں جانتے۔ آپ یہ یقین کیوں نہیں کرتے کہ یہ سیاسی پارٹیاں۔ مذہبی جماعتیں۔ لسانی تنظیمیں آپ کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔ آپ اپنی اہمیت ان سے کیوں نہیں منواتے۔ بعض اوقات آپ صرف بریانی پر اپنے آپ کو ان کے سپرد کردیتے ہیں۔ بہت زیادہ ہوا تو کچھ روپوں کے عوض۔ اس میں بھی درمیانی ٹھیکیدار۔ کافی کمالیتا ہے۔ پارٹی سربراہ سے ریٹ کچھ طے ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ کا بھی کہیں اوپر ریٹ کچھ اور مقرر ہوتا ہے۔ آپ تک پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت گرتی جاتی ہے۔
آپ میں سے اکثر ان پارٹی سربراہوں سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ زیادہ سمجھدار ہیں۔ زیادہ تجربہ کار ہیں۔ زیادہ وفادار ہیں۔ آپ کو تو پارٹی سے وابستہ ہوئے بیس پچیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ آپ پر دوسری پارٹیوں سے آنے والے عہدیدار مسلط کردئیے جاتے ہیں۔ وہ آپ کو پھر اسی پارٹی کے اصول اور مقاصد سمجھانے لگتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کے دل پر اس وقت کیا گزرتی ہوگی۔ مگر آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی۔ آپ اپنی وابستگی میں کوئی خلل نہیں آنے دیتے۔
میں آج آپ سے کھل کر دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اپنے علاقے کا مزاج اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے مسائل سے زیادہ واقف ہیں۔ یہاں کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔ ان کی خوشحالی میں کیا رُکاوٹیں ہیں۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ اپنی پارٹی کو مجبور کریں کہ آپ کے علاقے کے مسائل اپنے منشور میں شامل کریں۔ پھر ترقی یافتہ جمہوریتوں کی طرح پارٹی ٹکٹ بھی آپ کے علاقے کے امیدوار کو آپ کے مشورے سے جاری ہونے چاہئیں۔ پارٹی کو چاہئے کہ وہ آپ کے انتخابی حلقے میں کنونشن منعقد کرے۔ آپ کی رائے جانے۔ پھر ٹکٹ جاری کرے۔آپ متحد ہوکر یہ اصرار کریں گے ۔ دبائو ڈالیں گے تب پارٹی یہ راستہ اختیار کرے گی۔
آپ کیوں نہیں اپنے علاقے کے مسائل کی فہرست بناتے۔ اپنے علاقے کے اچھے لوگوں کے نام اکٹھے کرتے۔ اب تو ٹیکنالوجی نے یہ کام آسان کردیا ہے۔ رابطے سہل کردئیے ہیں۔ آپ کو مل جل کر یہ جائزہ بھی لینا چاہئے کہ پارٹی کے گزشتہ الیکشن منشور میں سے کتنے نکات پر عملدرآمد ہوا اور کتنے نظر انداز کردئیے گئے۔
اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ اتنے آلات ایجاد ہوگئے ہیں جو آپ کو ایک دوسرے سے منسلک رکھتے ہیں۔ کیا پارٹی نے آپ کو اسمارٹ فون دیا ہے۔ آپ کو واٹس ایپ کے گروپ میں شامل رکھا ہے۔ آپ اپنے پارٹی سربراہ کو کوئی اطلاع۔ مشورہ۔ تجویز دینا چاہتے ہیں تو آپ کا براہِ راست رابطہ ان سے ہے یا نہیں۔ اصولاً تو ہر کارکن کے پاس لیپ ٹاپ بھی ہونا چاہئے۔
آج کا دَور تربیت اور ہُنر مندی کا ہے۔ میں نے تو بہت پہلے ایک پارٹی سربراہ کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے پرانے وفادار کارکنوں کو بین الاقوامی کانفرنسوں۔ ورکشاپوں میں پارٹی کے خرچ پر بھیجا جائے۔ وہ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جاکر دیکھیں کہ منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے۔ تنازعات کیسے طے ہوتے ہیں۔ مقامی معیشت کیسے چلائی جاتی ہے۔ شہروں کو صاف ستھرا کیسے رکھا جاتا ہے۔ انتخابی مہم جدید دَور میں کیسے چلائی جاتی ہے۔ ان پارٹیوں کو بہت ملکوں سے دعوتیں ملتی ہیں۔ کارکنوں کی جگہ یہ خود چلے جاتے ہیں۔ اپنی اولاد کو بھیج دیتے ہیں۔ آپ اپنے سربراہوں سے سوال جواب کریں۔ ان پر دبائو ڈالیں کہ آپ کو اہلیت تجربے اور وابستگی کی بنیاد پر ترجیح دی جائے۔
یہ دو تین مہینے ہیں جب یہ آپ سے ہاتھ ملائیں گے۔ گلے ملیں گے۔ آپ کے اہل خانہ کا حال احوال پوچھیں گے۔ الیکشن ہوگئے ۔ یہ ہار یا جیت گئے۔ پھر انہیں فرصت نہیں ہوگی۔ اس لئے ان 90یا 100دنوں میں آپ اپنی اہمیت تسلیم کروائیں۔ اپنے ایم این اے۔ ایم پی اے کے بارے میں رپورٹ تیار کریں کہ وہ پانچ سال میں اپنے علاقے میں کتنی بار آئے۔ کارکنوں کی غمی خوشی میں شریک ہوئے یا نہیں۔اپنے پارٹی سربراہ کو یہ رپورٹیں بھیجیں۔ میڈیا کو ارسال کریں۔ سوشل میڈیا پر دیں تاکہ 2018کے لئے ٹکٹ عوام کی خدمت کرنے والوں کو دئیے جائیں۔ پارٹیاں مختلف ہوں۔ لیکن آپ سب سیاسی کارکنوں کا عزم تو اپنے علاقے اور ملک کی خدمت ہے۔ تو آپ سب سیاسی کارکنوں کو آپس میں بھی ملنا چاہئے۔ اوپر والے آپ کو لڑواتے ہیں۔ آپ تو ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ہی مقصد ہے تو ایک دوسرے سے ملنے میں کیا حرج ہے۔ آپ طاقت ہیں۔ قوت ہیں۔ توانائی ہیں۔ اپنی خودی پہچانیں۔