سیدھا راستہ..ہارون الرشید
ہم میں سے کتنے لوگ صراطِ مستقیم پر چلنے کے آرزو مند ہیں اور کتنے ہیں جو فقط‘ ”اھدناالصراط المستقیم‘‘ کی تکرار پہ اکتفا کرتے ہیں؟
یہ کالم کا دن نہیں تھا۔ مسلسل دو روز نیند کی کمی اور قدرے زیادہ مشقت نے نڈھال کر رکھا تھا۔ بس میں ہوتا تو ٹی وی پروگرام میں بھی شریک نہ ہوتا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے بارے میں ایک پیغام نے بھاگم بھاگ دفتر پہنچنے اور یہ سطور لکھنے پر آمادہ کیا۔
ٹویٹر پر لکھا: ”اللہ خلوص اور ریاضت کا صلہ دیتا ہے۔ ہر اہم عہدے کے لیے ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام لیا جا رہا ہے‘ حالانکہ وہ تین بار ہاریں‘ اس کے باوجود عمران خان کے بعد‘ پارٹی میں سب سے زیادہ مقبول ہیں‘‘۔
اس پر بہت سے تبصرے موصول ہوئے۔ اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ کہ میں دنگ رہ گیا۔ ان میں سے پہلا یہ تھا: ”یقین کیجئے ڈاکٹر صاحبہ ہاریں تو مجھے ایسا لگا کہ یہ الیکشن میری والدہ لڑ رہی تھیں اور وہ ہار گئی ہیں۔ اتنا برا لگا۔ مگر اب خوشی ہو رہی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کا نام لیا جا رہا ہے‘‘۔ کچھ اور تبصرے بھی۔
o ”خلوصِ نیت اور بے ریا عمل‘ اس خاتون کی پہچان ہے۔‘‘
o ”ایسی شفّاف مسکراہٹ اور دلیر خاتون‘ ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ میں انہیں اپنی ماں سمجھتا ہوں۔ اب کی بار پاکستان جا کے ان کے ہاتھ چومنے کی خواہش ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں طویل اور صحت مند زندگی عطا کرے۔‘‘
o ”دیانت‘ وفا اور جرأت اعلیٰ ترین انسانی صفات ہیں۔ کم ہی لوگ ان خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ آخری لمحے تک جدوجہد جاری رکھتی ہیں۔ پختون خوا کے محکمہ صحت میں جو اصلاحات کی گئیں‘ ان میں ڈاکٹر صاحبہ کا کردار ہے۔‘‘
o ”ڈاکٹر یاسمین راشد ایسے لوگوں سے‘ تحریک انصاف کا وجود ہے۔‘‘
o ”ڈاکٹر یاسمین راشد‘ پاکستان کی خدمت کرتی نظر آتی ہیں۔ انہیں کوئی عہدہ ملے یا نہ ملے‘ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے ہمہ وقت‘ وہ اسی عمل میں مصروف رہتی ہیں۔‘‘
o ”ڈاکٹر صاحبہ کو بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں۔ ان کی عوامی خدمات‘ قابلِ تحسین ہیں۔‘‘
o ”اعمال کا دارومدار نیّت پہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ مخلص اور دیانت دار ہیں۔‘‘
o ”اسے کہتے ہیں‘ ہار کے جیت جانا‘‘
o ”جس کو اللہ عزت دے۔‘‘
o ”ڈاکٹر صاحبہ نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے چودہ الیکشن لڑے اور سب کے سب جیتے۔ مسلسل 28 برس تک وہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر رہیں۔ وہ پی ٹی آئی پنجاب کی پہلی منتخب سیکرٹری جنرل تھیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے جو کچھ حاصل کیا‘ اس میں ان کی ٹیم بنانے کی صلاحیت اور محنت کا دخل ہے‘‘
محمد سہیل ”یاسمین بہت محترم ہیں مگر اسد عمر پارٹی میں سب سے زیادہ مقبول ہیں‘ عمران خان کے بعد‘‘
اپنی رائے پر ناچیز کو اصرار نہیں۔ ممکن ہے محمد سہیل کا اندازہ درست ہو۔ اس پہ بھی ہرگز اصرار نہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کو صوبائی وزیر صحت‘ وزیر اعلیٰ‘ گورنر‘ پنجاب اسمبلی کی سپیکر یا صدرِ پاکستان کا عہدہ سونپا جائے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو میں نے بہت قریب سے نہیں دیکھا۔ کہہ نہیں سکتا کہ کس میدان میں اور کس منصب پر وہ زیادہ اچھے نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ اور دوسرے اہم مناصب کے امیدوار‘ تحریک انصاف کے دوسرے امیدواروں میں سے اکثر کا بھی زیادہ تجربہ نہیں۔ جو رہنما اور اخبار نویس زیادہ جانتے ہیں۔ ان کی رائے زیادہ معتبر ہو گی۔
قدرت کے اٹل قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ خلوص اور مستقل مزاجی سے کی جانے والی محنت کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ آدمی اکثر انصاف نہیں کرتے۔ وہ تعصب‘ ذاتی مفاد یا حسد کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فیصلے مگر اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ فقط عادل ہی نہیں بلکہ اس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عادل پر غالب ہے۔ وہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ زندگی‘ دنیا اور کائنات اس کی ہے۔ فیصلے اسی کی بارگاہ سے صادر ہوتے ہیں۔
چھ برس ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز ہسپتال والے ڈاکٹر محمد سرور نے ایک دن اچانک کہا: عمران خان سے کہیے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے‘ وہ ایک پیدائشی لیڈر ہیں۔ اس وقت ان کا نام تک نہ سنا تھا۔ بھول جانے والا آدمی بھول گیا؛ البتہ کئی برس کے بعد خان کو فون کیا اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور عندلیب عباس کو پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کا ممبر بنایا جائے۔ معلوم نہیں اس مشورے پر عمل کرنا انہوں پسند کیا یا نہیں مگر صاد فوراً ہی کیا۔ اس وقت تک ڈاکٹر یاسمین راشد ایک مسلّمہ لیڈر بن کے ابھر چکی تھیں۔
کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا؟ پوری انسانی تاریخ میں کارفرما‘ انسان کے عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ ظاہری ظفرمندی کو گاہے‘ وہ مستقل سمجھ لیتا ہے۔ عارضی ناکامی سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تو بہت زیادہ ہی۔ آدمی کے اندر اپنے آپ پر ترس کھانے کی جو جبلت کارفرما ہے ‘شاید وہ اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ تاریخ کا سبق اور زندگی کا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ کوئی کامیابی‘ مستقل کامیابی ہے اور نہ کوئی ناکامی‘ مستقل ناکامی۔ ناکامی سے سبق سیکھ لیا جائے تو ناکامی نہیں رہتی‘ کامیابی میں ڈھلنے لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو اس طرح کہ چہار سمت چراغاں ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس قدر کہ تاریخ کی لو ح پر کوئی نام جگمگانے لگتا ہے۔ عکّہ کی فیصلہ کن جنگ صلاح الدین ایوبی ہار گیا تھا‘ مگر مایوس ہونے سے اس نے انکار کر دیا۔ اب اس کا نام تاریخ کے عظیم ترین رہنمائوں میں شامل ہے۔ کم ہی کوئی عشرہ گزرتا ہے جب اس پر کوئی نئی کتاب رقم نہ ہو یا نئی فلم نہ بنے۔ کامیابی زعم کو جنم دیتی ہے اور بعض اوقات تو تکبّر بھی۔ یہ پسپائی اور نامرادی کا آغاز ہوتا ہے۔ ڈھلوان پر آدمی لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ یورپ کی فتوحات نے نپولین کو روس میں مہم جوئی پر آمادہ کیا۔ جب اس کے بہترین دوست نے روکنے کی کوشش کی تو فاتح نے اس کا مذاق اڑایا۔ آخر کو وہ کھیت رہا۔
تحریک انصاف کی فتح ادھوری ہے۔ پارٹی ان خوبیوں اور خصائل سے محروم ہے‘ مستقل طور پر فروغ کی جو ضامن ہوتی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ تنظیم ناقص ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اس کے لیڈر لڑتے جھگڑتے اور سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ الیکشن 2018ء میں اس کی فتح کن عوامل سے پھوٹی ہے‘ وہ اگر ایک منظم جماعت ہوتی تو دوسروں کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ اگر امیدواروں کے انتخاب کا کوئی مؤثر نظام وضع کر لیا ہوتا تو ٹکٹوں کی تقسیم میں اس قدر حماقت کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ مثلاً سرگودھا کے ممتاز کاہلوں کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جاتا‘ اور اس کے مشوروں پر عمل کیا جاتا‘ تو پانچ میں سے تین سیٹوں پر کامیابی کا امکان تھا۔ بالکل برعکس پے بہ پے پارٹیاں بدلنے والی ڈاکٹر نادیہ کو نوازا گیا۔ ممتاز کاہلوں کو کھیل سے نکال دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ کی پانچ سیٹیں ہار دی گئیں۔ علاقے کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پورا ایک دن سرگودھا میں بسر کیا تھا‘ اور تحریری طور پر اپنی رائے گوش گزار کر دی تھی۔
اتوار کی صبح لاہور میں پی ٹی آئی کے ایک نومنتخب ایم پی اے کو غنڈہ گردی پر گرفتار کر لیا گیا۔ پارٹی میں ایسے عناصر اور بھی ہیں۔ وہ پہلے سے بدنام تھا۔
حقیقی خلوص محض ایک طرزِ فکر کا نام نہیں۔ مقصد سے واقعی جو محبت کرتا ہے‘ وہ ایثار کرے گا‘ ریاضت میں لگا رہے گا۔ سیاست میں ایسے لوگوں کا فقدان ہے۔ الیکشن میں پی ٹی آئی کی برتری دراصل نواز شریف اور زرداری کی ناکامی ہے۔ خلق ان سے اکتا چکی تھی۔ شخصی اندازِ حکومت اور کرپشن۔
اپنے اصحاب کے درمیان‘ سرکارؐ نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا۔ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں اور پھر ایک سیدھی لکیر۔ پھر ارشاد کیا: یہ صراطِ مستقیم ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگ صراطِ مستقیم پر چلنے کے آرزو مند ہیں اور کتنے ہیں جو فقط‘ ”اھدناالصراط المستقیم‘‘ کی تکرار پہ اکتفا کرتے ہیں؟