منتخب کردہ کالم

سیکھنے کا لمحہ کب آئے گا؟ نازیہ مصطفی (حرفِ ناز)

اس میں تو یقینا کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں اب تک چارمرتبہ فوج براہ راست اقتدار میں آچکی ہے۔ اِن میں جنرل ایوب خان1958ء میں اقتدار میں آئے اور دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنے بیٹھے رہے۔ ایوب خان کے دور میں ملک میں سماجی و صنعتی شعبے میں انقلاب تو آیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاست میں زوال بھی آگیا، جس کی وجہ سے پاکستان کا مشرقی بازو روز بروز اپنے مغربی بازو سے دور ہوتا چلا گیا اور پھر ایوب خان کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں رخصت بھی ہونا پڑا۔ دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان تھے، جو اپنے پیشرو ایوب خان کے ساتھ باقاعدہ ”ہاتھ‘‘ کرکے خود صدر بن بیٹھے تھے، لیکن جب یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے تو صرف یہ نہیں ہوا کہ خود یحییٰ خان کے ساتھ بھی ہاتھ ہوگیا، بلکہ پاکستان کا مشرقی بازو بھی پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کٹ کر بنگلا دیش بن گیا۔ تیسرے فوجی حکمران کو امیر المومنین بننے کی سوجھی تو مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان جہاد کی آڑ میں ملک میں پنپنے والے کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کی جانب سے آنکھیں موند لی گئیں، اور پھر 90ء کی پوری دہائی کے دوران اس کلاشنکوف کلچر کی فصل انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی صورت میں کاٹی جاتی رہی۔ چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ملک کو روشن خیال اور لبرل بنانے کا نعرہ اس زور سے لگایا کہ محض مسلمان گھرانے میں پیدا ہوکر مسلمان ہونے کا ”شرف‘‘ رکھنے والے ایسے لوگ بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے، جن کا اپنی عام زندگی میں اسلام سے کچھ لینا دینا نہ تھا، پھر دہشت گردی کی ایسی لہر نے جنم لیا کہ الامان و الحفیظ!
براہ راست ملک کے سیاہ و سفید اور قوم کے مقدر کے مالک بننے والے چار فوجی حکمرانوں کے علاوہ بھی کئی ایسے آرمی چیفس رہ چکے ہیں، جنہیں ملک میں مارشل لاء لگانے کی ضرورت بھی نہ پڑی اور وہ سول حکمرانوں سے کام بھی اپنی مرضی کا لیتے رہے، جس پر عرف عام میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ملک کی اصل ڈرائیونگ سیٹ پر کبھی کوئی سول حکمران نہیں رہا۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس ملک کے سارے مسائل کے ذمہ دار پاکستان پر اکتیس بتیس سال تک براہ راست حکمرانی کرنے والے فوجی حکمران ہی ہیں، بلکہ فوجی حکمرانوں سے مجموعی طور پر زیادہ عرصہ برسر اقتدار رہنے والے سیاستدان اس سے کہیں زیادہ ذمہ دار ہیں۔
ماضی کو تو خیر چھوڑیں۔ اب حال میں پاناما کیس کو ہی لے لیں! پاکستانی سیاستدانوں کی سنجیدگی کا عالم ملاحظہ کریں کہ اُن میں اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ،جرأت اور سکت ہی نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا یہ قبیلہ اپنے اپنے چوروں کو بچاکر صرف اور صرف وزیراعظم اور اُن کے خاندان کا احتساب کرنا چاہتا ہے اور یوں یہ قبیلہ بالواسطہ صرف اور صرف اپنے چوروں کو بچانے کی کوشش میں ہے۔ اس قبیلے کی بلا سے پاکستان میں متوازن ٹیکس کلچراور شفاف اور یکساں احتساب کا نظام رائج نہیں ہوتا تو نہ ہو۔ اِس قبیلے کی بلا سے نوجوانوں کی آنکھوں میں امید کے ٹمٹماتے چراغ بجھتے ہیں تو بجھتے رہیں، اِس قبیلے کی بلا سے پاکستانی عوام کے روشن پاکستان کی بنیاد رکھنے کے خواب جائیں بھاڑ میں! اور اس میں معاملہ صرف ایک آدھ سیاستدان کا بھی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن کی زیادہ تر جماعتوں کے نامی گرامی سیاستدانوں نے پاناما لیکس کے معاملے میں خود کو خود بے توقیر کیا۔ اس سے قطع نظر کہ پاناما لیکس نے کس کس کے پردے چاک کیے؟ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاناما لیکس کے انکشافات میں خیر کا پہلو بھی چھپا ہوا تھا اور خیر کا پہلو یہ تھا کہ اِن انکشافات کے بعد ملک میں متوازن ٹیکس کلچر، شفاف اور یکساں احتساب اورروشن پاکستان کی بنیاد رکھے جانے کی ایک امید پیدا ہوگئی تھی، لیکن اپوزیشن جماعتوں نے یہ بہترین موقع بھی تقریبا گنوا دیا ہے۔ پاناما لیکس ملک میں سب کے احتساب کا اہم ترین اور غالبا آخری موقع تھا۔ حکومت کی جانب سے سب کے احتساب کیلئے جو ٹی او آرز پیش کیے گئے، اپوزیشن نے اُنہیں مسترد کردیا۔ اس کے بعد سے ضوابط کار تیار کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں جو کچھ بھی ہوا، وہ صرف اور صرف سیاست ہی ہے اور سیاست بھی ایسی کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
پاناما کیس میں اپنے اپنے ذاتی مفادات کے شکنجوں میں جکڑے سیاستدانوں نے اُس پہلوان کو پچھاڑنے کی کوشش کی، جس نے اپنے سارے مخالفین کو کھلا چیلنج دے رکھا تھا کہ ”چاہے سب اکیلے اکیلے حملہ آور ہوں یا سب مل کرزور لگالیں، لیکن پہلوان کی جانب سے سب کے احتساب کے دھوبی پٹکے سے بچ کوئی بھی نہیں پائے گا‘‘۔ لیکن اپوزیشن کا کیا کیا جائے کہ وہ تو ”سب کے احتساب‘‘ کا ذکر آتے ہی یوں بدک اٹھتی ہے کہ جیسے اُس کے پاؤں کے نیچے دھکتا ہوا انگارہ رکھ دیا گیا ہو۔ اگر اپوزیشن میں موجود ایسے چوروں کو بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اپوزیشن وزیراعظم کی جانب سے ”سب کے اقتدار‘‘ کے نہلے پر پیشکش قبول کرنے کا اپنا دہلا ماردیتی تو پوری قوم کا بھلا ہوتا اور اس ملک میں کرپشن کے تمام راستے بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجاتے! لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے ضوابط کار تیار کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن ارکان کے پاس اپنے ٹی او آرز منوانے کیلئے اخلاقی، سیاسی یا قانونی دلائل موجود ہی نہیں تھے۔ اپوزیشن تو ہر صورت بس یہ چاہتی تھی اور اب بھی چاہتی ہے کہ باقی سب کو چھوڑ چھاڑ کرصرف نواز شریف اور اُن کے خاندان کا احتساب کیا جائے اور اس مقصد کیلئے بھی وہ وزیراعظم کے ہاتھ پاؤں باندھ کراُنہیں عدالتی کمیشن کی کچھار میں پھینک دینا چاہتے تھے، تاکہ اُس کے بعد جو کرے وہ ”شیر‘‘ ہی کرے!عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی اپوزیشن کے وکلاء نے ملک سے کرپشن کے مکمل خاتمے کی بجائے سارا زور صرف اور صرف وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دلوانے میں لگادیا۔ اپوزیشن کی اس کوشش کا جو بھی نتیجہ نکلے گا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
قارئین کرام!! موجودہ صورتحال پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ افسوس صد افسوس! افسوس تو اِس بات کا بھی ہے کہ پاکستان میں صرف فوجی حکمران ہی ملک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ سیاستدان بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قوم کی گردنوں پر زبردستی سوار ہونے والوں نے ملک کو غلط راستوں پر ڈالا بلکہ المیہ تو یہ بھی ہے کہ ووٹ لے کر منتخب ہونے کے دعویدار سیاستدان بھی کسی لمحے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی طرف نہیں آئے۔ نجانے ایسے لوگوں کی زندگی میں سیکھنے کا لمحہ کب آئے گا، جن کے ہاتھ میں قسمت سے یا زور زبردستی اس ملک کی باگ ڈور آجاتی ہے؟