سی پیک حقیقی گیم چینجر
انیسویں صدی کے آخر میں دنیا میں مختلف ممالک کے درمیان فوجی اتحاد بننا شروع ہوئے تو بیسویں صدی کا بڑا حصہ اِنہی فوجی اتحادوں اور ان فوجی اتحادوں کے نتیجے میں آنے والی ہلاکت خیزیوں اور تباہی کی نذر ہوگیا۔ پہلے دو عالمی جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے اور پھر دو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ نے کئی دہائیوں تک پوری دنیا میں خاک و خون کا بازار گرم کیے رکھا۔ سوویت یونین کے کمزور پڑنے کے ساتھ ہی ممالک کے درمیان معاشی بلاک فوجی اتحادوں کی جگہ لینے لگے۔ اسی طرح کے ایک اتحاد کا نظریہ ستر کی دہائی میں بنگلہ دیشی صدر ضیاء الرحمن نے پیش کیا، جس کا مقصد جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان ایک ایسا تجارتی بلاک قائم کرنا تھا جس کا مقصد یہ ہو کہ ایک پلیٹ فارم پر جنوبی ایشیائی ممالک کے باہمی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اُن کا حل تلاش کیا جائے اور اِس تنظیم میں شامل تمام ممالک ایک دوسرے سے زراعت و مواصلات اور سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کریں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ”تنظیم‘‘ یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیا کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کر سکے۔اسی نظریے کے تحت 1985 میں ڈھاکہ میں جنوبی ایشیائی ممالک کی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے خطے کیلئے گیم چینجر قرار دے کر سارک کا نام دیا گیا۔ سارک میں دنیا کے گنے چنے خوبصورت ممالک پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، افغانستان، بھوٹان، نیپال، مالدیپ اور سری لنکا شامل ہیں۔
سارک کے بعد معاشی اتحاد ختم نہیں ہوئے، مثال کے طور پر برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ زیادہ آبادی رکھنے والے پہلے 25 ممالک میں شامل ہیں۔ اس وقت دنیا کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی یعنی تین ارب ساٹھ کروڑ افراد اِنہی پانچ ممالک میں رہتے ہیں۔یہ پانچ ممالک دنیا کے چاربڑے برِاعظموں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کی بھی ”نمایندگی‘‘ کرتے ہیں۔ یہ پانچوں ممالک تیزی سے اُبھرتی ہوئی معیشت رکھنے والے ممالک میں بھی شامل ہیں۔ اِن میں سے تین ممالک ایٹمی قوت بھی ہیں، دنیا کی جی ڈی پی میں اِن ممالک کاحصہ 16.6ٹریلین ڈالر ہے، جو دنیا کی مجموعی پیداوار کا 22 فیصد ہے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کی 30 فیصد جی ڈی پی بھی اِنہی ممالک سے آتی ہے اورعالمی سطح پر تجارت میں اِن پانچ ممالک کا حصہ تقریباً 18 فیصد حصہ ہے۔ اِنہی ممالک کا ایک اتحاد ابتدائی طور پر جون 2009میں سربراہی اجلاس کے انعقاد سے وجود میں آیا، جنوبی افریقہ کی شمولیت کے بعد اب یہ اتحاد برکس(BRICS) کہلاتا ہے۔اس اتحاد کو بھی دنیا کیلئے گیم چینجر کہا گیا۔
دونوں تنظیمیں سارک اور برکس اب تک کتنی کامیاب رہی ہیں؟ اس کا جائزہ لینا مشکل نہیں کیونکہ دونوں اتحادوں میں بھارت ایک بڑے ملک کے طور پر شامل ہے۔ دنیا کے تین فیصد رقبے پر پھیلے سارک ممالک کا دنیا کا معیشت میں حصہ بھی اِن ممالک کے پوٹینشل کے مطابق اور تناسب سے ہونا چاہیے تھا،لیکن اپنے قیام کی تین دہائیوں سے لے اب تک ”سارک‘‘ کی تاریخ زیادہ تر اُتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بھارت کا منفی رویہ اور کردار ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہونے کے ناتے سارک ایک ارب 47کروڑ لوگوں کی نمایندگی کرتی ہے، لیکن افسوسناک طور پر دنیا کی 21 فیصد آبادی رکھنے والے اِن ممالک کا مجموعی عالمی معیشت میں حصہ صرف 9.12 فیصد ہے۔یوں اِس تنظیم سے وابستہ توقعات ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں، توقعات پوری نہ ہونے کی یوں تو کئی وجوہات ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ علاقائی چودھراہٹ کے خبط میں مبتلا بھارت کا بڑا ملک ہونے کا خمار اور مسائل حل نہ کرنے کی ہٹ دھرمی ہے۔ مثال کے طور پر جب بھی سارک سربراہی کانفرنس کے دن قریب آتے ہیں تو بھارت اس میں شرکت سے انکار کردیتا ہے کیونکہ بھارت کو معلوم ہے کہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کرکے اُسے مسائل حل کرنے کیلئے دوسرے ممالک کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ ابھی حال ہی میں بھارت نے پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں ناصرف شرکت سے خود انکار کیا بلکہ اپنے حواری ممالک پر دباؤ ڈال کر اُنہیں بھی شرکت سے روک دیا۔ بھارت کی مرضی کے مطابق خطے میں ”گیم چینج‘‘ نہ ہوئی تو اپنے اِسی خمار اور روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت نے بہت زیادہ پوٹینشل رکھنے والی تنظیم سارک کو دنیا کی ناکام ترین تنظیم بناکر رکھ دیا۔
دوسری جانب BRICS ممالک کا اتحاد اب اپنے آٹھویں سال میں داخل ہوچکا ہے، لیکن جن مقاصد کیلئے یہ اتحاد تشکیل دیا گیا تھا وہ اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ بلکہ یہ اتحاد درست سمت میں نہ جانے کی وجہ سے عقلمند لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ برکس (اینٹ) کی اینٹیں اب ایک ایک کرکے گر رہی ہیں۔برکس کے وجود میں آنے کی وجہ رکن ممالک کی ابھرتی معیشت اور ان کی اقتصادی طاقت تھی، لیکن اس کے زیادہ ارکان اِس وقت سخت اقتصادی مندی کے بوجھ تلے دبے اور معاشی ترقی کی منفی شرح کا امکان لیے ہوئے ہیں۔ ”برکس‘‘ کے مقاصد حاصل نہ ہونے میں بھی بھارت ایک بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت اور چین میں کئی مسائل پر اختلافات اور تضادات برکس کی ترقی راہ میں خود ہی حائل ہیں۔معاملہ یہاں تک دو طرفہ ہی رہتا تو بھی شاید برکس کو کچھ زیادہ نقصان نہ ہوتا، لیکن سارک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں ناکام رہنے کے بعد بھارت نے برکس کو بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ایسی ہی ایک کوشش بھارت نے نئی دہلی میں ہونے والے ”برکس سربراہی اجلاس‘‘ میں بھی کی۔ بھارت کی یہ کوشش تھی تو پاکستان کے خلاف لیکن درصل یہ کوشش خود برکس کے خلاف تھی۔اس کوشش کو برکس کے دیگر رکن ممالک نے بھانپ لیا اور یوں ”برکس‘‘ کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کو دہشت گرد ممالک کی صف میں شمار کرنے کی بھارتی خواہش پر اُس وقت اوس پرگئی جب چین نے یہ کہہ کر بھارت کا منہ بند کیا کہ دہشت گردی کو کسی ملک یا کسی مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ چین نے واضح کیا کہ بھارت اور عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عظیم قربانیوں کا احترام کرے۔ اپنی کوشش میں ناکامی کے بعد اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سارک کے بعد بھارت ایک ایک کرکے کس طرح ”برکس‘‘ کی اینٹیں بھی اکھاڑ ڈالے گا۔
قارئین کرام! بھارت کو ناکامی صرف سارک اور برکس کے معاملے میں نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کو مغربی سمت سے گھیرنے کی کوشش بھی ناکام ہوچکی ہے کیونکہ بھارت کے قریب سمجھے جانے والے افغانستان اور ایران نے بھی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے، اِن دونوں ممالک کو سی پیک میں شامل کرنے پر چین کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ افغانستان اور ایران کی سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش کے بعد اب ناصرف چاہ بہار میں بھارت کی ”سرمایہ کاری‘‘ ڈوبنے کاامکان پیدا ہوگیا ہے بلکہ اب بھارت سارک اور برکس کی اینٹوں سے اپنا سر پھوڑنے کے سوا کچھ بھی نہ کرسکے گا۔ اب بھارت سمیت پوری دنیا پر بہت جلد ثابت ہوجائے گا اصل اور حقیقی گیم چینجر سی پیک ہی ہے۔