سی پیک سےمتعلقہ قوانین۔ اہم سیمینار…محمود شام
آج الفاظ بہت خوش ہیں، مطمئن ہیں کہ انہیں عزت و وقار میسر آرہا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر ادا کیا جارہا ہے۔ ہر بولنے والے کے لہجے میں اعتماد ہے، یقین ہے، مقصد ہے، حال کی فکر، مستقبل سے امید۔ پانچ ستارہ ہوٹل میں ستاروں پر کمند ڈالی جارہی ہے۔گفتگو طویل ہورہی ہے لیکن سننے والوں کے چہرے پر تھکن ہے نہ بیزاری، ان میں نوجوان زیادہ ہیں۔ ہر مقرر کی بات غور سے سن رہے ہیں۔ آپس میں بات چیت میں مگن نہیں ہیں۔ نہ ہی موبائلوں پر سوشل میڈیا سے کھیل رہے ہیں۔ علامہ اقبال میرے کانوں میںکہہ رہے ہیں۔
نہیں اقبال نہ امید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی
یہ نم قاضی خالد علی بانی وائس چانسلر شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء نے فراہم کیا ہے۔ چار گھنٹے پر محیط ایک سیمینار بہت ہی اہم موضوع پر۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری متعلقہ قوانین، ان کی اہمیت اور نفاذ سنجیدگی، متانت، نظم و ضبط غالب ہے۔ اسٹیج پر فاضل جج صاحبان کی ایک کہکشاں ہے۔ قاضی خالد علی خود بھی جج رہ چکے ہیں اس لئے ان کی برادری اس اہم موضوع پر شریک سخن ہونے کیلئے موجود ہے۔ سی
پیک کی فصل بوئی جارہی ہے۔ کسی شاپنگ مال میں دیکھیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں ایئرپورٹوں پر کچھ نہ کچھ چینی بھائی، چینی دوشیزائیں ضرور نظر آتی ہیں۔ اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی چینیوں کی چیں چاں سنائی دیتی ہے۔ یہ سب سی پیک کی بہاریں ہیں۔
اتنے سارے معزز، منصفین، ماہرین، وفاقی سیکریٹری، وکلاء کمی ہے ایک درخواست گزار کی یا ملزم کی، میں اپنے آپ کو اس خلا کوپر کرنے کیلئے پیش کررہا ہوں۔
زبان یارمن چین و من نمی دانم
ہمیں شے شے کہنا آتا ہے۔ اور ’’نی ہائو‘‘لیکن خوشی کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل چینی زبان سیکھ رہی ہے۔ دی نیوز نے ہفتے میں ایک بار چینی زبان سکھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ساتھ ہی ’’چائنا ڈیلی‘‘کا ایشیا ویکلی بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس سے آج کے چین کے بارے میں قیمتی معلومات ملتی ہیں۔
بہت عرصے بعد ایک بامقصد گفتگو سننے کو مل رہی ہے۔ انسانی زندگی میں چند لمحوں کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ آپ کے پاس مخاطب کو پیغام دینے کو کچھ ہونا چاہئے۔ اس کا نتیجہ نکلتا ہے۔ پندرہ سولہ سال سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں 7 بجے شام سے 12 بجے رات تک اتنے بہت سے لمحات دیئے ہیں۔ کتنی بات چیت ہوتی ہے، کتنے باخبرپاکستان اس میں حصہ لیتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں۔ اب سابق وزیراعظم اور مقبول رہنما میاں نوازشریف اور ان کی باہمت صاحبزادی مریم نواز کو کتنے ہزاروں لوگوں سے خطاب کا موقع مل رہا ہے، احتساب عدالت کےباہر میڈیا اور براہ راست یہ نشریات دیکھنے والے لاکھوں ہمہ تن گوش ہوتے ہیں،لیکن اپنی ذات کے ذکر سے باہر کوئی پیغام نہیں ملتا۔
یہاں ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان کے صدر مجید عزیز صنعتکاروں کی نمائندگی کرتے ہوئےسی پیک کے حوالے سے مالکان اور سرمایہ کاروں کی مشکلات بیان کررہے ہیں، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان بھی چینی کمپنیوں سے معاہدوں میں قانونی خامیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں، بہت ہی عرق ریزی سے لکھا ہوا مقالہ۔
ہم بیوروکریسی پر بھی سیاستدانوں کی طرح تنقید کی تلواریں سونتے رکھتے ہیں، لیکن یہاں مجھےندامت محسوس ہورہی ہے کیونکہ سارے وفاقی سیکریٹری بہت محنت سے تیار کردہ نکات پیش کررہے ہیں جن میں مستقبل کیلئے امید ہے، حقائق اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمدرحیم اعوان سیکریٹری ہیں لاء ایند جسٹس کمیشن آف پاکستان کے۔ بہترین سلائیڈز اور مرکزی نکتہ یہ کہ ’’قوانین سے غفلت کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔ بہت اختصار مگر جامع۔ سرمایہ کاری سے متعلقہ تنازعات، دوطرفہ معاہدوں میں کیا کیا قوانین ملحوظ خاطر رکھے جائینگے، انکے لہجے میں اعتماد قابل رشک۔ اکبر حسین درانی، سیکریٹری وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بلوچستان ہیں، ایک عرصہ گزار چکے ہیں، سی پیک میں بلوچستان کا حصہ مرکزی ہے، اس حوالے سے ان کے مشاہدات، تجربات اور تجاویز بہت ہی غور سے سنی جارہی ہیں۔ ایک ایک سطر قابل توجہ سمیرا نذیر صدیقی، سیکریٹری بورڈ آف انوسٹمنٹ حکومت پاکستان، اپنی سلائیڈز کے ذریعےبہت سے خدشات خطرات دور کررہی ہیں۔ سی پیک میں صرف چین نہیں دوسرے ممالک بھی سرمایہ کاری کیلئے فرش راہ ہیں۔ اہم حقائق، اعداد و شمار، متعلقہ قوانین کی وضاحت، بہت ہی سادگی سے جسٹس ریٹائر خلجی عارف حسین ڈائریکٹر جنرل سندھ جوڈیشل اکیڈمی بجاطور پر سی پیک کے حوالے سے بہت سے قانونی سقم بتارہے ہیں۔ خاص طور پر محنت کشوں اور کارکنوں کے حوالے سے کہ اگر کوئی تنازع ہوگا تو وہ کس عدالت یا ادارے کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ ان کے اہم اعتراضات بہت غور سے سنے جارہے ہیں۔
سیکرٹری وزارت پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز شعیب احمد صدیقی بہت نیک نام افسر ہیں،کراچی کے کمشنر بھی رہے ہیں، وہ اسلام آباد سے سیدھے اس تقریب میں پہنچے ہیں، ان کی آواز میں گھن گرج بھی ہے، وہ صدارتی کلمات پیش کررہے ہیں۔اب تک اٹھائے جانے والے سارے اعتراضات کے جواب بھی دے رہے ہیں اور نئی نسل کو یقین دلارہے ہیں کہ سی پیک حقیقت میں ہماری تقدیر بدل دے گا۔ 70 سال میں ہم جو کچھ نہیں کرسکے، چینی سرمایہ کاری سے اپنے زیرزمین خزانے بھی باہر لائینگے۔ ہزارو ں پاکستانیوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔متعلقہ قوانین تشکیل بھی دیئےگئے ہیں۔ پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی کیا جارہا ہے۔ انکی پرجوش تقریرنے نوجوانوں کے دل گرمادیئے ہیں۔ رحیم اعوان صاحب داد دیتے ہوئے شعیب صدیقی صاحب سے کہہ رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کےبعد سیاست میں آنے کا ارادہ تو نہیں ہے۔
مہمان خصوصی جسٹس عرفان سعادت خان سینئرپوئزبن جج سندھ ہائیکورٹ سامعین میں ایک شیرخوار بچے کی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کئی تقرریں غور سے سننے کے بعد اب وہ مطمئن ہوکر سورہا ہے۔ فاضل جج بلند قامت ہیں، بلند خیال ہیں، وہ اہم خبر سے ہی نوازرہے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی اجلاس میں یہ طے ہوگیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ میں ایک بنچ سی پیک سے متعلقہ معاملات کیلئے قائم ہوگا۔ سول عدالتوں سے کہا گیا ہے کہ سی پیک تنازعات سے متعلقہ یکطرفہ حکم امتناعی جاری کرنے سے گریز کریں۔ تقریر دل میں اترنے والی ہے جس میں درد بھی ہے، امید بھی، سی پیک کا پہلا مرحلہ 2020 ءتک ہے، دوسرا 2025 ءتک اور آخری 2030 ءتک۔ سرگرمی اور امید کے 12 سال۔
بے یقینی کی دھند چھٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن صاف ہورہے ہیں، آنکھوں میں چمک نظر آرہی ہے، یہاں جج حضرات بھی ہیں، وکلا بھی، سیکریٹری بھی، لیکن کوئی قانون ساز نہیں ہے، جبکہ سی پیک میں انکا کردار مرکزی ہے۔ اگر کچھ وزرا اور ہوتے تو شاید میڈیا بھی ہوتا مستقبل کی اتنی اہم باتیں۔ 62 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری، ہزاروں نوجوانوں کے روزگار کی امید۔ مگر کسی چینل کے لوگو والا مائیک نہیں ہے، میں بہرحال اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہوں۔ زیبل (شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کو پیار سے کہتے ہیں)یقیناً ان ساری تقریروں کو کتابی شکل میں شائع کرے گا کہ آپ یہ تفصیل سے جان سکیں گے۔