تحریر: عظمیٰ مرزا
اقتصادی راہداری منصوبہ قومی اہمیت کا حامل ہے لیکن مفاد پرست سیاسی جماعتیں این جی اوز اور میڈیا اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آئیے سی پیک کی حقیقت جانتے ہیں تاکہ عوام الناس پر یہ حقیقت آشکار ہو سکے کہ 51بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مشتمل یہ منصوبہ کس طرح پاکستان کو معاشی بلندیوں پر لے جائے گا اور پاکستان میں لوگوں کا معیار زندگی کس طرح بہتر ہو گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2015-30تک قریباً 7لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا اور شرح نمو میں تقریباً اڑھائی فیصد تک اضافہ ہو گا۔ سی پیک کو متنازع بنانے والے اس بات کو بنیاد بناتے ہیں کہ مغربی روٹ جن کا گزر چھوٹے صوبوں سے ہوتا ہے وہاں پراجیکٹس سست روی کا شکار ہیں اور تعداد میں کم ہیں۔ منصوبوں کی تعداد کا مرحلہ وار صوبوں کے حساب سے تعین کیا جائے گا تاکہ واضح ہو سکے کہ سی پیک کے تحت کون سے صوبے کے لوگ احساس محرومی کا شکار ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بلوچستان میں 16پراجیکٹس کی تکمیل عمل میں لائی جائے گی جن میں خضدار باسمہ ہائی وے، ڈی آئی خان، کوئٹہ ہائی وے، حب کو کول پاور پلانٹ، گوادر پاور پلانٹ، گوادر نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن، گوادر ایکسپریس و گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ، گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان، گوادر سکول ، کالج و ٹیکنیکل ووکیشنل کالج کا سنگ بنیاد و گوادر فری زون کا قیام ہے۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت کے پی کے میں عالمی معیار کے مطابق 8منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے جن میں حویلیاں ڈرائی پورٹ کا قیام، ML-Iکا مشترکہ فزیبیلٹی پلان، KKI+6-IIحویلیاں تا تھاکوٹ، ML-Iکی اپ
گریڈیشن، KKI-2رائے کوٹ تا تھا کوٹ، ہائی وے ڈی آئی خان تا کوئٹہ، سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور راولپنڈی تا خنجراب تک آپٹیکل فائبر کیبل کا قیام شامل ہیں۔ سندھ میں پایہ تکمیل پہنچنے والے 12منصوبوں میں مٹیاری لاہور ٹرانسمشن لائن، مٹیاری فیصل آباد ٹرانسمیشن لائن، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، اینگرو تھر پاور پلانٹ، داؤد ونڈ فارم، جھم بورونڈ فارم، سچل ونڈ فارم، چائنہ سونگ ونڈ فارم، ML-Iکی اپ گریڈیشن، تھرک کول بلاک 1 اور مائن ماؤتھ پاور پلانٹ، کراچی لاہور موٹر وے
گوادر نواب شاہ LNGٹرمینل شامل ہیں۔ پنجاب میں اقتصادی راہداری کے تحت جن 12منصوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا دن میں قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ اورنج لائن میٹرو ٹرین اور ساہیوال کول پاور پراجیکٹ قابل ذکر ہیں۔
ان منصوبوں کے تفصیلی ذکر کا مقصد محض یہ حقیقت آشکار کرنا ہے کہ اقتصادی راہداری کے تحت اپنے آپ کو چھوٹے صوبوں کا باسی کہلانے والے کسی طرح بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہو سکتے۔
سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات میں سیاسی جماعتوں کے بے جا اعتراضات حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ یہ اپنی سیاست چمکانے کا ایک وطیرہ ہے۔میڈیا کے علاوہ غیر ملکی سرمیاہ پر چلنے والی این جی اوز بھی سی پیک منصوبے پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت وقت پر الزام عائد کرتی ہے کہ یہ مغربی روٹ کی تکمیل میں سنجیدہ نہیں۔ ہم ان سے ملکی مفاد میں ایک سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ منصوبہ کسی ایک صوبے یا جماعت کا نہیں۔ اس کا روٹ اور تمام تفصیلات چائنہ کی حکومت کے ساتھ مل کر اورتمام سیاسی جماعتوں کی رضا مندی اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد طے ہو گئیں تو پھر اس میں روڑے اٹکانے کی گنجائش کہاں ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی تبدیلی اور مٹھی بھر پشتون اور بلوچیوں کی لا علمی کی بدولت ان کے احساس محرومی کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی ہوئی ہے۔ چائنیز ایمبیسڈر سن وی ڈونگ نے واضح طور پر بیان دیا کہ مغربی روٹ سے متعلق تمام خدشات غلط ہیں اور اس منصوبے کے فوائد سے پاکستان کے کسی ایک صوبے یا کسی ایک حصے کو محروم نہیں رکھا گیا بلکہ ان سب کو لنک رو ڑ کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کیا جا رہا ہے۔اس لیے میڈیا سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کو اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈا سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اقتصادی راہداری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے قونصل جنرل محمد حسین جانی نے اعتراف کیا کہ اقتصادی راہداری ایک بہت بری معاشی پیش رفت ہے اور ایران بھی اسکا حصہ بننا چاہتا ہے اور اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں پاکستانی اور ایرانی تاجروں کے درمیان اشتراک بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتاہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور معاشی ترقی سے متنفر لوگ اعتراضات اور احتجاج کا سہارا ہے کر پاکستان کا منفی
کردار اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقتصادی راہداری کے تحت مغربی روت پر تعمیراتی کام کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، کوئٹہ، پنجگور، تربت اور گوادر میں کام تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے۔ ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خان کے 285KMطویل سیکشن پر جو کام جاری ہے اور اس کی آسان تعمیر کیلئے اسے 5پیکجز میں تقسیم کیا گیا ہے جس
کے 4پیکجز پہلے ہی ایوارڈ لیے جا چکے ہیں۔ موٹر وے ہنڈی کھیپ، سواں، میانوالی، روکھری اور رحمانی خیل سے ہوتی ہوئی پارک پہنچے گی۔ یہ منصوبہ 2سالوں میں 129ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہو جائے گا۔ یہ چار ورویہ موٹر وے ہو گی جس کو بعد میں چھ لین تک توسیع دی جائے گی۔اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب کو دو رویہ کرنے کی فزیبیلٹی اور ڈیزائن مکمل ہو چکے ہیں جبکہ منصوبے کے لیے درکار زمین کے حصول کیلئے حکومت خیبر پختونخوا اور بلوچستان ارسال کیے گئے خطوط کے جواب میں ان صوبائی حکومتوں نے تمام متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو ضروری ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔8.1کلو میٹر طویل ڈیرہ اسماعیل خان ژوب کی اپ گریڈیشن کا کام بھی جاری ہے۔ یہ منصوبہ 9ارب کی لاگت سے 2018میں مکمل ہو جائے گا۔ 331کلو میٹر ژوب قلعہ سیف اللہ کوئٹہ شاہراہ کی اپ گریڈیشن کو راہداری کے کم مدت منصوبے کے تحت اگلے پانچ سالوں میں مکمل کیا جائے گا۔ اسی طرح چمن قلات 226کلو میٹر اور تربت گوادر 183کلو میٹر سیکشنز بھی کامیابی سے مکمل ہو گئے ہیں جبکہسوراب ہوشاب سیکشن 449KMتکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ان تاریخ ساز منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان سمیت پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ بلوچستان کے دوسرے صوبوں سے زمینی روابط ہموار ہونگے جس سے تجارت کو فروغ ملے گا اور لوگوں کے اقتصادی حالات اور معیار زندگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ چائنہ نے سی پیک کے تحت ابتدائی منصوبوں میں 14ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی ہے۔
وزیراعظم کی سخت ہدایت پر عمل کرتے ہوئے چیئر مین نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے راہداری کے مغربی روٹ کا تفصیلی جائزہ لیا اور تعمیراتی عمل میں اطمینان کا اظہار کیا اور عملے پر زور دیا کہ تمام تعمیراتی امور برق رفتاری کے ساتھ عالمی معیار کے عین مطابق عمل کیے جائیں۔
ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو جن اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں ایک سی پیک کا منصوبہ ہے جس کو بھارت سبوتاژ کرنے کے لیے کسی بھی حد کو پار کرنا چاہتا ہے۔ ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ کا مقصد اقتصادی راہداری کو ناکام بنانا ہے۔ بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ میں توسیع کے علاوہ راہداری تک ریلوے لائن بچھانے کا بھی اعلان
کیا ہے۔ اگرچہ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ علاقائی تجارت کے فروغ، اقتصادی ترقی، قدرتی گیس کی فراہمی اور دیگر مقاصد کیلئے اس بندرگاہ کی توسیع چاہتا ہے مگر وہ اپنے دفاعی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ایسا کر رہا ہے۔ وہ چاہ بہار میں رہنا نیول بیس قائم کر کے خطے سمیت وسط ایشیا تک رہنا اثر و اسوخ قائم کرنا چاہتاہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی اور پاک چین دوستی بھارت سے برداشت نہیں ہے۔
ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو کیا بھارت میں اور خود میں کوئی فرق محسوس کر سکتے ہیں۔ 4اکتوبر کو مغربی روٹ تبدیل کیے جانے پر احتجاج غیر مہذبانہ اقدام ہے۔ چین ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر ہمارا اپنا رویہ بھی دشمن سے مماثلت رکھے گا تو ملکی ترقی معدوم ہو جائے گی۔