شادیاں…خانہ آبادیاں!….وقار خان
محرم الحرام شروع ہونے سے قبل لوگ دھڑادھڑشادیوں کاارتکاب کرتے ہیں۔ان دنوںمیںشادی کارڈزاس رفتارسے موصول ہوتے ہیں‘ جیسے کسی ارب پتی خاتون کے رشتے آتے ہیں۔شایدلوگ سمجھتے ہیں کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیاتودوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا؛حالانکہ شادی یاخودکشی توکسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔شادیوں کے اس سیزن میں مہندیوں‘ باراتوں اورولیموں کاجمعہ بازارلگانادراصل ہماری ایک عظیم داخلی روایت کاتسلسل ہے‘ جوآج کاکام کل پرچھوڑنے کے رہنمااصول کے طورپریہاں رائج ہے۔ اگربغورجائزہ لیاجائے‘ تو جہاں منیرؔ نیازی کا مصرع” ہمیشہ دیرکردیتاہوں میں‘‘ہماری زندگیوںکامکمل احاطہ کیے ہوئے ہے‘ وہاں ان میں ” ہنوزدلی دوراست‘‘کی ‘ افیون‘ کا کرداربھی مسلمہ ہے۔آخری وقت میںایئرپورٹ پورٹ پہنچنا‘ آخری تاریخ کودھکے کھاکربل جمع کرانا‘ دیرسے تقریبات میں پہنچنا‘ امتحان سرپرآجائے تو کتابیں کھولنا‘زرمبادلہ کے ذخائرآخری سانسوں پرہوں توقرض کے لیے ہاتھ پائوں مارنا‘ بجلی پیداکرنے کے منصوبوں پر غورکے لیے توڑپھوڑ اورہنگاموں کاانتظارکرنااورمحرم کاچاندنظرآنے کی تاریخ قریب آجائے‘ توشادیوں کے لیے افراتفری مچادینا‘ اسی روایت کا تسلسل ہی تو ہیں۔
کئی خوش نصیب ایسے بھی ہیں‘ جن کی شادی اس سیزن میں تمام ترتیاریوں کے باجودکسی ناگہانی صورتحال کی وجہ سے ملتوی ہوجاتی ہے۔ایسے نوجوانوں کو دیکھ کریقین ہوجاتاہے کہ بچانے والاچاہے‘ تو انسان کو شیرکے جبڑے یاشادی سے بھی بچالے‘تاہم جب اسے کسی کاامتحان مقصودہوتوبندے کی ایسی مت ماری جاتی ہے کہ وہ سانپ کے بل میں ہاتھ دے ڈالتاہے یاشادی کرنے پرتُل جاتاہے۔شامت آتی ہے‘ تواس کاکوہ‘دشت ‘سمندرپرحکمرانی کرنے والامضبوط دل ‘ گیسو‘ابرواوردیدہ زیب پیرہن کے آگے ڈھیرہوجاتاہے اورپھراس کی باقی عمرپیرہن لانے اوردلِ ناداں کوکوستے ہوئے گزرتی ہے۔ہمارے ایک ذہین دوست نے شادی کے مضمرات بھانپ لیے تھے۔آپ نے اک عمراس فعل سے اجتناب کیا‘مگرآخرظالم سماج کے ہاتھوںمجبورہو گئے ۔تب محترم نے سسرال اوربیگم کے لیے ایک خوبصورت اصطلاح وضع کی۔فرمایا:”ہم توسادگی سے شادی کرناچاہتے ہیں‘ مگرفریق مخالف نہیں مان رہا‘‘ ۔ہمارے ایک اوردوست جوبرس ہابرس سے اپنے ”فریق مخالف‘‘ کے حصارستم میں ہیں‘ایک شام پڑوس میں دوستوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ ان کے گھرسے پالتوکتے کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔انہوں نے چونک کرکہا: ”اوہ!مجھے گھرسے نکلتے وقت یادہی نہیںرہاکہ کتے کے کھولنے کا وقت ہوگیاہے‘اب یہ ایسے ہی شورمچاتارہے گا‘‘۔کسی نے کہاکہ اب آپ جاکراسے کھول آئیں۔انہوں نے تاسف سے جواب دیا: ”میں کتے کوکھولنے گیا توفریق مخالف مجھے پکڑکرباندھ دے گااورمیں واپس حلقۂ یاراں میں نہ آسکوں گا‘‘۔
اس نوع کی سبق آموزباتیں توبہت سی ہیں‘ مگرشادیوں کا سیزن ہے اورہم نے آج تین شادیوں میں شرکت کرنی ہے‘ لہٰذااپنے ہاں رائج شادی کی چنداقسام عرض کر کے آپ سے اجازت چاہیں گے۔اللہ نے چاہاتوباقی سبق آموزباتیں اورشادی کی دیگر اقسام آئندہ کبھی عرض کریں گے۔
محبت کی شادی: واللہ ! اس شادی کی ہمارے معاشرے میں ٹکے کی عزت نہیں ۔ یہ وہ شادی ہے‘ جس میں میاں بیوی ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں ‘ جیسے آج ہماری حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں ‘ چونکہ اس شادی کے پیچھے باہمی محبت کارفرما ہوتی ہے ‘ لہٰذا اختلافات اور جھگڑوں کی دھول مٹی کو مذاکرات کے جھاڑو کے ذریعے قالین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے ۔ اس عمل سے آہستہ آہستہ قالین کے نیچے کافی گند اکٹھا ہو جاتا ہے ‘ جس میں طرح طرح کے حشرات الارض پیدا ہو جاتے ہیں اور قالین کو کھانا شروع کردیتے ہیں ‘ نیز گھر میں مختلف بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں ‘ تاہم …”اس طرح تو ہوتا ہے ‘ اس طرح کے کاموں میں‘‘ …سماجی اور ازدواجی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر رانجھے کی ہیر کے ساتھ محبت کی شادی ہو جاتی‘ تو اسے آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جاتا اور محبت کے بارے میں اس کے خیالات یکسر یوٹرن لے لیتے ‘ جیسے الیکشن جیتنے کے بعد ہمارے حکمران اپنے سابقہ بیانات پر لیتے ہیں ۔
ارینجڈ میرج: یہ لو میرج کی متضاداورخاصی باعزت قسم ہے ۔ یہ شادی کئی احتجاجی ریلیوںاوردھرنوں کی طرح باقاعدہ اریجنڈ ہوتی ہے ‘ نہ کہ وقتی جذبات کا اُبال ۔ جس طرح احتجاجی ریلیوں میں اگر عوام بھی شامل ہو جائیں تو واہ بھلا‘ ورنہ فقط ارینج ہی ارینج باقی بچتا ہے ۔ اسی طرح اگر اریجنڈ میرج میں خوشی قسمتی سے لڑکا‘ لڑکی کی مرضی بھی شامل ہو جائے‘ تو سونے پہ سہاگہ‘ بصورت دیگر یہاں بھی ارینج کے قرض خواہ ہی جگرچھلنی کرنے کورہ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں شادی ہذا کچھ اس طرح کے اثرات چھوڑ جاتی ہے ‘ جیسے احتجاجی جلسوں کے بعد شرکا ڈسپوزایبل گلاس‘ خالی بوتلوں اور شاپنگ بیگز کی شکل میں کوڑے کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں ۔
زبردستی کی شادی : یہ شادی باہمی رضا مندی سے انجام پاتی ہے ۔ اس میں سب کی مرضی شامل ہوتی ہے ‘ سوائے دولہا اور دلہن کے ۔ اس شادی میں جمہوریت کا اصول کار فرما ہوتا ہے ‘ یعنی دونوں خاندانوں کی اکثریت کی رائے فقط دو لوگوں کی اقلیتی رائے پر غالب آتی ہے ۔ زبردستی کی شادی کا ایک اور زاویے سے جائزہ لیں تو کھلتا ہے کہ کیدو ہماری تاریخ کا روشن مینار ہے اور ایسی شادیاں اسی کے گراں مایہ افکار کی روشنی میں طے پاتی ہیں ۔ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ یہاں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کریں تو انہیں روک دیا جاتا ہے اور اگر ناپسند کریں تو ان کی شادی کردی جاتی ہے۔بس یہی نقطہ حضرت کیدو کی تعلیمات کا محور ہے اور یہی ان شادیوں کی اساس۔بزرگ اپنی انا اور خواہشات کی تسکین کی خاطر اختیارا ت کے ناجائز استعمال اور جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے زبردستی کی شادیاں کراتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں ”جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ‘‘ جیسے ڈکٹیٹر غیر قانونی ہتھکنڈوں سے اپنے حق میں ریفرنڈم کامیاب کرانے کے بعد کہتے ہیں ”یہ فیصلہ عوام کی بارگاہ میں ہوا ہے ‘‘۔
بے جوڑ شادی: واہ گرو کی جے ! یہ ہمارے سماج کی پسندیدہ اور شادی کی مقبول ترین قسم ہے ۔ مثل مشہو رہے کہ زندگی ایک گاڑی ہے اور میاں بیوی اس کے دو پہیے ۔ پس اسی مثل کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایسے رشتے طے کیے جاتے‘ تاکہ بعد میں جوڑے کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ؛ البتہ گاڑی سے مراد ٹریکٹر لی جاتی ہے اور اس کے اگلے اور پچھلے پہیوں کے درمیان حجم اور ساخت کے فرق کو مد نظر رکھ کر رشتہ طے کیا جاتا ہے ۔ لا محالہ اس شادی کے بعد زندگی کی گاڑی بھی اسی طرح چلتی ہے ‘ جیسے کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے ٹریکٹر کے انجن سے احتجاجی سُر نکلتے ہیں ۔اس شادی میں ٹریکٹر کی ایک اور خوبی بھی حلول کر جاتی ہے کہ اس کے مذکورہ دونوں پہیے اپنے درمیان تمام تر تضادات کے باوجود اکٹھے حرکت کرتے ہیں ‘ تاہم ان کے درمیان مخصوص فاصلہ تاحیات قائم رہتا ہے (جیسے سیاسی رہنمائوں اور عوام کے درمیان ہمیشہ فاصلہ برقرار رہتا ہے )۔ خدا معلوم شاعر نے بے جوڑ شادی یا عوام اور ان کے نمائندوں کے درمیان فاصلے میں سے کس کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ؎
کنارہ دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
فن سے شادی: یہ شادی فلم ‘ ٹی وی ‘ تھیٹر سے وابستہ خواتین کرتی ہیں ۔ وہ شادی کے سوال پر کہتی ہیں: ”میری شادی فن سے ہو چکی ہے ‘‘ حالانکہ شادیوں کی ایک سیریز ان کے ریکارڈ پر ہوتی ہے ‘جس میں ”فن‘‘ نام کا کوئی بندہ شامل نہیں ہوتا ۔ خداجانے یہ کیاچکرہے؟