شام پر حملہ…ڈاکٹر رشید احمد خان
14 اپریل کو امریکہ برطانیہ اور فرانس نے شام پر طیاروںاور آبدوزوں کے ذریعے 110 میزائل برسائے ۔حملہ آوروں کے بیان کے مطابق یہ حملہ مبینہ طور پر شام میں بشارالاسد کی سرکاری فوجوں کی طرف سے اپنے شامی شہریوں کے خلاف زہریلی گیس کے حملے کے جواب میں کیا گیا ہے۔ حملے سے کئی دن پہلے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں اور تمام ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس مبینہ حملے کے مناظر دکھائے گئے جن میں دیگر شہریوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو زہریلی گیس کے اس حملے سے متاثر دکھایا گیا۔ اس کارروائی کا مقصد عالمی رائے عامہ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے حق میں تیار کرنا تھا۔ چنانچہ روس اور ایران کی طرف سے سخت وارننگ کے باوجود حملہ کر دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں متحارب گروپوں کی طرف سے شہری آبادی کو بڑی بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے گذشتہ سات سال سے جاری اس جنگ میں مخالفین کو شکست دینے کی کوششیں کی گئی ہیں ان میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے اس سے بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں اور زہریلی گیس کے استعمال کے مرتکب عناصر کو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے تحت سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے جرم کے مرتکب افراد کا پہلے تعین کر لیا جائے یہی وہ موقف ہے جو روس ، شام اور ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شام پر حملہ کرنے کی دھمکیوں کے جواب میں اختیار کیا تھا ۔
عام تاثر یہ تھا کہ شام کی موجودہ خانہ جنگی میں روسی صدر پیوٹن بشارالاسد کا ساتھ دے رہا ہے اس لیے روس کے ساتھ کسی ممکنہ تصادم کے خطرے کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطرناک مہم جوئی سے باز رہیں گے لیکن روس کے ساتھ تصادم کے خطرے کی پروا کئے بغیر اگر امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی آڑ میں شام پر فضائی حملہ کیا ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اس کے عرب اتحادیوں کی حمایت سے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف ایک عرصہ سے لڑنے والی باغی افواج مکمل شکست کے دہانے پر کھڑی ہیں اور صدر بشارالاسد کی حکومت اس طویل خانہ جنگی میں تقریباً کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن امریکہ اورعلاقے میں اس کے اتحادی ممالک خصوصاً اسرائیل کو یہ صورتحال قبول نہیں کیونکہ وہ صدر بشارالاسد کی حکومت کی کامیابی کو روس اور ایران کی فتح سمجھتے ہیں۔ مشرقی وسطی کی تقریباً تین ہزار سال سابقہ تاریخ کے مطالعہ سے ایک بات حقیقت بن کر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طاقت کے نیشنل سکیورٹی کے مفادات آبنائے باسفورس سے لے کر جبرالٹر تک بحیرہ روم سے وابستہ ہوں وہ مشرق وسطیٰ خصوصاً بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں پر کسی مخالف ملک کی بالادستی برداشت نہیں کرے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کے قیام سے بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ان ممالک کی جیوسٹرٹیجک اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو چکا ہے اور ان علاقوں کو کسی بیرونی طاقت کے زیر تسلط آنے سے روکنے کیلئے امریکہ نے روس کی مبینہ توسیع پسندی کے خلاف ترکی ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک دفاعی حصار کھڑا کیا تھا جو عراق کی شمولیت تک معاہدہ بغداد اور اس کے نکل جانے کے بعد ”سنٹو‘‘ کہلاتا تھا۔ 1991 ء میں سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور اس کے نتیجے میں ”سرد جنگ‘‘ کے خاتمہ کے بعد امریکہ کی طرف سے ایران پر مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس پر غلبہ حاصل کر کے قدیم ایرانی سلطنت کو دوبارہ بحال کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ایران کے بارے میں اس قسم کے مبینہ طور پر توسیعی عزائم رکھنے کی مہم میں امریکہ کے ایک سابقہ سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر آگے آگے ہیں لیکن وہ اپنے اس موقف کی حمایت میں موجودہ ایران کی خارجہ پالیسی سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے استدلال کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ڈھائی تین ہزار سال قبل ایران مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاوہ وسطی ایشیا،افغانستان موجودہ پاکستان اور مصر تک کے علاقوں پر محیط ایک سپر طاقت تھا۔ سعودی عرب کی طرف سے بھی ایران پر اسی پیرائے میں یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایران صرف مشرق وسطی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس قسم کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ 1979 ء میں اسلامی انقلاب کے بعد سے آج تک ایران نے اپنے ہمسایہ یا دور واقع کسی ملک کے خلاف فوج کشی نہیں کی۔ شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی براہ راست مداخلت اور باغی افواج کی حمایت میں سرکاری افواج کو نشانہ بنانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ امریکہ‘ مصر‘ تیونس اور لیبیا کی طرح شام کو بھی مستقل بحران اور عدم استحکام کی کیفیت میں رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ حالیہ فضائی حملہ اس کا بین ثبوت ہے لیکن اس حملے کے دو ایسے نتائج سامنے آئے ہیں جو نہایت غور طلب ہیں ایک یہ کہ اس حملے سے نہ صرف روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی سیاسی اور حربی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔
شام پر حملہ کی روس اور چین کی طرف سے سخت مذمت کی گئی ہے جبکہ برطانیہ اور فرانس امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔اس طرح خطے میں سعودی عرب متحدہ امارات اور بحرین نے اس حملے کی حمایت کی ہے جبکہ ایران اور مصر نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مشرق وسطی اور خلیج فارس کے علاقے نہ صرف سیاسی عدم استحکام کا بدستور شکار رہیں گے بلکہ بڑھتے بڑھتے یہ کشیدگی کسی بڑے تصادم پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ تاہم شام پر امریکہ کی سرکردگی میں برطانیہ اور فرانس کے حملے کی جس طرح خود امریکہ میں مذمت کی گئی ہے اور صدر ٹرمپ کے خلاف جس طرح مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے ہیں اس سے 2003ء میں عراق پر حملے کے موقعہ پر صدر بش کے خلاف سخت ردعمل کی یاد تازہ ہو گئی اگرچہ امریکہ کے اس اقدام پر یورپ میں ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم مغربی جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر کئی ممالک کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ شام میں جنگ کے شعلوں کو مزید بڑھانے کی امریکی پالیسی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اس کی ایک مثال اٹلی کی ہے جس کی حکومت نے اگرچہ سرکاری طور پر امریکہ برطانیہ اور فرانس کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہے تاہم ان کے ساتھ مل کر شام پر حملے میں حصہ نہیں لیا بلکہ جس امریکی ایٹمی آبدوز نے بحیرہ روم سے شام پر میزائل پھینکے تھے اسے اپنی بندرگاہ میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شام کا بحران اور اس میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں جہاں عرب ممالک میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں وہاں مغرب میں بھی امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
شام پر امریکہ کی سرکردگی میں برطانیہ اور فرانس کے حملے کی جس طرح خود امریکہ میں مذمت کی گئی ہے اور صدر ٹرمپ کے خلاف جس طرح مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے ہیں اس سے 2003 ء میں عراق پر حملے کے موقعہ پر صدر بش کے خلاف سخت ردعمل کی یاد تازہ ہو گئی اگرچہ امریکہ کے اس اقدام پر یورپ میں ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا