روسی صدر جناب پیوٹن نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلا نے کا اعلان کردیا ہے، اسکی اطلاع انہوں نے ٹیلی فون کے ذریعہ شام کے صدر بشارالاسد کو دی ہے ۔روسی فیڈریشن کے صدر نے کہا ہے کہ روسی فوج نے پانچ ماہ کے قریب شام میں اپنے قیام کے دوران اپنا ہدف پورا کرلیا ہے، اس لئے اب ان کی فوج کا وہاں مزید رکنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں روس کی فضائیہ اپنے ساز وسامان کے ساتھ واپس چلی جائے گی، لیکن اس میں کچھ دن لگیں گے۔روسی فوج کے شام سے مکمل انخلا سے متعلق تاحال کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم روس کا لتاکیا( شام) میں واقع بحری اڈا باقاعدہ موجود رہے گااور آپریشنل بھی !شام سے روسی فوجوں کی واپسی سے متعلق اپنے فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے روسی صدر مسٹر پیوٹن نے کہا کہ شام کے تنازعہ کا حل صرف مذاکرات میں مضمرہے، اور مذاکرات کی راہ استوار ہوچکی ہے، اس سلسلے میں دو اہم اجلاس‘ ایک ویانا میں اور دوسرا جنیوا میںہوچکا ہے، جس میں تمام فریقوںنے شرکت کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کو اب ختم ہونا چاہئے۔
واضح رہے کہ شام میں خانہ جنگی کے نتیجہ میں اب تک دو لاکھ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ایک ملین سے زائد افراد ہجرت کرکے یورپی ممالک میں پناہ گزیں ہوگئے ہیں، دوسری طرف پانچ لاکھ کے قریب شامی لبنان، اردن اور ترکی میں انتہائی مشکلات سے دوچار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد انسانیت کے نقطہ نظر سے یہ سب سے بڑا انسانی المیہ ہے، جسکی ذمہ داری امریکہ بہادر کے علاوہ اس خطے کے عرب ممالک پر عائد ہوتی ہے۔باہمی چپقلش سے یہ المناک صورتحال پیداہوئی ہے، پورا مشرق وسطیٰ اس وقت مکمل طور پر عدم استحکام سے دوچار ہوچکاہے، جہاں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہے، ”عرب بہار‘‘ کے نام پر ان ممالک میں جمہوریت کے احیا کے لئے جذباتی نعروں کے ذریعہ ایک مستحکم خطے کو تباہی سے دوچار کردیا گیاہے، نیز امریکہ بہادر کے علاوہ جن عرب ممالک نے شام میں حکومت کی تبدیلی کیلئے ان کا ساتھ دیا یا پھر مدد مانگی گئی تھی، آج وہ خود ایک انجانے ا ضطراب میں مبتلا ہیں، کیونکہ نام نہاد جمہوریت کے ابھار نے خود ان کے اقتدار کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے، جو آہستہ آہستہ اس خطے میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے عرب ممالک کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دے رہا ہے، نیز وہ فلسطین کے ان گروپوں کو بھی غیر فعال بنانے کی مذموم کوششیں کررہاہے، جو اپنی آزادی کے لیے اور اسرائیل کے ظلم و جور کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی ناکہ بندی بھی اسی شیطانی سوچ کی ایک کڑی ہے، اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو شام میں خانہ جنگی کو موثر طورپر رکوانے کے لئے فریقین کو مل کر ان مذاکرات کو ضرور کامیاب بنانا چاہئے۔اگر شام میں اس افسوسناک صورتحال کا جلد تدارک نہیں ہوا تو مشرق وسطیٰ میں بھڑکنے والی آگ مزید ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ داعش پہلے ہی اس خطے میں اپنا قدم جما چکی ہے، اسکے انسانیت سوز مظالم سے کون واقف نہیں ہے؟ انقرہ میں حال ہی میں جو کار دھماکہ ہوا ہے،( جس میں 23افراد ہلاک ہوئے تھے) وہ اسی تنظیم کی کارروائی ہے۔ اگر شام کا مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل ہوجائے تو اسکے مثبت اثرات پورے مشرق وسطیٰ پر پڑیں گے، اور داعش جیسی تنظیموں کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکتی ہے۔ اسرائیل بھی اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے باز آسکتا ہے، دوسری صورت میں اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے تو آگ اور خون کی ہولی جاری رہے گی، جس میں زیادہ تر نقصان مسلمان ممالک کا ہوگا، جنہیں ان کی عمومی جہالت کے سبب مسلکی بنیادوں پرلڑایا جارہاہے، حالانکہ اس سے پہلے عرب ممالک کے باشندوں میں یہ سوچ نہیں تھی اور اگر خال خال تھی ‘تب بھی ان کے مابین جنگ وجدل جیسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔عالمی سامراج نے مسلمانوں کے مابین اتحاد کو توڑنے کیلئے مسلکی سوچ کو فروغ دے کر ان کے درمیان اب ایک ایسی عداوت اور نفرت پیدا کردی ہے جس کے ازالے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہے ۔مسلمان اور عرب ممالک کو مسلکی سوچ سے باہر نکلنا چاہئے ۔
بہر حال میرے خیال میں شام سے متعلق روسی قیادت کے فیصلے کے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے سلسلے میں خوشگوار اثرات پیدا ہوں گے۔ امریکہ بھی اب یہی چاہتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہونا چاہئے، اور کچھ عرصہ کے لئے بشارالاسد کی سربراہی میں ایک یونٹی حکومت بننی چاہئے اور بعد میں عام انتخابات کے ذریعہ حقیقی معنو ںمیں قائم ہونے والی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے شام کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے، اسی طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ شام میں خانہ جنگی کو ختم کیا جاسکتاہے، جس کے آئندہ اچھے اثرات لیبیا اور عراق پر بھی پڑ سکتے ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک بار پھر عالمی سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں لڑانے کی سامراجی پالیسیوں سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے، اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ہجرت بھی مسلمان ممالک کے گھبرائے اور ستائے ہوئے باشندوں نے کی ہے اور سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی مسلمانوں کی
ہوئی ہیں ، یورپ کی طرف شام اور دیگر مسلمان ممالک کے پریشان حال باشندوں کی ہجرت سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ ان ہی ”کافر‘‘ ممالک میں انصاف مل سکتاہے، اور پناہ بھی۔ اس پس منظر میں کیا مالی ومعاشی طورپر مستحکم مسلمان ممالک کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ ان مظلوموں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتے اور انہیں جذبہ اسلامی وانسانی کی آغوش میں لے کر با عزت زندگی گذارنے کا حوصلہ وقوت عطا کرتے؟ لیکن اب بربادی اور تباہی کی داستان پرانی ہوچکی ہے۔ نئی بات یہ ہے کہ کسی طرح شام میں خانہ جنگی رکوانے کے لئے امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے امریکہ سمیت عرب ممالک پر بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے جو براہ راست اس انسانی المیہ سے دوچار ہورہے ہیں۔ پاکستان شام سے متعلق امن مذاکرات کا زبردست حامی ہے۔ماضی میں پاکستان کی شام سے متعلق خارجہ حکمت عملی غیر جانبداری پر مبنی تھی‘ جس کی عالمی سطح پر بہت تعریف ہوئی تھی۔اس وقت بھی پاکستان شام سے متعلق مذاکرات کی کامیابی وکامرانی کے لئے اپنا موثر کردار ادا کرسکتاہے۔عرب ممالک کے علاوہ دیگر غیر عرب ممالک میں بھی پاکستان کو بڑی عزت و احترام سے دیکھا جاتاہے۔چنانچہ پاکستان کو آگے بڑھ کر اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنا دست تعاون بڑھانا چاہئے، اور دیگر ممالک کے ساتھ ملکر شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے عملی راستے کا تعین کرنے میںاہم کردار ادا کرنا اور اپنے تجربے اور حکمت عملی سے آگاہ کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہئے۔