شام کے بحران کی کنجی…ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
شام کا شمار دنیا کے قدیم ترین ممالک میں ہوتا ہے جسکی تہذیب کوئی ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے۔ تاریخ دان شام کا تعلق قدیم ہندوستان سے بھی جوڑتے ہیں، محققین کے مطابق مقدس سنسکرت زبان کاجنم شام میں ہوا تھا، شمالی شام میں واقع آثار قدیمہ سے مقدس رِگ وید کی لکھائی کی دریافت بھی ہوئی ہے،اسی طرح شام اور عراق میں مظالم کے شکار اقلیتی فرقے یزیدی کو قدیم ہندوؤں کا ایک گمشدہ قبیلہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سرزمین شام تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے قابلِ احترام ہے۔ تابناک تاریخ کے حامل شام میں گزشتہ سات برسوں سے جاری خانہ جنگی میں لگ بھگ پانچ لاکھ شامی شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ دس لاکھ سے زائد زخمیوں کی تعداد ہے، شامی باشندوں کی کثیر تعداد یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے، گزشتہ برسوں ترکی کے ساحل سمندر پر ایلان نامی کم سن شامی بچے کی ملنے والی نعش نے انسانیت کا درد رکھنے والے ہر انسان کو خون کے آنسو رُلا دیا تھا، تازہ واقعہ شامی حکومت کے مبینہ کیمیائی حملے کے ردعمل میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا شام پر مشترکہ فضائی حملہ ہے۔ تاریخی لحاظ سے شام کئی دہائیوں تک سلطنت عثمانیہ کے زیراثر رہنے کے بعد نوآبادیاتی دور میں فرانس کے قبضے میں چلا گیا، جنگ عظیم دوئم کے بعد سامراجی قوتیں کمزور ہوئیں
تو شام کو آزادی تو میسر آئی لیکن تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح عالمی سازشوں سے چھٹکارہ نہ مل سکا۔ حصولِ آزادی کے بعد پے درپے فوجی بغاوتوں کے بعد 1971 میں اقتدار حافظ الاسد کے ہاتھ میں آگیا جو اپنے انتقال تک شام کے سیاہ و سفید کے مالک رہے، سوویت یونین کے زیراثر بعث پارٹی کا یک جماعتی حکومتی نظام آمریت اور خوف و ہراس پر قائم تھا، جون 2000 میں حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کو حکومت ورثے میں ملی تو عالمی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا تھا، سوویت یونین افغانستان میں شکست کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا تھا، سوویت تسلط سے آزاد ہونے والے ممالک کی اکثریت جمہوریت اپنا رہی تھی، اہلِ شام کو امید تھی کہ برطانیہ سے تعلیم یافتہ نوجوان بشار الاسد ملک میں جمہوری اصلاحات متعارف کروائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ ایک سال بعد نائن الیون کے سانحہ اور پھر 2003میں ہمسایہ ملک عراق پر امریکی حملے نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کردیا۔ عرب اسپرنگ کی چنگاری نے تیونس، لیبیا، مصر اور یمن کی حکومتوں کو بھسم کرڈالا تو شام میں بھی عوام اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل آئے لیکن بشار الاسد نے اقتدار پر اپنی آہنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے بیرونی طاقتوں کو مدد کیلئے بلالیا۔ میری نظر میں شام میں برپا ہونے والی عوامی بغاوت خالصتاً ایک اندرونی معاملہ تھا جس پر کسی باہر کے ملک کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ مداخلت کرے۔ آج ایک طرف کچھ عالمی ممالک بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے مہلک اسلحہ اور فضائی طاقت فراہم کررہے ہیں تو دوسری طرف باغیوں کو بھی جدید تباہ کن اسلحہ دیگر ممالک سے وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ بشار الاسد حکومت کو تاحال قائم رکھنے میں روس اور ایران کا کلیدی کردار ہے، روسی فضائیہ نہ صرف باغیوں پر تابڑتوڑ حملے کر رہی ہے بلکہ روس کی طرف سے تمام تر عالمی مخالفت کے باوجود مہلک ہتھیاروں کی فراہمی بھی جاری ہے، روس شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف پیش کی جانے والی تمام قراردادوں کو اقوام متحدہ میں ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔ میری نظر میں روس کی مداخلت کی بڑی وجہ شام کی بندرگاہ طرطوس میں واقع خطے میں روس کا واحد بحری اڈہ ہے، اسی طرح لتاقیہ میں روس کا فضائی اڈہ قائم ہے۔ روس کو یہ خوف لاحق ہے کہ بشار الاسد کی حکومت گرنے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں اس کا کردار صفر ہوجائے گا۔ ایران کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عالمی تنہائی کی شکار بشار الاسد حکومت کی بقاکا راز ایران کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور تیل کی فراہمی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کا حمایت یافتہ لبنانی عسکریت پسند گروہ حزب اللہ اور ایرانی جنگجو شامی افواج کے شانہ بشانہ باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ روس اور ایران کی شام میں موجودگی نے ان کے مخالفین امریکہ اور سعودی عرب کو بھی سرگرم عمل کردیا ہے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ صدر بشار الاسد کے ہوتے ہوئے شام کا بحران کسی صورت حل نہیں ہوسکتا، اس لئے فوری طور پر شام کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے۔ مبصرین کے مطابق شام میں برسرپیکار باغی گروہوں کو خلیجی ممالک کی مالی اور عسکری حمایت حاصل ہے۔ امریکہ سعودی عرب کے موقف کی تائید کرتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ امریکہ بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر شام میں فضائی کارروائیاں کررہا ہے، اس کا جواز داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کا زور توڑنا بتایا جاتا ہے۔ ترکی شامی صدر کو لاکھوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، جہاں ایک طرف شامی مہاجرین پناہ کی تلاش میں ترکی کے راستے یورپ کا رخ کرتے ہیں وہیں شام میں لڑنے والے غیرملکی جنگجوؤں کی گزرگاہ ترکی ہے، ترک حکومت نے امریکہ اور اتحادیوں کو شام میں فضائی حملے کرنے کیلئے اپنے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ ایک اور ہمسایہ اسرائیل شامی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی وجہ سے خائف ہے، اسرائیل اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سمجھتا ہے کہ شام کو عدم استحکام کا شکار رہنے دیا جائے، محاذِ جنگ سے ایسی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ اسرائیلی طیارے بھی شام پر بمباری کرنے میں ملوث ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ شام کے بحران کو ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں کی شمولیت نے پیچیدہ بنادیا ہے، کوئی ایک متحارب فریق بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، انا کی اس جنگ کا ایندھن شام کے معصوم شہریوں کو بننا پڑ رہا ہے، کلیجہ دہل کر رہ جاتا ہے کہ کیسے ظالمانہ انداز میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور دیگر کو تکلیف دہ موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، موت کے منہ سے بچ کر یورپ کا رخ کرنے والے نفرت انگیز سلوک کا شکار ہورہے ہیں۔ شام میں جاری جنگ کی بڑی وجہ اسلحہ کی صنعت بھی ہے، خانہ جنگی کے نتیجے میں شام ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے جہاں دنیا بھر کا تیار کردہ اسلحہ استعمال ہورہا ہے، مختلف عالمی طاقتیں اپنے تباہ کن ہتھیاروں کی آزمائش شام کی مقدس سرزمین میں کررہی ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ، یورپی یونین اور پاکستان سمیت عالمی برادری کا موقف ہے کہ شام کے بحران کا عسکری حل ممکن نہیں اور تمام فریقین صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو درپیش مشکلات کا احساس کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام کا بحران کسی ایک ملک ، مذہب یا فرقے کا نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے، شام میں مسائل کا شکار شامی نہیں بلکہ انسان ہے، ہمیں شام کے شہریوں کی مدد کرنی ہے تو شام میں آگ برسانے والوں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ میری نظر میں ایک کامیاب حکمراں کا مقصد حیات اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے پرامن ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے، بشار الاسد کو سمجھنا چاہئے کہ حکومت میں رہنا کوئی کارنامہ نہیں اور شامی شہریوں کو ختم کرکے علاقوں کا کنٹرول واپس لینے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ سینکڑوں جنگوں میں فتح حاصل کرنے والا قدیم ہندو شہنشاہ اشوک اعظم بھی آخرکار جان گیا تھا کہ اصل حکومت انسانوں کے دِلوں پر حکومت کرنا ہوتی ہے۔ میری نظر میں شام کے بحران کے حل کی کنجی خود شام کے حکمراں بشارالاسد کے ہاتھ میں ہے، انہیں اپنے عوام کو خانہ جنگی کے عذاب سے محفوظ رکھنے اور بیرونی طاقتوں کو بے دخل کرنے کیلئے ازخود اقتدار سے الگ ہوجانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امن دستے فوری طور پرشام میں تعینات کرتے ہوئے نوفلائی زون قائم کیا جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ شام میں پھیلنے والا فساد پورے کرہ ارض کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔