شاہد صدیقی، انعام الحق بجا، مگر قاسم بگھیو اور ڈاکٹر فوزیہ سعید؟…عطا ء الحق قاسمی
میرے خیال میں ماہرین نفسیات صحیح کہتے ہیں کہ سات سال کی عمر تک بچے کی شخصیت مکمل ہو جاتی ہے اس کے بعد بس معمولی ’’آئینی ترامیم‘‘ ہوتی ہیں۔ یہ آزمودہ بات ہے جو میں نے عرض کی ہے۔ میرے پائوں میں چکر ہے، ساری جوانی ’’آوارہ گردی‘‘ میں گزری یعنی صبح گھر سے نکلے اور رات گئے گھر لوٹے۔ ایک دن بھی گھر میں گزارنا مشکل ہو جاتا۔ جوتی پر جوتی نہ بھی چڑھی ہو تو خود جوتی کو جوتی پر چڑھا دیتا تھاکہ سننے میں آیا ہے کہ جوتی کی یہ صورت کسی سفر کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے۔ میں تو وہ سفر نصیب ہوں کہ 25سال کی عمر میں ’’پیدل‘‘ امریکہ کے لئے روانہ ہو گیا تھا۔ ’’پیدل‘‘ اس طرح کہ لفٹ وغیرہ لے کر یورپ تک گیا اور وہاں سے نیویارک جانے کے لئے جو جہاز لیا اس کی اڑان اور اس کی نشست و برخاست پیدل ہی کے ہم پلہ تھی۔ انسان جب گھر سے چھ ہزار روپے ،جو اس زمانے میں چھ سو ڈالر کے برابر تھے، لے کر امریکہ کے سفر پر روانہ ہو تو اس کا سفر اسی طرح کا شاہانہ ہی ہونا تھا۔
اور یہ جو میں بوجہ پائوں کے فریکچر دو ڈھائی مہینے گھر پر بندھا رہا ہوں، تو اس ’’لذتِ آزار‘‘ سے کوئی آزار پسند ہی آگاہ ہو سکتا ہے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ نیشنل بک فائونڈیشن کے ایم ڈی اور ظریف الطبع یارِ غار ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سالانہ کتاب میلہ میں شرکت کی دعوت بلکہ
اصرار مزید دھمکی موصول ہوئی تو اسلام آباد کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ذرا ملاحظہ کریں میں اس خوشخبری کو کس قدر پُرملال انداز میں بیان کر رہا ہوں، تو بہرحال سفر کے لئے کمر ہمت باندھی اور پاکستان میں منعقد ہونے والی اس یکتا تقریب میں تین دن ناہموار طریقہ سے ایک ہال سے دوسرے ہال تک لڑھکتا رہا۔ اس دوران میرے پائوں کا حال صرف میرا پائوں ہی جان سکتا تھا، مگر واللہ کیا رونق تھی، علم و ادب کی کیا عزت افزائی تھی، شہر کا بلکہ پورے پاکستان کا کون سا ادیب تھا جو اس میلے میں شریک نہیں تھا۔ اس عظیم کتاب میلے کے افتتاحی اجلاس کی صدارت ہمارے شریف النفس صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے کی۔ ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں کتابوں کے ’’زائرین‘‘ تھے جو دن رات وہاں کتابوں کے اسٹالوں پر نظر آتے تھے اور اس پانچ روزہ بک فیسٹیول میں کروڑوں روپوں کی کتب فروخت ہوئیں۔ اس کے باوجود ہمیں کہنا یہی چاہئے کہ پاکستان میں لوگ کتابوں سے دور ہو گئے ہیں۔ آخر کوئی بات فیشن بھی تو بن جاتی ہے۔ انعام الحق جاوید اور ان کے اسٹاف کے محنتی ارکان تو ان پانچ دنوں میں، جن میں سے میں نے صرف تین دن ان کے درمیان گزارے، مارے مارے ہوئے نظر آتے تھے، مجھے تو حیرت برادرِ مکرم عرفان صدیقی کو دیکھ کر ہوتی تھی جو بظاہر تو فیڈرل منسٹر ہیں اور علمی و ادبی اداروں کے ڈویژن کے سربراہ ہیں، مگر خفیہ طور پر شاعر اور ڈرامہ نگار بھی ہیں، وہ اس تقریب میں ایک کارکن کے طور پر مصروف نظر آتے تھے، میں نے البتہ خفیہ طور پر اس لئے ادیب کہا کہ وہ اپنے اس ہنر کو اس طرح چھپاتے ہیں جیسے لوگ اپنے عیب دوسروں سے مخفی رکھتے ہیں۔ میں نے عیب دوسروں کے کھاتے میں ڈالے ہیں کہ آخر دوستی کے بھی تو کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔
مگر میرے سفر شوق کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سچ پوچھئے تو یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ کتاب میلے کے تین دنوں میں پائوں کے ساتھ جو ہوا، میں نے محسوس کیا کہ وہ میری منتیں بلکہ ترلے کر رہا ہے کہ بھائی خدا کے لئے لاہور پہنچنے کے بعد پھر اس طرح کا کوئی پنگا نہ لینا، مگر اس بیچارے کو کیا پتہ کہ میں تو کینسر کے آپریشن کے اگلے دن اپنے کمرے سے نکل کر ایک دوست کی کار میں شہر کا چکر لگا آیا تھا چنانچہ مجھے یاد تھا کہ تین دن کے بعد میں نے ایک بار پھر اسلام آباد جانا ہے۔ اور اسلام آباد کا یہ سفر مجھے عزیز نہیں عزیز تر تھا کہ ایک چھپے ہوئے ہیرے جس کا نام شاہد صدیقی ہے اور جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہے، نے مجھے تین مہینے پہلے سے اپنی ادبی کانفرنس کے لئے پابند کیا ہوا ہے جس میں میرا ’’بزبانِ قاسمی‘‘ کا سیشن ہے۔ شاہد صدیقی کو میں نے چھپا ہوا ہیرا اس لئے کہا ہے کہ وہ ایک شاندار فکشن رائٹر ہے، کالم نگار ہے اور کتابوں کا کیڑا ہے۔ شاہد صدیقی کو ابھی چہرہ نمائی کا ہنر نہیں آیا چنانچہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھو، ایک وقت آئے گا جب دنیا تمہیں خودبخود پہچانے گی اور پیرومرشد کہتے ہوئے پائوں میں آن بیٹھے گی۔ شاید وہ صحیح کہتے ہیں کہ اب رفتہ رفتہ انہیں صرف وائس چانسلر نہیں بلکہ ایک صاحب طرز ادیب کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے، مگر ابھی چار دانگ عالم ان کی شہرت کا ڈنکا بجنا باقی ہے۔ میں جب شاہد صدیقی سے ملتا ہوں تو بہت کم بولتا ہوں کہ سن رکھا ہے کہ ’’اہلِ علم کی صحبت میں خاموش رہو تاکہ پہچانے نہ جائو‘‘۔ چلیں فی الحال ان کے علم و فضل کو الگ رکھیں، ان کی ادبی کانفرنس کا مختصر احوال بیان کریں۔ اس تین روزہ ادبی کانفرنس میں شاید ہی ادب و صحافت کے حوالے سے کوئی اہم موضوع ہو، جس پر الگ سے سیشن نہ رکھے گئے ہوں۔ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے بھی چنیدہ لوگ تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ حاضرین کی دلچسپی غیرمعمولی تھی۔ تمام سیشن سامعین سے لبالب بھرے ہوتے تھے اور سب ہمہ تن گوش نظر آتے تھے۔ ایک اور بات جو میں نے خصوصی طور پر نوٹ کی وہ یہ کہ پڑھے لکھے لوگ ضروری نہیں کہ اچھے منتظم بھی ہوں مگر شاہد صدیقی جب سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں، مختلف قسم کے فسادات سے بھری ہوئی اس یونیورسٹی میں بغیر احساس دلائے انہوں نے ’’ردالفساد‘‘ مہم شروع کی اور یوں اب یہ یونیورسٹی باقاعدہ علم و ادب کی ایک درس گاہ لگتی ہے۔ شاہد صدیقی نے بہت سے نئے منصوبے شروع کئے ہیں، کچھ مکمل ہو گئے ہیں اور کچھ ہونے کو ہیں۔ کاش ہماری تمام یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کے وقت انہی خوبیوں کو مدنظر رکھا جائے جو شاہد صدیقی کے حوالے سے رکھی گئی تھیں۔
اب آخر میں ایک المیہ کا ذکر۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے اکادمی ادبیات پاکستان کے مردہ گھوڑے کو از سرِ نو زندہ کر دیا تھا اور ان کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں یہ ایک مثالی ادارہ بن گئی تھی۔ مگر اب وہ اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے پر وہاں نہیں ہیں۔ اس ’’خانۂ خالی‘‘ کو اب کون سا ’’دیو‘‘ دوبارہ بھوت گھر بنائے گا، میری آنکھیں ابھی سے خوفزدہ ہیں۔ خدارا ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں سے کام لیں، اکادمی سے بھی بڑے کسی ادارے کی خدمات کے لئے ان سے گزارش کی جائے کہ ہمارے پاس اتنے دیانتدار، محنتی اور اہل علم اتنی زیادہ تعداد میں نہیں ہیں جو ان کی جگہ پُر کر سکیں۔ دوسری بہت بڑی کمی ڈاکٹر فوزیہ سعید کے بغیر لوک ورثہ کے ادارے کے مستقبل کے حوالے سے محسوس ہوئی۔ عکسی مفتی کو میں بابائے لوک ورثہ سمجھتا ہوں مگر ان کے کام اور مشن کو ڈاکٹر فوزیہ سعید نے خونِ جگر سے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی موجودگی میں لوک ورثہ کی عمارت میں ہر وقت ایک میلے کا سماں رہتا تھا۔ اب اللہ جانے کیا حال ہے۔ کیا ہمارے اربابِ اختیار اپنے قیمتی لوگوں کو اسی طرح ضائع کرتے رہیں گے؟