شاہنواز بھٹو کی موت اور جمشید مارکر کے انکشافات….رئوف طاہر
جمشید مارکر بھی راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جو زندگی کو اپنے خالق کی عظمِ نعمت سمجھتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ وہ جو کسی نے کہا تھا، میں جامِ زندگی دُردِ تہہ جام تک پینا چاہتا ہوں۔ نعیم صدیقی نے اسے ایک اور انداز میں بیان کیا تھا۔
نفس نفس کو رہِ عاشقی میں کر کے نثار
تم اہلِ دل کا سا جینا ہمیں سکھا کے چلے
24 نومبر 1922ء کو حیدر آباد دکن میں آنکھ کھولی (اس لحاظ سے ان کا عرصۂ حیات 95 سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے) ڈیرہ دون (انڈیا) میں ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور کے ایف سی کالج چلے آئے۔ وہ جو کہتے ہیں، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ تعلیم کا ہر مرحلہ امتیازی شان کے ساتھ طے کرتے چلے گئے۔ عملی زندگی کا آغاز دوسری جنگِ عظیم میں رائل انڈین نیوی سے کیا اور برما (موجودہ میانمار) کے محاذ پر جاپان کے خلاف شاندار خدمات پر وکٹوریہ میڈل کے مستحق ٹھہرے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، کرکٹ کمنٹیٹر کے طور پر بھی شہرت پائی، رائٹر کے طور پر بھی اپنا نقش جمایا، بزنس میں بھی کامیاب رہے۔ لیکن ان کی زندگی کا اہم ترین اور مصروف ترین دور تیس سال پر محیط اہم سفارتی ذمہ داریاں تھیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ ملکوں میں سفیر رہنے کے اعزاز کے ساتھ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ پائی۔ وہ فارن سروس میں ”لیٹرل انٹری‘‘ تھے لیکن قدرت مہربان تھی، یہ دنیا کے اہم ترین دارالحکومتوں میں رہے اور جہاں بھی گئے، فرض شناسی اور پروفیشنلزم کی نئی داستان رقم کر آئے۔
اپریل 1965ء میں گھانا میں ہائی کمشنر کے طور پر فارن سروس کا آغاز کیا۔ یہ آزادی کے ہیرو نکروما کی آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مقبولیت کا دور تھا اور پھر انہوں نے کرشمہ ساز افریقی لیڈر کا زوال بھی دیکھا۔ سرد جنگ زوروں پر تھی جب انہوں نے (1969-72ئ) سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو میں سفیر پاکستان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہ پاک سوویت تعلقات میں کشیدگی کا دور بھی تھا (سقوطِ مشرقی پاکستان سے قبل دہلی اور ماسکو میں 50 سالہ دفاعی معاہدہ) سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے آخری برسوں میں (1986-89ئ) واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر تھے۔ یہ صدر ریگن اور بش سینئر کا امریکا تھا۔ واشنگٹن سے نیو یارک چلے آئے اور (1990ء سے 1994ئ) تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اسی دوران مشرقی تیمور کے بحران کے حل میں، یو این سیکرٹری جنرل کے ایلچی کے طور پر اہم کردار ادا کیا اور کوفی عنان سے داد پائی۔
فارن آفس میں ان کے تیس سالہ دور میں پاکستان میں فوجی اور سول ڈکٹیٹروں کی حکومتیں رہیں، لیکن ان کی بنیادی وفاداری اپنے کام سے رہی۔ پاکستان کے قومی مفادات کبھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ فرانس میں بھی پاکستان کے سفیر رہے۔ یہ بھٹو فیملی کی (خود ساختہ) جلا وطنی کا دور تھا۔ پیرس میں بھٹو کے چھوٹے صاحب زادے شاہ نواز کی پُراسرار موت بھی اسی دوران ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اس کا الزام جنرل ضیاء الحق کی مار شل لا حکومت پر لگایا تھا۔
جمشید مارکر سے کئے گئے ایک انٹرویو میں ایک سوال شاہنواز بھٹو کی موت کے حوالے سے بھی تھا، جس کے جواب میں پاکستان کے بزرگ سفارت کار کی گفتگو چشم کشا بھی تھی اور انکشاف انگیز بھی۔ ان کا کہنا تھا: ”فرانسیسی انٹیلی جنس چیف Degrossouvreمیرا گہرا دوست تھا۔ اس نے ساری رپورٹ مجھے دی کہ اس روز کیا ہوا تھا۔
جنیوا سے بھٹو خاندان پیرس آیا ہوا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد دونوں بھائیوں، مرتضیٰ اور شاہنواز میں تلخ کلامی ہوئی، گالم گلوچ اور تھوڑی بہت ہاتھا پائی بھی۔ یہ جھگڑا لیبیا کے معمر قذافی کی طرف سے ملنے والی رقم کی تقسیم پر ہوا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے ان کی صلح کرا دی۔ شاہنواز نشے کا عادی تھا۔ فرانس میں نصرت بھٹو اپنی دونوں بیٹیوں، بے نظیر اور صنم، کے ساتھ ایک فلیٹ میں مقیم تھیں اور دونوں بھائیوں کی بیویاں اور بچے شاہنواز کے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ یہاں دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے بعد شاہنواز نے زیادہ مقدار میں نشہ لے لیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ سب کچھ فرانس کی انٹیلی جنس رپورٹ میں درج ہے۔
فرانسیسی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو وہاں موجود شخص کو اس کی مدد کرنی چاہیے، بصورت دیگر وہ قانون کی نظر میں مجرم ٹھہرے گا۔ اس قانون کی رو سے شاہنواز کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ اپارٹمنٹ میں موجود تھی اور اس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی تھی۔
مرتضیٰ بھٹو کے پاس پانچ، چھ پاسپورٹ تھے۔ ان میں شام کا سفارتی پاسپورٹ بھی تھا؛ چنانچہ اس واقعہ کے فوراً بعد وہ شام چلا گیا۔ بھٹو خاندان نے سوچا کہ اگر شاہنواز کی بیوی پر مقدمہ چلا تو بڑی بدنامی ہو گی؛ چنانچہ انہوں نے فرانس کے وزیرِ انصاف Robet Badinter سے مدد کی درخواست کی‘ جو ذوالفقار علی بھٹو کے دوستوں میں سے تھے۔ کچھ عرصے بعد یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ انٹیلی جنس چیف نے مجھ سے کہا، چار وجوہات کی بنا پر ہم نے اس میں زیادہ دلچسپی نہ لی۔ اوّل یہ کہ یہ واقعہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا تھا۔ دوسرے، اس سے فرانس کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ تیسرے، اس میں کوئی فرانسیسی شہری ملوث نہیں تھا اور چوتھا یہ کہ ایسے واقعات فرانس میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں‘‘۔ (سنڈے ایکسپریس 29 فروری 2012ئ)
مرتضیٰ اور شاہنواز کے گھر دونوں بہنیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خاں کے قتل کا مقدمہ چل رہا تھا، جب دونوں صاحبزادے بیرون ملک چلے گئے۔ باپ کی پھانسی کے بعد انہوں نے ”الذوالفقار‘‘ کی بنیاد رکھی۔ افغانستان میں سر دائود کے قتل کے بعد نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے۔ سوویت یونین کی فوجی جارحیت کے ساتھ اب یہ ببرک کارمل کا کابل تھا‘ جہاں ”الذوالفقار‘‘ کی ساخت و پرداخت کے لیے تمام سرکاری وسائل حاصل تھے۔
پی آئی اے کے مسافر طیارے کا اغوا ”الذوالفقار‘‘ کی پہلی بڑی کارروائی تھی، جو عالمی توجہ کا مرکز بنی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے مار شل لا کے خلاف مسلح کارروائیوں کے لیے باقاعدہ اعلان جنگ تھا۔ پی آئی اے کا اغوا شدہ طیارہ کابل کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا، جہاں مرتضیٰ اور شاہنواز، اغوا کاروں کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ طیارے میں ایک سرونگ فوجی افسر میجر طارق رحیم بھی سفر کر رہا تھا۔ اسے گولی مار کر لاش رن وے پر پھینک دی گئی۔ اغوا کی اس کارروائی کا ڈراپ سین، پاکستان کی جیلوں میں قید ایک سو کے لگ بھگ بھٹو کے جانثاروں کی رہائی اور انہیں بیرون ملک بھجوانے کے ”معاہدے‘‘ پر ہوا۔
دونوں بھائیوں کی شادی کابل میں اسی قیام کے دوران ہوئی۔ یہ کابل کے ایک معزز افغان گھرانے کی بیٹیاں تھیں۔ شاہنواز اور مرتضیٰ ٹھکانے بدلتے رہے اور ان کی افغان بیویاں ان کے ساتھ رہیں۔ شاہنواز کی بیوہ کے خلاف مقدمہ رفت گزشت ہوا۔ جس کے بعد بھٹو خاندان نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو نے بھی اپنی افغان اہلیہ کو طلاق دے دی اور کم سن فاطمہ کو ساتھ لے گیا۔ غنویٰ سے مرتضیٰ کی شادی الگ کہانی ہے۔