منتخب کردہ کالم

شاید دھرنے کی ضرورت ہی نہ رہے!…اجمل جامی

شاید دھرنے کی ضرورت ہی نہ رہے!…اجمل جامی
یہ وسط دسمبر کی ایک یخ بستہ ابر آلود دوپہر تھی جب خاکسار قبلہ طاہر القادری سے طویل عرصہ بعد ملاقات کے لئے ان کی رہائش گاہ‘ واقع ماڈل ٹاون لاہور حاضر ہوا۔ اس سے پہلے دھرنا اوّل کے ہنگام مرکزی سیکرٹریٹ کے عقب میں واقع مستطیل نما پارک، جی ٹی روڈ جہلم اور ڈی چوک اسلام آباد جیسے یادگار مقامات پر حضرت سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ گزشتہ جمعہ کی شب عشائیے پر مدعو کیا گیا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ صاحب کسی بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں بیرون ملک تشریف لے گئے اور جاتے جاتے اپنے پروگرام کی ذمہ داری بھی ہمیں سونپ گئے، چار دن نقطۂ نظر اور پھر ہفتے کے آخری تین روز ڈاکٹر صاحب کا پروگرام، زہے نصیب! مقام افسوس مگر یہ کہ ہم عشائیے کی نعمتوں سے یکسر محروم رہ گئے۔ قبلہ قادری کے قریبی رفیق اور بااعتماد ساتھی نور اللہ صدیقی سے پرانی یاد اللہ ہے، ہم غیر حاضری پر تاسف کا اظہار کر رہے تھے اور موصوف ہمیں دلاسہ دیتے رہے کہ آپ کی ون آن ون ملاقات کا اہتمام کر رکھا ہے، چِنتا کاہے کی بھلا؟
ہمیں یقین تھا کہ بھائی صاحب وعدے کے پکے ہیں، لہٰذا بدھ کا روز طے پایا۔ حضرت کی رہائش گاہ پہنچے، رفقا نے ہمیں دیکھ کر مسّرت کا اظہار کیا، ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا، نیم گرم پانی پیش کیا گیا اور گرم چائے کا اہتمام کیا جا رہا تھا کہ قبلہ خود تشریف لے آئے۔ محبت سے گلے ملے، حال احوال دریافت کیا، چہرے پر کوئی شکن نہ تھی حالانکہ پہلے دونوں دھرنوں کے ہنگام‘ قبلہ کے بیانات میں تضادات پر مبنی ‘نعرۂ مستانہ‘ کئی بار جمایا گیا۔ لیکن خوشگوار حیرت ہوئی کہ حضرت کے ہاں سے کوئی شکوہ سننے کو نہ ملا۔ فرمایا: آپ خود بیٹھے ہیں، آ پ سے ہی سنا کہ کچھ لکھا تھا، ہمیں کوئی رنج نہیں، آپ کی محبت ہے۔ ہم جواباً مخصوص صحافتی دلائل سے اپنی تشفی کرتے رہے۔ بہرحال، خوب محفل جمی۔ لگ بھگ دو گھنٹے تک مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا۔ خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں۔
علامہ اب کے بار خاصے محتاط اور نپے تُلے انداز میں چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے پہلے دونوں دھرنوں سے بہت کچھ سیکھا ہو گا۔ زرداری صاحب، کپتان، چوہدری برادران، شیخ صاحب پنڈی وال، مصطفی کمال‘ پی ایس پی والے، مجلس وحدت المسلین اور دیگر نے تو کسی بھی اقدام کے لئے مکمل حمایت کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اچانک سے کوئی بڑا اعلان کرنے سے پہلے‘ وہ تمام تر طبقات زندگی کی نمائندہ شخصیات سے مشاورت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریٹائڑڈ ججز و بیورکریٹس، وکلا، سول سوسائٹی، تاجران، صحافی اور قریبی رفقا سے مشاورتی نشستوں کا اہتمام باقاعدگی سے جاری ہے۔ گویا فائنل رائونڈ کے لئے تیاری کی جا رہی ہو۔ سانحہ ماڈل ٹاون کی حکومتی ایف آئی آر پر بنی جے آئی ٹی میں بعض افسران نے اختلافی نوٹ لکھے‘ جو نہیں معلوم کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ اطلاع ہے کہ وہ تمام نوٹس قبلہ کی دسترس میں آن پہنچے ہیں۔ لہٰذا سیاسی اور عوامی محاذ کے علاوہ قانونی محاذ بھی گرم رکھنے کی مکمل ترکیب لڑائی جا رہی ہے۔ پیر حمیدالدین سیالوی کے متوقع مارچ بارے بیزاری کا اظہار فرماتے ہوئے حضرت نے مقاصد کا فرق روز مرّہ کی مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی۔ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر ہوئی سماعتوں سے بھی قبلہ بخوبی آگا ہ تھے۔ غالباً سپریم کورٹ سے اس ضمن میں اہم آرڈر نکلتے ہی‘ حضرت بڑا اعلان کر دیں گے۔ گویا ایک طرف پیر سیالوی پنجاب سرکار پر رانا ثناء اللہ کے معاملے پر پریشر بڑھا رہے ہوں گے اور دوسری جانب حضرت جی کے کنٹینر پر بھی خوب رونق جم چکی ہو گی۔
زرداری صاحب کی سیاست پر بات ہوئی تو عرض کیا کہ حضرت کہیں ایسا نہ ہو کہ ‘میلہ کوئی ہور لُٹ لئے‘۔ فرمایا: ہم اتنے بھی بے خبر نہیں۔ معلوم ہوا کہ قبلہ، زرداری صاحب کی مجبوری سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں‘ کسی نہ کسی طور ہاتھ مارنے کا شاید یہ آخری موقع ہو۔ کپتان تو سب سے زیادہ مستفید ہو گا ہی لیکن ساتھ زرداری صاحب کے لئے بھی ‘جھونگے‘ میں کچھ ہاتھ لگ سکتا ہے۔ انتخابی سیاست کے عمل میں حصہ لینے کے لئے البتہ قادری صاحب زیادہ پر جوش نظر نہیں آئے۔ غالباً ان کے اندر کا ریفارمر موجودہ جمہوری نظام سے عاجز آ چکا اور اصلاحات پر مبنی نئے انتخابی نظام کا انتظار کر رہا ہے۔ ان کے ہاں ایجنڈا یک نکاتی ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاون کے لئے انصاف کا حصول۔ پہلے مرحلے میں تین سے چار نکاتی ڈیماند لسٹ پیش کریں گے جس کے لئے ایک مخصوص ڈیڈ لائن دی جائے گی۔ ڈیڈ لائن کی مدت ہفتے دو ہفتے تک پھیل سکتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث ایک سو پنتالیس پولیس اہلکاروں کی برطرفی، شبہاز شریف اور رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ اور پاناما کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی طرز پر‘ ماڈل ٹاون سانحہ کے حقائق جاننے کے لئے ایک نئی جے آئی ٹی کی تشکیل پر مبنی مطالبات کو تمام اپوزیشن جماعتوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہو گی۔ ڈیڈ لائن کے اندر اندر مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں دھرنا یقینی ہے۔ اس بار دھرنے کا مرکز لاہور ہو گا، جس کا رخ شہباز سرکار کی جانب ہو گا۔ یہ دھرنا لاہور کے علاوہ ملک بھر کے اہم شہروں میں پھیل سکتا ہے۔ لاہور شہر کے داخلی اور خارجی راستے یا مال روڈ اور ایوانِ وزیراعلیٰ جیسے مقامات پر کنٹینر لگا تو شہر تقریباً جام ہو کر رہ جائے گا۔ ایسے میں سرکار کے پاس دھرنے سے نمنٹنے کے لئے بہت محدود آپشنز باقی ہوں گے۔ قبلہ قادری کے ہاں تو مریدین اور کارکنوں کی تعداد خادم رضوی صاحب کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے لہٰذا مسائل کی نوعیت بھی زیادہ سنجیدہ ہوگی۔ یہ بات البتہ طے ہے کہ کنٹینر پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی رہے گی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما آتے جاتے رہیں گے، مستقل نمائندگی کے لئے البتہ مقامی رہنمائوں کی ذمہ داریاں لگیں گی۔ زرداری صاحب اگر کنٹینر پر پائے گئے تو پھر کپتان خود تشریف نہیں لائیں گے اور یہی صورت کپتان کی موجودگی میں درپیش ہو گی۔ کمزور حکومتی ساکھ ایسے دھرنے کو زیادہ دن برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہو پائے گی۔ فیض آباد دھرنے کی مثال سامنے ہے، دھرنے والوں کے مطالبات جلد منظور کرانے کی کوشش ہو گی۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق البتہ کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ انہیں اسمبلیاں مدت پوری کرتی نظر نہیں آ رہیں، احسن اقبال اور دیگر بھی آف دی ریکارڈ ایسے ہی کئی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ ابھی چند ہفتے پہلے کابینہ کے ایک انتہائی اہم وزیر سے شام کے کھانے پر ملاقات ہوئی تو موصوف نے موبائل فون بند کر کے دراز میں رکھ دئیے اور سرگوشی کے عالم میں بتانے لگے کہ ‘سانوں نئیں پتا، کل دا دن وی ہے یا نئیں‘۔ غیر یقینی کی یہ صورتحال بے جا نہیں۔ وفاق میں رکھی‘ اُبلتی شب دیگ کا منہ کھلنے والا ہے۔ پلان پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے۔ سیانے لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ حکومتی حلقوں سے ایسے بیانات کسی بھی غیر مرئی پلان کے آگے بند باندھنے کی کوشش ہیں۔ لیکن زمینی حقائق اب پوشیدہ نہیں رہے۔ رٹ آف دی سٹیٹ نامی چڑیا نجانے کب کی اُڑ چکی، حکومتی ساکھ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور ایسے میں مدت پوری ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ تو پھر محتاط طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ قبلہ فائنل دھرنے کے لئے تاخیر سوچ سمجھ کر‘ کر رہے ہیں۔ اب کی بار وہ کچی کھچڑی کھا کر سرد دیس واپسی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اب وہ اکیلے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں رہی سہی ساکھ کا انحصار بھی ان کی کامیابی سے مشروط ہے۔ ملاقات ختم ہونے لگی تو پوچھا: حضرت! بروقت انتخابات ہو پائیں گے؟ کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا: جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ بروقت انتخابات کے لئے ہو رہا ہے؟ ہم مزید سوال پوچھنے سے گریزاں رہے اور پھر سر شام یہ خیال بار بار آوارہ ذہن میں دندناتا رہا کہ شاید دھرنے کی نوبت ہی نہ آئے…