شب گزیدہ سحر یا صبحِ بہار؟….خورشید ندیم
کیا یہی وہ دن ہے، اس قوم کو جس کا انتظار تھا؟
انسان آرزوئوں میں جیتا ہے۔ خواب بُنتا ہے۔ اکثر تارِ عنکبوت سے۔ ایک خواب بکھرتا ہے تو نیا بُننے لگتا ہے۔ یہ ضروری بھی ہے ورنہ مایوسی کی آکاس بیل اس کے وجود کا احاطہ کر لے۔ آکاس بیل سے تارِ عنکبوت اچھا کہ جینے کو چند دن تو مل جاتے ہیں۔ انسان مگر محض دل نہیں، دماغ بھی تو ہے۔ خواب پر اس کا بس نہیں، تعبیر پر تو ہے۔ اتنا تو جان سکتا ہے کہ خواب میں کیکر کے درخت پر آم لگ سکتے ہیں، حقیقی دنیا میں نہیں۔
رات میں نے فیض صاحب کو یاد کیا اور منٹو کو بھی۔ 1940ء میں ایک خواب دیکھا گیا۔ 14 اگست 1947ء کو تعبیر سامنے آئی تو ذہن الجھنے لگے۔ فیض صاحب خود کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ ایک نظم لکھ دی: ”صبحِ آزادی‘‘۔ آج تک چرچا ہوتا ہے کہ یہ نظم خواب ہی کے خلاف تھی۔ اس پر بات کرتے ہیں مگر پہلے اس نظم کے ابتدائی مصرعے، محض یاد دہانی کے لیے:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فیض صاحب کو خواب سے نہیں، اس تعبیر سے اختلاف ہوا جو سامنے آئی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کو فیض صاحب نے ایک انٹرویو دیا تو دبے لفظوں میں ردِ عمل کا شکوہ کیا۔ کہا: ”… ہم نے سمجھا بھی یہی تھا کہ مسلم لیگ اور کانگرس کے آپس میں جو اختلافات ہیں اور جن کی وجہ سے انگریزوں کا برصغیر پر تسلط قائم ہے، وہ اختلاف آزادی ملنے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ یہ تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ پنجاب تقسیم ہو گا اور اس قدر کشت و خون اور قتل و غارت گری ہو گی… سب مل ملا کر ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ اپنے ذہن میں جو نقشہ تھا، وہ ادھورا اور تشنہ تکمیل رہ گیا۔ اسی وجہ سے ہمیں آج تک طعنہ ملتا ہے کہ ہم نے کہا تھا:
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
…اس وقت تو ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس آزادی کے نتیجے میں ہمیں اس قدر قربانی دینا پڑے گی اور ایسی گہری اذیت برداشت کرنا پڑے گی، نجات کے بجائے قتل و غارت گری کے غیر انسانی مناظر دیکھنا پڑیں گے‘‘۔ (یہ صورت گر کچھ خوابوں کے)
تعبیر کی فصل حقائق کی زمین پر اُگتی ہے۔ اس بات کو نظر انداز کیا جائے تو مایوسی جنم لیتی ہے۔ ایک پہلو اور بھی ہے۔ دنیا میں خوابوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ نظامِ مصطفیٰ، نیا پاکستان، کرپشن سے پاک معاشرہ،… یہ مختلف خوابوں کے دل کش عنوان ہیں جن کی تعبیر کم از کم اس وقت ہماری قسمت میں نہیں۔
انتخابات خوابوں کے کاروبار کا موسم ہوتا ہے۔ یہ جہالت کی زمین پر ایک خیالی فصل بوتا ہے۔ پھر جذبات کی بارش ہوتی ہے۔ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ بس ووٹ دینے کی دیر ہے۔ پھل اس کی جھولی میں گر جائے گا۔ جہالت کے مقدر میں صرف نامرادی ہے۔ اگر ذہن بروئے کار آئے تو تاسف بھی۔ ان حالات میں ایسا شور اٹھتا ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ یہ نا مرادی اور ابہام انسان کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں کہ وہ بند گلی میں جا نکلتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کیفیت کو بیان کیا کہ سخت بارش، اندھیرا۔ جب بجلی چمکتی ہے تو ایک قدم اٹھا لیتا ہے۔ بجلی نہیں چمکتی تو رک جاتا ہے۔ یہ کیفیت دیوانگی تک لے جاتی ہے۔
منٹو نے ”ٹوبہ ٹیگ سنگھ‘‘ میں تقسیمِ ہند ہی کے تناظر میں اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔ مرکزی کردار ایک پاگل خانے میں ہے۔ یہاں موجود پاگل اپنی اپنی کیفیت کو بیان کر رہے ہیں۔ منٹو کی زبانی ایک پاگل کے احوال سنیے: ” ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے وقت ایک درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا‘ جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا تو اس نے کہا… ”میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں… میں تو اس درخت پر ہی رہوں گا‘‘۔
ان دنوں بھی کچھ لوگ ‘درخت‘ پر چڑھے ہوئے ‘نازک مسائل‘ پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا حاصل ابہام کے سوا کچھ نہیں۔ اس درخت کو آپ ‘میڈیا‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ جس سانس میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اسی میں فوج کو واحد نجات دہندہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس تضاد کی طرف توجہ دلائی جائے تو زبانِ حال سے کہتے ہیں ‘میں تو اسی درخت پر رہوں گا‘۔
قوموں کی زندگی میں بلا شبہ کچھ دن اہم ہوتے ہیں۔ دن لیکن ایک منزل کی نشاندہی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ زادِ راہ انسان کو خود فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ سیاست کے پاس وہ زادِ راہ موجود ہے جو ہمیں پُر امید رکھ سکتا ہے؟ پاکستان بن گیا۔ یہ نشانِ منزل تھا، منزل نہیں۔ افسوس کہ ہمارے پاس زادِ راہ نہیں تھا۔ سحر طلوع ہوئی لیکن شب گزیدہ۔ اللہ نے کرم کیا اور ہم نے بقا کی جنگ جیت لی۔ یقیناً یہ بات امید افزا ہے لیکن اس کے ساتھ بہرحال بہت سی ناکامیاں بھی ہمارا مقدر بنیں۔ ان میں سے ایک مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے۔
آج کے دن ہمیں ہیجان سے باہر آنا ہے۔ میں نے بارہا لکھا کہ ہیجان میں زندگی نہیں گزاری جا سکتی ہے۔ اسے چند لمحے ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں چند بنیادی امور میں اتفاق پیدا کرنا ہے۔ ان میں سرِ فہرست عوام کا حقِ حکمرانی ہے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل سے لے کر ریاستوں‘ اداروں کی سوچ تک، ہمیں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج کے دن ہمیں سنجیدگی کے ساتھ نئی معاشرتی تشکیل کی بات کرنی چاہیے۔
رائے سازوں کو دیکھنا ہے کہ انہوں نے جو کردار ادا کیا، کیا وہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا؟ اہلِ سیاست کو سوچنا ہے کہ وہ ملک کو آگے لے کر گئے ہیں یا پیچھے؟ ریاستی اداروں کو بھی غور کرنا کہ انہوں نے اپنے وقار میں کتنا اضافہ کیا ہے؟ انتخابات سے پہلے سب لوگ کی رائے یہ تھی کہ انتخابی عمل شاید ہی کسی استحکام کا باعث بن سکے۔ ایک نیا بحران ہمارا منتظر ہو گا۔ کیا آج ایسا ہی ہے؟
آج کا دن یہ طے کرے گا کہ ہم نے استحکام کے راستے پر قدم رکھنا ہے یا کوئی نیا طوفان ہمارا منتظر ہے۔ میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ عوام کے حقِ اقتدار کو تسلیم کیے بغیر پاکستان میں استحکام نہیں آ سکتا۔ آج کسی وجہ سے اگر زمین پُرسکون ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیرِ زمین زلزلے پرورش نہیں پا رہے۔ اگر فالٹ لائن موجود ہے تو زلزلے آتے رہیں گے۔ ہمیں اس پر توجہ دینا ہو گی۔
آج کے دن اگر ہم نے جان لیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے تو پھر ہم ایک متعین راستے پر آگے بڑھ سکیں گے۔ دن صرف نشانِ راہ ہوتے ہیں۔ منزل برسوں بعد آتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آج کا فیض کوئی نئی ‘صبح آزادی‘ لکھے گا اور کوئی منٹو نیا ”ٹوبہ ٹیگ سنگھ‘‘۔ آج سب سے زیادہ ان کی ذمہ داری ہے جو ‘درخت‘ پر بیٹھے ہیں۔ انہیں اترنا ہو گا اور سمجھنا ہو گا کہ قوموں کو ایک منزل کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ پاگل پن یا بے خبری میں، زندگی درخت پر بیٹھ کر نہیں گزاری جا سکتی۔
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی