شراب کی بوتل میں شہد بھرنے کی ٹیکنالوجی….خالد مسعود خان
اب تک جتنے بھی بڑے بڑے لوگ کرپشن میں پکڑے گئے ہیں ‘ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ سب کے سب بیمار ہیں‘ بلکہ صرف بیمار ہی نہیں‘ دل کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پکڑے جانے سے دو دن پہلے تک یہ سب لوگ بھلے چنگے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور جیسے ہی پکڑے جاتے ہیں دو دن بعد ہسپتال میں پہنچ جاتے ہیں۔ جیل سے ہسپتال تک کا سفر بھی یہ سب لوگ پیسے کے زور پر کرتے ہیں۔ زیادہ پیسے والے یہ سہولت برطانیہ میں حاصل کر لیتے ہیں۔
مشرف کے زمانے میں‘ بلکہ اس سے بھی پہلے۔ جب پنجاب حکومت پر آلِ شریفین کی حکومت نہ تھی‘ تب اپوزیشن لیڈر کا کردار چوہدری پرویز الٰہی کے سپرد تھا اور میاں شہباز شریف کی کمر میں بڑا شدید درد تھا اور لگتا تھا کہ خدانخواستہ یہ کمر کی تکلیف اب تا عمر چلے گی ‘لیکن جیسے ہی حکومت کرنے کا وقت آیا یہ ساری تکلیف رفع ہو گئی اور میاں صاحب بھلے چنگے ہو کر تخت لاہور پر براجمان ہو گئے۔ جیل یاترا کا وقت آیا تو اپنے آصف علی زرداری صاحب بھی ہسپتال پہنچ گئے اور سنا ہے وہاں وہ اپنے شرجیل میمن صاحب سے زیادہ سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے۔ کئی سال بعد جب ایوان صدر پہنچے‘ تو اس دوران ایک دن بھی ہسپتال کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ اللہ کرے ان کی صحت اسی طرح ٹھیک رہے کہ ممکن ہے جلد ہی ان کو تھوڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ جائے‘ تاہم وہ خاصے سیانے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک کلپ میں وہ سہارا لے کر چلتے نظر آئے۔ انہوں نے متوقع مصائب سے نپٹنے کے لیے پیشگی تیاری شروع کر دی ہے۔
بات مشرف کے زمانے سے شروع ہوئی تھی۔ تب اپنے چوہدری نثار علی خان بھی ہسپتال پہنچ گئے تھے‘ تاہم اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ایسی صحت کاملہ عطا کی کہ ہسپتال وغیرہ سے کوسوں دور رہے۔ آج کل برطانیہ کے دورے پر ہیں اور راوی مکمل صحت مند لکھتا ہے۔ یہی حال اپنے ڈاکٹر عاصم کا تھا‘ جب تک شعبہ میڈیکل کے سیاہ و سفید کے مالک رہے میڈیکلی سو فیصد فٹ رہے؛ البتہ ملک کے میڈیکل کا مستقبل برباد کرنے میں پیش پیش رہے۔ ایسے ایسے میڈیکل کالجوں کو کام کرنے کی اجازت دی کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ چلیں ایک آدھ نالائق ڈاکٹر تو برداشت کیا جا سکتا ہے (برداشت کرنے کی بات کی ہے قبول کرنے کی نہیں)‘ لیکن مسلسل نالائق اور بندے مار ڈاکٹروں کی فراہمی کا بندوبست۔ اللہ اس ملک کے غریب عوام پر رحم کرے‘ جنہوں نے دو چار سالوں بعد انہی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہونا ہے۔
QUACK یعنی اتائی سے تو پھر بھی بچا جا سکتا ہے کہ اس کے کلینک کے باہر MBBS یا FCPS وغیرہ کی ڈگری نہیں لکھی ہوتی اور تھوڑے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ ایسے کلینک میں داخل ہونے سے بچ جاتے ہیں‘ لیکن اب ایسے کلینک سے کون ‘ کس طرح بچ سکتا ہے‘ جس کے باہر اب ڈاکٹر کے نام کے ساتھ MBBS کی ڈگری کا دم چھلا بھی لگتا ہو؟ ابھی ان ڈاکٹروں نے اللہ کے فضل سے FCPS وغیرہ بھی کرنا ہے۔ چار چھ سال بعد اس ملک میں ڈاکٹروں کی بھرمار ہو گی اور اس میں سے اکثریت انہی میڈیکل کالجوں کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی ہوگی‘ جن کو انہی ڈاکٹر عاصم صاحب نے کام کرنے کی اجازت دی اور رجسٹریشن عطا کی۔
ان میڈیکل کالجز نے فیسوں اور ڈونیشنوں کے نام پر جو لوٹ مار کی وہ ایک علیحدہ کہانی ہے اور انشا اللہ عنقریب اسی قبیل کے ایک لوٹ مار کرنے والے میڈیکل کالج بارے اپنے کالم کے توسط سے چیف جسٹس صاحب کو عرضی پیش کروں گا‘ جو میڈیکل کالج کے طور پر تو ٹھیک ہے یعنی فیکلٹی اور دیگر لوازمات کے حساب سے میرٹ پر پورا اترتا ہے‘ لیکن لوٹ مار کے حوالے سے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود طلبہ کو لوٹ رہا ہے اور دن دہاڑے سرکار کی طے شدہ فیس سے دو اڑھائی لاکھ سالانہ وصول کر رہا ہے اور وہ یہ کام چھپ کر نہیں‘ بلکہ کھلے عام دھڑلے سے کر رہاہے‘ لیکن فی الحال وی آی پی بیماروں کا حال پوچھتے ہیں ‘جو اندر ہوتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں اور عازم ہسپتال ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم جب تک ”اندر‘‘ رہے تقریباً اپنے ہسپتال میں ہی رہے۔ جب سے باہر آئے ہیں کوئی راوی ایسا نہیں ملاجو بتاتا کہ وہ باہر آنے کے بعد کبھی دوبارہ ہسپتال گئے ہیں۔ بڑے آدمیوں کی جیل ہسپتال ہے۔ ڈاکٹر عاصم ایسے خدا ترس آدمی ہیں کہ نہ صرف خود اپنے ہسپتال میں پڑے رہے ‘بلکہ انہوں نے یہ سہولت اور وی آئی پی قیدیوں کو بھی فراہم کرنی شروع کر دی ہے۔ اللہ جانے اس وی آئی پی سب جیل سہولت کے عوض ادائیگی سرکار کرتی ہے کہ ”مریض ‘‘ خود کرتا ہے‘ لیکن اس سہولت سے صرف وی آئی پی قیدی ہی فیض یاب ہو رہے ہیں‘ باقی ہم جیسے ہماشما کو جیل کے اندر والے ہسپتال کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔
ابھی اپنے شرجیل میمن صاحب بھی ڈاکٹر عاصم والے ہسپتال میں مزے کرتے پکڑے گئے ہیں۔ وہاں سے دیگر لوازمات کے علاوہ تین بوتل (اللہ جانے اب ان بوتلوں میں سے برآمد کیا ہوتا ہے‘ کیونکہ کہ ہمارے ہاں بڑے آدمی سے پکڑے جانے والی چیز کبھی وہ نہیں نکلتی جو ہوتی ہے ) شراب پکڑی گئی ہے۔ جیسا کہ میں گزشتہ کالم میں بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ سوشل میڈیا میں کاریگروں نے ایسی ایسی کاریگری کی ہے کہ اصل نقل‘ سچ جھوٹ اور خبر افواہ کے درمیان فرق مٹ گیا ہے۔ فوٹو شاپ کے ذریعے ایسی اسی تصاویر پوسٹ ہوتی ہیں کہ عام آدمی پہچان نہیں سکتا کہ حقیقت کیا ہے۔ ایک تصویر آئی ہے‘ جس میں شرجیل میمن ہلکے آسمانی رنگ کی شرٹ کے اوپر توتیا رنگ کی پیراشوٹ کی واسکٹ پہنے ڈرائیور بن کر ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال کے نام والی ایمبولینس چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور نیچے لکھا ہے کہ شرجیل میمن ڈرائیور بن کر ہسپتال کی ایمبولینس چلا کر اپنے گھر جا رہا ہے۔ اللہ جانے یہ تصویر سچی ہے جھوٹی۔ اصلی ہے یا فوٹو شاپ‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اب اس تصویر کویکسر رد کرنے کو بھی دل نہیں کرتا‘ کہ جس کمرے میں یعنی ”سب جیل‘‘ میں شراب آ سکتی ہے‘ اس کا قیدی ڈرائیور بن کر گھر بھی جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اب پیسے کے زور پر کچھ بھی کرنا ممکن ہے۔ سب جیل میں جب پہریدار ہی معاون بن جائیں‘ تو بھلا پھر کیا چیز نا ممکن رہ جاتی ہے؟
شنید ہے کہ کراچی کے کسی تھانے میں اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو رہی ہے یا ہو گئی ہے‘ تاہم اس میں ملزمان کے طور پر شرجیل میمن اور اس کے تین نوکروں کو نامزد کیا جا رہا ہے جو یہ سامان خورو ”نوش‘‘ سب جیل میں لانے کے مرتکب ہوئے‘ لیکن جیل کی طرف سے پہرے پر مامور اہلکاروں کے بارے میں یہ پرچہ خاموش ہے۔ کیا سارا قصور صرف شرجیل میمن کے ان نوکروں کا ہے‘ جو اس کے تنخواہ دار ہیں اور اس کا حکم ماننے پر مجبور ہیں۔ سرکار کے تنخواہ دار ملازم‘ جو ہسپتال کے اس عام سے کمرے کو ”سب جیل‘‘ بنانے پر مامور تھے‘ بے قصور اور بے گناہ ہیں؟
شراب کی بوتلوں سے یاد آیا۔ شرجیل میمن کے ایک ملازم نے بتایا کہ ایک بوتل میں شہد تھی اور دوسری میں زیتوں کا تیل تھا؛ البتہ تیسری بوتل بارے اس کو فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ اس میں کیا بھرنا تھا‘ ویسے ایک عام سے گھریلو نوکر سے بھلا اس سے زیادہ کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے چھاپے کے بعد پھیلنے والی افراتفری اور گھبراہٹ میں اس سے زیادہ حواس قائم رکھتا اور حاضر جوابی سے کام لیتا۔ ممکن ہے کہ اس بوتل سے بھی شہد اور زیتون کا تیل ہی نکلے ‘ تاہم شراب کی بوتل میں شہد بھرنے کی ٹیکنالوجی کے موجد علی امین گنڈاپور کو خراج تحسین نہ بھیجنا زیادتی ہو گی۔ سو ان کی خدمت میں میرا عاجزانہ سلام ہے۔ مولا خوش رکھے۔