شفاف انتخابات کے بنیادی تقاضے….الطاف حسن قریشی
ان دنوں ملکی حالات کی موجیں کناروں سے باہر نکل رہی ہیں۔ جمہوریت کے شیدائی بہت خوش تھے کہ تیسری بار قومی اسمبلی اپنی آئینی میعاد پوری کرنے والی ہے، مگر ایک سال سے پے در پے ایسے حوادث پیش آ رہے ہیں جن سے انتخابات کے بروقت اور شفاف ہونے پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ اِس انتہائی نازک صورتِ حال کا مداوا دریافت کرنے کیلئے لاہور کے تحقیقی ادارے پائنا نے 14؍اپریل کو قومی سیمینار کا اہتمام کیا جس میں ہر مکتب فکر کے سیاست دانوں، دانش وروں اور عمرانی علوم کے ماہرین نے حصہ لیا۔ عنوان تھا ’’بروقت اور شفاف انتخابات کے تقاضے‘‘۔ دو گھنٹے اِس انتہائی اہم اور حساس موضوع پر نہایت فکر انگیز باتیں ہوئیں، عملی تجاویز سامنے آئیں اور اُن خطرات کی بھی نشان دہی ہوئی جو سیاسی اور جمہوری عمل کو پٹڑی سے اُتار سکتے ہیں۔
ہماری دعوت پر بیرسٹر ظفر اللہ خاں اسلام آباد سے تشریف لائے جو وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قانون کی حیثیت سے ’انتخابی اصلاحات‘ کے پورے عمل میں شریک رہے تھے۔ اِسی طرح ڈاکٹر نظام الدین صاحب سیمینار میں شریک ہوئے جو مردم شماری کے مختلف مراحل میں شریک رہے تھے۔ تحریکِ انصاف کے جناب اعجاز احمد چودھری، اےاین پی کے جناب احسان وائیں اور مسلم لیگ نون کے میڈیا کوآرڈی نیٹر جناب محمد مہدی بھی اس فکری
نشست میں شریک ہوئے۔ پاکستان میں چوٹی کے ماہرِ قانون جناب شاہد حامد نے حاضرین کے سامنے چشم کشا حقائق بیان کیے۔ سیاسی دانش ور جناب مجیب الرحمٰن شامی اور سینئر کالم نگار جناب رؤف طاہر اور ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے بنیادی تقاضوں اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا جائزہ پیش کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے دانائی کی باتیں کیں۔ ہمارے دوست میجر (ر) ایرج زکریا نے چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جبکہ جناب سجاد میر نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے۔
راقم الحروف نے پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ بروقت اور شفاف انتخابات جمہوریت اور ریاست کے استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ یہ امر کسی قدر باعثِ مسرت ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور فضا کو گرمائے ہوئے ہیں۔ یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ فاضل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے یہ ایمان افروز بیان دیا ہے کہ آئین میں کسی مارشل لا کی گنجائش ہے نہ ہم کسی مارشل لا کو جواز فراہم کریں گے۔ اسی طرح ہمارے قابلِ قدر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ یقین دہانی بڑی اطمینان بخش ہے کہ ملک میں بروقت اور شفاف انتخابات ہوں گے اور عوام کی رائے کا پورا پورا اِحترام کیا جائے گا۔ اب ایک طرف الفاظ میں تیقن ہے اور دوسری طرف ایسے حالات ہیں جو شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان اُٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی اچانک تبدیلی اور سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ نے بہت بدگمانیاں پیدا کی ہیں۔ اِس نازک مرحلے میں اہلِ دانش کو شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے منظم جدوجہدکرنا ہو گی۔
بیرسٹر ظفراللہ خاں نے اپنے کلیدی خطاب میں بتایا کہ جب انتخابی اصلاحات کی کمیٹی قائم ہوئی، تو اس نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کیلئے کیا کچھ درکار ہے۔ اس کی طرف سے اختیارات اور وسائل کی جو فہرست ملی، پارلیمنٹ نے اس سے کہیں زیادہ انتظامی اور مالی خودمختاری دی اور مضبوط قانونی انفراسٹرکچر فراہم کیا۔ اب پوری غیر جانب داری سے انتخابات کرانے کی تمام تر ذمہ داری اسی ادارے پر عائد ہوتی ہے، مگر اس نے حال ہی میں ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات روک دینے کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، چند مبصرین کے مطابق اس سے جانب داری کی بُو آتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت پر تیراندازی اور انتظامیہ کو مفلوج کرنے کے علاوہ بدترین انتشار کو ہوا دینے کی بھی سعی کی جا رہی ہے۔شفاف انتخابات کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہر جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہو۔ بیرسٹر صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پارلیمانی پارٹی میں تمام سیاسی جماعتوں نے اِس امر پر اتفاق کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی کردار کشی نہیں کریں گی۔
جناب اعجاز احمد چودھری نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے مطالبے پر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم ہوا جس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ انتخابی عمل میں بڑے سقم پائے جاتے ہیں۔ ان بڑی بڑی خامیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اِس ملک میں شفاف انتخابات کی کیا اُمید کی جا سکتی ہے جہاں تھانیدار کی تقرری کے لیے انٹرویو بارسوخ افراد کے گھر میں لیے جاتے ہوں۔ جناب احسان وائیں جو ایک تجربہ کار وکیل بھی ہیں، ان کا خیال تھا کہ عدلیہ کی طرف سے جو فیصلے کیے جا رہے ہیں، ان کے بارے میں وکلا برادری کی بھاری اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے ۔ ان اقدامات سے عدلیہ کا وقار مجروح ہو رہا ہے جو کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔
جناب مجیب الرحمٰن شامی نے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ بنیادی حقوق کے تحفظ اور شفاف انتخابات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مفاہمت کو فروغ دیں۔ محاذ آرائی کی صورت میں پاکستان بار بار حادثوں کا شکار ہوا ہے۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ سوال پوچھ رہے تھے کہ صرف مسلم لیگ نون ہی تختہ مشق کیوں ہے؟ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے کہا کہ بعض لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی خودنمائی اُن کے اعتبار میں کمی پیدا کر رہی ہے۔ پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین کا مشورہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی تجویز شدہ حلقہ بندیوں میں بعض نقائص کو برداشت کرتے ہوئے قوم کو عام انتخابات کی منزل کی طرف بڑھنا چاہیے کہ اُن سے بڑے امکانات کے در وا ہو سکتے ہیں۔
سیمینار کے صدر جناب شاہد حامد نے اِس خطرے کی طرف توجہ دلائی کہ بروقت اور شفاف انتخابات کے خلاف بعض لوگ بہت سرگرم ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بعض اقدامات اور کچھ عدالتی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید پیدا نہیں ہوتی کہ انتخابات کے نتائج خوش دلی سے تسلیم کر لیے جائیں گے۔ اِس پوری صورتِ حال میں بنیادی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نگران حکومتوں کا تجربہ مختلف ممالک میں ناکام ہو چکا ہے، اِس لیے ہمیں اِس نظام پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام اور سویلین بالادستی قائم کیے بغیر بروقت اور شفاف انتخابات کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔