شکر ہے باقی سارے اہل ہیں!…باربر اعوان
سارے وسائل‘ سارا زور‘ سارے دلائل اور سارا فوکس ایک ہی نکتے پر ہے‘ اور وہ یہ کہ عمران خان وزیراعظم بننے کے اہل نہیں ۔ آئیے قومی منظر نامے پر چھائے ہوئے مصنوعی بارش کے بادلوں سے تنقید کی بجلیاں تلاش کریں۔
نمبر1: بی بی سی کی زینب بداوی جیت گئی اور ہارڈ ٹاک پروگرام میں عمران خان شکست کھا گیا۔ یہ بھی یاد فرما لیں کہ عمران خان سے پہلے مری والے شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ دنیا کے کون سے فورم پر پاکستان کے اس اصلی تے وَڈے سیاسی وزیراعظم نے کون سی کارکردگی دکھائی ۔ بے چارہ جہاں بھی گیا گم نامی کی داستان چھوڑ کر واپس آیا ۔ سارے عالمی فورمز میں انہیں سب سے پیچھے کھڑے ہونے کی جگہ ملی ۔ پھر مائیکروسکوپ یا فریم ٹو فریم کیمرہ زوم کر کے میڈیا نے سرخ دائرہ لگا کر بتایا کہ دنیا کے نویں ایٹمی ملک کاوزیراعظم کہاں سے سِری نکال کر فوٹو کھنچوا رہا ہے ۔ دل پر ہاتھ رکھیے اور بتائیے… اس وزیراعظم کی پاکستان کے حق میں کون سی تقریر کا کون سا جملہ آپ کو یاد ہے ۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس سابق وزیراعظم کی کارکردگی شاعر کے اس خیال سے کبھی آگے نہ بڑھ سکی:
جو دامن پہ آئیں تو ہو جائیں رُسوا
کچھ ایسے بھی اشکِ رواں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حُسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
اس سے بھی پہلے رائے ونڈ کے نواز شریف نے بطوروزیراعظم چار سال عالمی دوروں کا نیا عالمی ریکارڈ سیٹ کیا۔ موصوف نے بھارت کے دورے میں ہیما مالنی کے چرن چھوئے ۔ ساجن سریا اور جنگلہ جندال سے ذاتی بزنس کی ریلیشن شپ مضبوط بنائی۔ مودی کو بغیر ویزے کے جاتی امرا بلوایا ۔ مودی اور اس کے یار میں جو گفتگو، جہاں بھی ہوئی وہ خفیہ ٹھہری۔ جیسے دو جگری یاروں میں کانا پھوسی اور سرگوشیاں۔ امریکہ کے تازہ بزنس مین صدر نے پاکستانی بزنس مین وزیراعظم کو گھاس تک نہ ڈالی۔ اس لیے شکر ہے ہماری عزت اور وزارتِ عظمیٰ کی آبرو ڈونلڈ ٹرمپ کی دستِ درازیوں سے صاف بچ نکلی۔
یادش بخیر، صدر ٹرمپ سے پہلے بارک حسین اوباما گجرانوالیہ سے بھی نواز شریف جاتی امرا والیہ کا جوڑ پڑا تھا ۔ دو درجن چٹیں اور مشروبِ مشرق کے دو عدد گلاس بھی نواز شریف کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ پہلے نواز شریف نے صدرِ امریکہ بارک اوباما کو دھوبی پٹڑا مارا ۔ کہا: میں آپ کی بیگم مِسٹر مشعل اوباما کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ باقی کیا ہوا؟ اس کی وڈیوز اب تک دنیا بھر کے کروڑوں لوگ دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں ۔ نوازیاتی دوروں والے اکثر عالمی فورمز ایسے تھے جہاں کروڑوں روپے کا خرچہ کر کے نواز شریف نے صرف اپنی شکل دکھائی‘ تصویر بنوائی اور پتلی گلی سے واپسی کی راہ اپنائی ۔ کسی جگہ نہ انٹرویو دیا اور نہ ہی صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کی ہمت کی۔ ہر جگہ یہی خطرہ لاحق تھا کہ موصوف کی کرپشن اور منی لانڈرنگ پر سوال اُٹھیں گے ۔ اور تو اور یہ وزیراعظم اپنے ملک کے میڈیا رپورٹروں سے بھی ڈرتا ہے۔
نمبر2: سرکاری خرچے پر سیاست کرنے کے لیے معروف سیاسی جج بھی ایک بار پھر سامنے لایا گیا ہے ۔ کرائے کے اس گوریلے کی شہرت ہمیشہ سے تین نکات پر مشتمل رہی ۔ پہلا اپنے کزن کی سیاسی جماعت کے لیے فرنٹ مین کا کردار اور نواز شریف کے سیاسی غلاموں کے خلاف ننگی تلوار والا کردار۔ دوسری وجۂ شہرت یہ کہ کس طرح اس سیاسی جج کے بیٹے نے مال و زر بنایا‘ باپ کے سرکاری گھر میں کاروباری کمپنیاں کھولیں اور عملی طور پر بزنس نہیں بھتہ مرکز چلایا ۔ تیسرا نکتہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ ذرا سوچئے عدل کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا آدمی اپنے سگے بیٹے کی کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے جھوٹا قرآن اُٹھاتا ہے ۔ کہتا ہے: میرے گھر میں رہنے والا بیٹا کب مونٹی کارلو گیا ، کس کے خرچے پر گیا ‘ میرے گھر کے ایڈریس پر اس نے کون سی کمپنی بنائی ‘ میرے بیٹے کے پاس لمبرگینی کار کہاں سے آئی‘ اُس بے چارے معصوم باپ کو کچھ پتا نہیں ۔ اس معصوم نے کرپشن کا ثابت شدہ کیس کبھی نہ چلنے دیا ‘ کیونکہ ملزم اُس کا اپنا بیٹا تھا ۔ اب وہ چلا ہے آرٹیکل 62/63 نافذ کرنے کے لیے ۔ وہ بھی اکیلے عمران خان کے خلاف ۔ اُن لوگوں کے خلاف نہیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نا اہلی کے فیصلے صادر کر رکھے ہیں۔ واہ رے‘ رینٹ اے گوریلا۔
نمبر3: اپنی سیاست کے دو کردار تو یقینا آپ کو یاد ہوں گے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بقول ماڈل ٹائون میں 14 قتل کروانے والاوزیرلا قانون۔ جبکہ چوہدری شیر علی فیصل آبادی کے مطابق 18 قتل کروانے والا ۔ دوسرا‘ مُک مُکا کے عظیم فن کا میٹر ریڈر اور فرینڈلی اپوزیشن کی میل جول گاڑی کا انجن ڈرائیور۔ یہ دونوں کہتے ہیں: پی ٹی آئی نے ٹکٹ غلط لوگوں کو دے دیے۔ ان دونوں کرداروں کا اندر سے مسئلہ ایک ہے ۔ اَن دیکھے احتسا ب کا انجانا خوف ۔ کچھ ایسے ہی کردار لانگری بٹالین کے ہرکارے بھی ہیں ۔ جن کی حکومت تو چلی گئی لیکن تنخواہیں ابھی تک چل رہی ہیں ۔ بے چارے‘ عمران کی سیاست پر زُعمِ تقویٰ کے یہ امام آج کل مرے جارے ہیں ۔ سرکاری رینٹ سے چلنے والے گھر میں بیٹھ کر کہتے ہیں: عمران خان سے لوگوں کا رومانس مر گیا ۔ ساتھ یہ فتویٰ جاریہ بھی کہ عمران خان میںوزیراعظم بننے کی اہلیت ہی نہیں ۔ نیک نیتی سے کی جانے والی نشان دہی، تنقید اور نقد و نظر کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ مصنوعی بادلوں سے رینٹل بجلی گِر رہی ہے ۔ عمران خان وزیراعظم بننے کا اہل نہیں ۔ خیر سے شریف برادران ، مریم صفدر، اپنے بڑے مولانا جی اور باقی سب کے لیے سب اچھے کی رپورٹ ہے۔ سارے صادق ، امین، راست باز100 فیصد کلین بلکہ ڈرائی کلین ہیں۔ ویسے سُپر کلین کہنے میں بھی حرج ہی کیا ہے؟
اب ذرا آئیے اہلیت کے معیار کی طرف ۔ مثال کے طور پر پاکستان کو نا قابلِ بیان قرضوں میں کس نے جکڑا ؟ یقینا عمران خان نے کیونکہ قرضے یہودی بینکوں کے ذریعے آتے ہیں ۔ لیکن کھربوں کے یہ قرضے جاتے کہاں ہیں؟ اس بارے میں کوئی اہل لیڈر ہی بتا سکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ شہری اور انڈسٹری ، تاجر اور کسان لوڈ شیڈنگ کی گرمی میں روسٹ ہو رہے ہیں ۔ لوڈ شیدنگ کا ذمہ دار عمران خان کے علاوہ اور کون ہو گا؟ نہ وہ چار انتخابی حلقوں کی دھاندلی پر سوال اٹھاتا نہ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوتا۔ فارن پالیسی کا ذمہ دار بھی عمران خان بذریعہ یہودی لابی ہے۔ اسی لابی نے نواز شریف کو اقتدار کے پانچویں سال تک وزیرخارجہ لگانے سے روکے رکھا ۔ پنجاب میں زراعت کی بربادی اور کسانوں کی تباہی کا ذمہ دار بھی عمران خان ہی ہے ۔ نہ وہ دھرنے کرتا نہ کسان دھرنوں میں شریک ہوتے اور نہ زراعت کی ترقی رکتی ۔ یہ عین اہل لوگ ہی تو ہیں جو عین سے عید بھی باہر جا کر مناتے ہیں‘ بلکہ عین سے علاج کے لیے بھی عین انگریزی ہسپتال ڈھونڈتے ہیں۔
شکر ہے بینکوں کے ڈیفالٹر، منی لانڈرنگ کے ماہر، کھربوں ڈکارنے والے سارے اہل ہیں۔
اب ذرا آئیے اہلیت کے معیار کی طرف ۔ مثال کے طور پر پاکستان کو نا قابلِ بیان قرضوں میں کس نے جکڑا ؟ یقینا عمران خان نے کیونکہ قرضے یہودی بینکوں کے ذریعے آتے ہیں ۔ لیکن کھربوں کے یہ قرضے جاتے کہاں ہیں؟ اس بارے میں کوئی اہل لیڈر ہی بتا سکتا ہے۔