منتخب کردہ کالم

شکر ہے‘ یہ موقع گزرگیا!…الیاس شاکر

شکر ہے‘ یہ موقع گزرگیا!…الیاس شاکر

گراہم بیل نے جب ٹیلی فون ایجاد کیا تھا تو اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی اس میں سے تار نکال کر ”کارڈلیس‘‘ میں تبدیل کردے گا۔ پھر جب ”کارڈلیس‘‘کی رینج کا مسئلہ آیا تو کسی نے نہ سوچا تھا کہ ”موبائل فون‘‘آ جائے گا اورکسی بھی جگہ سے بات کرنا ممکن ہوپائے گا۔ دنیا ترقی کرتی چلی گئی… ٹو جی‘ تھری جی ‘ فورجی اور اب فائیو جی نے تاروں کے جھنجھٹ کے بغیر انٹرنیٹ کو ناقابل یقین حد تک تیزترین بنا دیا ہے ۔
موبائل فون در اصل اس لیے ایجاد ہوا تھا کہ ایمرجنسی میں کسی بھی شخص سے کہیں بھی رابطے میں رہا جاسکے… لیکن پاکستان میں اس کامقصد ہی تبدیل ہوگیا ہے ۔کوئی بھی خاص موقع ہو پاکستان کے تمام موبائل فون ”خاموش‘‘ہو جاتے ہیں… ان کی بولتی بند کرادی جاتی ہے… کہتے ہیں موبائل فون کے ذریعے دہشت گردی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایساصرف پاکستان میںہوتا ہے… یا پھر دنیا کے تمام ممالک کے حکمران اور سکیورٹی ادارے موبائل فون بند کرکے سکون سے سوجاتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو گا۔ ڈبل سواری پر پابندی بھی پاکستان کی ایجاد ہے ۔ اور اب ہر اہم موقع پر موبائل فون کی بندش نے دنیا بھرمیں پاکستان کی وزارتِ داخلہ اورصوبائی حکومتوں پر سوالیہ نشان لگادیئے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں موٹرسائیکل پر پابندی نہیں لگتی لیکن ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں موٹرسائیکل کو سڑکوں پر نکلنے سے روک کر دہشت گردوں کو انتہائی سخت پیغام دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موٹرسائیکل پر دوافراد کے بیٹھنے پر پابندی لگاکر بھی لوگوں کی زندگی محفوظ بنادی جاتی ہے۔
دنیا چاند اور مریخ کے کئی چکر لگانے کے بعداب کسی نئے سیارے پر جانے کی تیاری کررہی ہے… اس وقت دنیا بھر میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعدادچھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے… جن میں سے پانچ ارب کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی کے تین چوتھائی حصے کو موبائل فون تک رسائی حاصل ہے۔ 2001ء میںایک ارب انسانوں کو یہ سہولت دستیاب تھی جبکہ موبائل فون کے استعمال کا رجحان ترقی پذیر ممالک میں بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے… جس کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 21کروڑ آبادی والے ملک پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد 13کروڑسے زیادہ ہے… یعنی ہرتین میں سے دو افراد کے پاس موبائل فون موجود ہے… سبزی فروش ہو یا رکشہ ڈرائیور‘دھوبی ہویا نائی ‘موچی ہو یا باورچی ہرکسی کے پاس موبائل فون ہونا لازم ہے اوریہ ہر شعبے کا اہم جزو بن گیا ہے۔
پاکستان میں موبائل فون کی بندش کے بانی رحمان ملک ہیں۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے پہلی بار 2008ء میں موبائل سروس بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب تو یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ مارچ ہو یا اگست، کسی غیر ملکی وزیر اعظم یا صدر کا دورہ ہویا کوئی بھی حساس دن یا موقع… پہلا نزلہ موبائل فون سروس پر گرتا ہے۔ جب تک چوہدری نثار وزیر داخلہ تھے موبائل فون کی بندش کا دورانیہ کافی حد تک کم ہوگیا تھا‘ لیکن ان کے جانے کے بعد اب احسن اقبال نے رحمن ملک کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ سیاسی حکومتوں نے ورثے میں موبائل فون سروس کی معطلی کی روایت بھی دی ہے۔ یہ تو ثابت ہو چکا کہ موبائل سروس معطل ہونے سے سیلولر کمپنیوں کو کتنا مالی نقصان ہوتا ہے‘ بلکہ اب تو اے ٹی ایم مشینیں اور ٹریکر والی گاڑیاں بھی بندکی جانے لگی ہیں۔ موبائل فون سروس تین روز بند رہے تو ٹیلی کام سیکٹر کو لگ بھگ 4 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حکومت کو اس شعبے سے یومیہ 30 کروڑ روپے کا ٹیکس وصول نہیں ہوپاتا۔ اس طرح تین روز میں ٹیلی کام سیکٹر سے حکومت کو تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ دوسری جانب موبائل فون سروس پرووائڈرز کو سروس بندش کے باعث یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے… تین روز کا نقصان 3 ارب روپے بنا۔ اس کے علاوہ آن لائن ٹیکسی سروس کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جاتا ہے‘ جبکہ موبائل فون کی بندش سے عام لوگوں اور ایمرجنسی اداروں کے کارکنوں کی باہمی رابطہ کاری بھی مشکل ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ ثابت ہونا ابھی باقی ہے کہ موبائل فون سروس معطل ہونے سے دہشت گردی میں کیا اور کتنی کمی ہوتی ہے؟ اس بارے میں اب تک کسی حکومت نے کوئی بریفنگ نہیں دی اور نہ یہ بتایا کہ موبائل فون کی بندش سے دہشت گردی کے کتنے واقعات روکے جاسکے ہیں۔ اگر یہ طریقہ دہشت گردی کی روک تھام میں اتنا ہی کامیاب ہے تو کیوں نہ موبائل فون سروس مستقل ہی معطل کردی جائے تاکہ دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکا جائے۔
موبائل فون کی بندش کے بعددہشت گردی روکنے کا دوسرا سب سے ”کامیاب‘‘ فارمولا ”کنٹینرز‘‘کی تنصیب ہے … کسی بھی سڑک کو کنٹینروں سے بند کرکے دہشت گردوں کو ایسے روک دیا جاتا ہے جیسے اگر کنٹینرنہ رکھے ہوتے تو ہر طرف بمباری ہوجاتی۔ گزشتہ دنوں ایک اہم موقع پر کراچی کی اہم شاہراہ ایم اے جناح روڈ کے علاوہ صدر ریگل چوک، ایم اے جناح روڈ ، نمائش ، کھارادر اور دیگر اہم مقامات پر150سے زائد کنٹینرز رکھے گئے اور دکانیں سیل کی گئیں۔اس کے علاوہ کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے500کمانڈوز پر مشتمل کوئیک رسپانس فورس بھی سٹینڈ بائی تھی۔ لائسنس یافتہ اسلحہ لے کر چلنے ‘ نمائش کرنے اور ڈرون کیمرے چلانے پر بھی پابندی تھی۔ پاک فوج کے دستے شہر میں تعینات تھے ۔ تمام راستوں کو سراغ رساں کتوں اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی ٹیموں کی مدد سے کلیئرکرایا گیا۔ اتنے بھاری بھرکم حفاظتی اقدامات کے بعد بھی وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی حکومتوں نے یہ اہم موقع گزرنے پر کہا کہ شکر ہے !!یہ موقع خیروعافیت سے گزرگیا‘‘… حالانکہ اتنے کڑے اقدامات کے باعث عام شہریوں کی چیخیں نکل گئیں۔ کراچی والے سوال کرتے ہیں کہ درجنوں آپریشنز کے بعدبھی کیا وہ وقت واپس آئے گا جب کنٹینروں کے بغیر بھی کوئی اہم موقع یا تہوار گزر سکے گا…ڈبل سواری کھلی رہے اور موبائل فون بھی خاموش نہ ہوں۔
دنیا چاند اور مریخ کے کئی چکر لگانے کے بعداب کسی نئے سیارے پر جانے کی تیاری کررہی ہے… اس وقت دنیا بھر میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعدادچھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے… جن میں سے پانچ ارب کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی کے تین چوتھائی حصے کو موبائل فون تک رسائی حاصل ہے۔ 2001ء میںایک ارب انسانوں کو یہ سہولت دستیاب تھی جبکہ موبائل فون کے استعمال کا رجحان ترقی پذیر ممالک میں بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے… جس کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 21کروڑ آبادی والے ملک پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد 13کروڑسے زیادہ ہے… یعنی ہرتین میں سے دو افراد کے پاس موبائل فون موجود ہے… سبزی فروش ہو یا رکشہ ڈرائیور‘دھوبی ہویا نائی ‘موچی ہو یا باورچی ہرکسی کے پاس موبائل فون ہونا لازم ہے اوریہ ہر شعبے کا اہم جزو بن گیا ہے