میں اپنے آپ کو تھپکی دے رہا ہوں۔ شہباز تاثیر کی رہائی کے حوالے سے میں نے اندازوں کی بنا پر اپنے گزشتہ کالم میں جو تفصیل لکھی‘ آج اسے بطور حقیقت تسلیم کر لیا گیا۔ مختصر الفاظ میں‘ میں نے یہ لکھا تھا کہ شہباز تاثیر‘ اغوا کاروں کے مختلف گروہوں کے درمیان منتقل ہوتے رہے۔ ہر گروہ نے اپنے طور پر تاوان طلب کیا۔ پہلی بار یہ رقم اربوں میں تھی۔ شہباز تاثیر کو قید میں رکھنے والے ہر گروہ نے تاوان کی رقم‘ بتدریج گھٹانا شروع کر دی۔ اربوں سے کروڑوں پر آئے‘ اور پھر کروڑوں سے کم ہوتے ہوتے اس حد تک آ گئے کہ متاثرہ خاندان وہ رقم خاموشی سے ادا کرنے پر تیار ہو گیا۔ جس آخری گروہ نے یہ سودے بازی کی‘ اس نے رقم کی وصولی کے بعد‘ شہباز تاثیر کو ازخود ایک دور افتادہ مقام پر چھوڑ دیا‘ جہاں سے شہباز تاثیر نے ٹیلی فون کر کے اپنی آزادی کی اطلاع دی۔ سب نے اپنی اپنی اطلاع دی۔ سیکورٹی فورسز کا کردار اس میں مرکزی ہے۔ انہوں نے دہشت گرد گروہوں کو مارتے اور بھگاتے ہوئے‘ یہ صورت حال پیدا کر دی کہ جس گروہ کے پاس شہباز تاثیر مقید تھے‘ اسے پاک فوج کی پیش قدمی سے بچنے کے راستے بند ہوتے ہوئے نظر آئے‘ اور انہوں نے بدحواسی میں شہباز تاثیر کا سودا کر کے بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھی۔ یہ وہ کہانی ہے جو میں نے پہلے روز ہی لکھ دی تھی۔ اب اس کے مختلف حصے‘ مختلف ذرائع سے میڈیا میں آنے لگے ہیں۔ اس کہانی میں تاوان کا واقعہ ہمیشہ راز رہے گا اور اس کا راز رہنا ہی اچھا ہے۔
ان دنوں جناب آصف زرداری سے منسوب‘ متعدد بیانات اور انٹرویوز منظر عام پر آئے ہیں۔ ان میں زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے والے بیان کی تشریحات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں‘ مگر بات ہے کہ بن نہیں پا رہی۔ وہ کس کس لفظ کی تشریح کر کے‘ اپنی صفائی پیش کریں گے۔ میں ان کے الفاظ دہراتا ہوں ”ہمیں تنگ نہ کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔ یہ ہے گزشتہ سال جون میں دیے گئے ان کے بیان کی سرخی۔ اس بیان میں وہ جنرلوں کو کھلم کھلا ہدف بناتے ہیں۔ ان کا یہ جملہ پیش خدمت ہے: ”ہم شروع ہو گئے تو ایسی لسٹ نکالیں گے کہ سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ سب جنرلوں کا آج تک کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔ نجانے کتنے جنرلوں کا نام آئے گا‘‘۔ آگے چل کر فرماتے ہیں: ”یہ نہ سمجھیںکہ جنگ لڑنا نہیں آتی‘ ہمیں تنگ نہ کیا جائے۔ تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔ ان اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا ہدف پاک فوج ہی تھی اور اسی کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ ”جنگ ہمیں لڑنا آتی ہے اور ہمیں تنگ نہ کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔
اب انہوں نے میڈیا کو جو تازہ انٹرویوز دیے ہیں‘ ان میں یہ بات بار بار فرمائی ہے کہ ”اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات سیاسی مخالفین کے لئے تھی۔ فوج کے لئے نہیں‘‘۔ کوئی عقل کا اندھا ہی اس نئی تشریح پر یقین کرے گا۔ زرداری صاحب کی ساری تقریر میں ذکر ہی جنرلوں کا تھا۔ باقاعدہ جنرلوں کے عہدوں کا نام لے لے کر‘ تقریر کی گئی تھی۔ ان کا کچا چٹھا کھولنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے جو کچھ کہا‘ وہ جنرلوں کے بارے میں نہیں تھا۔ بات یوں نہیں بنے گی اور نہ کوئی تازہ تشریحات پر یقین کرے گا۔ فوج کے بارے میں انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا‘ جو میں تکرار کی وجہ سے نقل نہیں کر رہا‘ کیونکہ اصل بات واضح ہو گئی ہے۔ مزید کچھ لکھنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ زرداری صاحب کے حالیہ بیانات میں انہوں نے جنگ اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کے برعکس اب یہ پیش کش شروع کر دی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ اب اس پر تبصرے تو بہت ہو سکتے ہیں‘ لیکن حالات کا شکار اور مشکل وقت سے گزرنے والے سیاست دان پر طنز کرنا اچھا
نہیں لگتا۔ زرداری صاحب کو انتہائی برے حالات سے گزرنا پڑا‘ لیکن انہیں پہنچائی گئی تکالیف کا تعلق براہ راست ان کی سیاست سے نہیں تھا۔ جب ان پر مقدمات بنائے گئے‘ اس وقت سیاسی ذمہ داریاں شہید بے نظیر بھٹو نبھا رہی تھیں‘ اور زرداری صاحب ”شوہری‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے تھڑ پونجی کا احساس یا کمپلکس دور کرنے کے لئے‘ کرپشن ختم کرنے والے محکموں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے۔ ظاہر ہے ایسی لوٹ مار کو بعض لوگ آسانی سے برداشت نہیں کرتے۔ وہ زرداری صاحب کے کارناموں کا مسلسل چرچا کرتے رہے۔ دوسری طرف بی بی کی سیاست سے گھبرائے ہوئے مخالفین‘ انہیں مشکل میں ڈالنے کے طریقے ڈھونڈتے رہے اور آخرکار انہوں نے زرداری صاحب پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈال دیا‘ اور پھر مقدمے پر مقدمہ بنتا چلا گیا۔ بی بی کے مخالفین اقتدار میں تھے۔ انہوں نے خود بی بی پر بھی جعلی مقدمے بنا لئے تھے۔ ان کا جینا محال کر دیا گیا تھا۔ بچے چھوٹے تھے۔ کبھی وہ ان کے ساتھ اپنے مقدمے کی پیشی بھگتنے جاتیں اور کبھی زرداری صاحب کے مقدمات کی پیروی کے لئے بھاگ دوڑ کرتی نظر آتیں۔ یہ بہت تکلیف کے دن تھے لیکن زرداری صاحب کے لئے نہیں‘ بی بی کے لئے۔ زرداری صاحب تو جیل کے اندر بیٹھے‘ اپنی تازہ تازہ کمائی گئی دولت کے بل بوتے پر عیش و آرام کرتے رہے اور اصل تکلیفوں اور دکھوں کا سامنا بی بی شہید کو کرنا پڑا۔
ایک وقت آیا کہ حکمرانوں نے بی بی کو گرفتار کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ اس کی اطلاع بی بی شہید کو کر دی گئی۔ وہ بچوں کے ساتھ جگہ جگہ جا کر‘ مقدمے بھگتنے کے عذاب سے تنگ آئی ہوئی تھیں۔ انہیں جب اپنی گرفتاری اور قید کا علم ہوا تو ایک ماں کی حیثیت میں وہ پریشان ہو گئیں کہ اگر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا تو بعد میں بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ یہی سوچ کر انہوں نے جلاوطنی کا فیصلہ کیا۔ زرداری صاحب کو جیل میں رکھنے کا واحد مقصد بی بی کو تکلیف اور پریشانی میں ڈالنا تھا تاکہ وہ سیاست پر پوری توجہ نہ دے سکیں۔ جب اس کی ضرورت نہ رہی تو زرداری صاحب کو بھی رہا کر دیا گیا۔ گویا ان کی قید کا تعلق نہ تو اپنی قید سے تھا اور نہ رہائی سے تھا۔ یہ دونوں واقعات محترمہ بی بی شہید کی سیاست کے نتیجے میں ہوئے۔ اب وہ اپنے بیانات میں قید کو اپنا سیاسی کارنامہ قرار دیتے ہیں اور رہائی کو بھی۔ سچ یہ ہے کہ انہیں جو اہمیت‘ دولت اور سماجی حیثیت حاصل ہوئی‘ وہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی وجہ سے تھی۔ بی بی کی شہادت کے بعد‘ انہوں نے بھٹو صاحب کے سیاسی ورثے پر قبضہ جما لیا۔ اسی سے فائدہ اٹھا کر وہ ملک کے صدر بنے اور اب پیپلز پارٹی کے سربراہ بنے ہوئے ہیں۔
آج انہوں نے نصرت جاوید کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اب پیپلز پارٹی کے پورے معاملات‘ بلاول زرداری کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ ایسا کر دیں‘ لیکن اقتدار کی جو خواہشات ان کے اندر بیدار ہو چکی ہیں‘ ان کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کسی اور کے سپرد کرنے کا حوصلہ کریں۔ وہ بلاول زرداری کو اس وقت تک اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں گے‘ جب تک بلاول ایک سعادت مند فرزند کی طرح پارٹی کو الیکشن میں کامیاب ہونے کی منزل تک نہیں پہنچاتے۔ جیسے ہی زرداری صاحب کو نظر آیا کہ ان کی لاوارث چھوڑی ہوئی پارٹی کو بلاول نے ایک بار پھر انتخابی مقابلے کے قابل کر دیا ہے تو وہ خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر واپس پاکستان آ جائیں گے۔ میں نے ان کے اس ارادے کا اندازہ‘ اس انٹرویو سے لگایا ہے جو انہوں نے ٹی وی پر نصرت جاوید کو دیا ہے۔ ان کے انٹرویو سے واضح طور سے نظر آ رہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ مگر جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں‘ ان کے استعمال کردہ الفاظ میں فرار کی کوئی گنجائش نہیں۔ نہ الفاظ کا مطلب بدل سکتا ہے اور نہ جملوں کی ترتیب کا۔ انہوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ میرا ہدف سیاست دان تھے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیاست دان‘ تین سال کے بعد گھر نہیں جاتے۔ تین سال کے عرصے میں گھر جانے والا‘ صرف فوج کا سربراہ ہوتا ہے۔ اپنے ان الفاظ کو وہ کہاں دفن کریں گے؟ سچی بات یہ ہے کہ وہ خود سیاست کے اسرار و رموز کو نہیں سمجھتے۔ انہیں بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد کے واقعات نے اہمیت ضرور دی اور بی بی کی شہادت کے بعد بنی بنائی پارٹی بھی ان کے ہاتھ لگ گئی۔ وہ پارٹی آج کہاں کھڑی ہے؟ اس کی حالت دیکھ کر‘ تمام خیر خواہوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ سندھ میں انتخابی نشستیں جیتنے کی وجہ وڈیرے اور جاگیردار ہیں‘ جنہیں زرداری صاحب نے ساتھ ملا رکھا ہے لیکن ان کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے رائے دہندگان اس بار وڈیروں کے ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے اور کسی کو یہ امید نہیں کہ زرداری صاحب کے حواریوں‘ حصے داروں اور دوستوں کا ٹولہ اس مرتبہ سندھ سے بھی اکثریت حاصل کر سکے گا۔ اس حقیقت کا بلاول زرداری کو بھی جلد پتہ چل جائے گا۔