منتخب کردہ کالم

شہباز شریف کے شہر میں 12روز “……..وجاہت مسعود … لندن

گزرے ہفتے میں لاہور میں تھا۔ لندن سے بذریعہ ”پی آئی اے“ اسلام آباد اور پھر راولپنڈی سے لاہور تک کوچ کاسفر خلاف توقع ایک خوشگوار تھا۔ اسلام آباد پہنچنے پر برادرم عبدالرزاق ساجد کا پرزور اصرار تھاکہ ڈھڈیال‘ میرپور آزادکشمیر اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ”المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل“ کے تحت لگے ”آئی کیمپس“ کا وزٹ ضرور کریں جہاں یوکے سے آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم ان ضرورتمندوں کا بلامعاوضہ علاج و آپریشن کر رہی ہے‘ جن کی مالی استطاعت نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کی بیماریوں کا علاج یا نابینائی سے بینائی کی طرف لوٹنے کا مہنگا آپریشن کروا سکیں۔ میرے لئے یہ مشاہدہ بلاشبہ ایک اطمینان افروز اور خوشگوار تجربہ تھا کہ یہ ”این جی او“ انسانیت کی خدمت رنگ و نسل و عقیدے اور کسی ملکی حدود کی قید سے آزاد ہو کر کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی کے سنگم پر واقع ایک کوچ سٹیشن سے روانہ ہوا تو اس ایئرکنڈیشنڈ کوچ اور موٹروے کے سفر نے بدلتے ہوئے پاکستان کے حکومتی دعوﺅں کی سچائی پر یقین کرنے پر قدرے آمادہ تو کیا لیکن دو ہفتوں کے دوران جابجا ہوتی ہوئی لاقانونیت‘ آپادھاپی اور بے ہنگم معاشرتی برائیوں نے میرے اس خوشگوار تجربہ کو کف افسوس میں بدل دیا۔
”پی آئی اے“ نے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر بھی نظم و نسق بہترین کیا ہے۔ سری لنکا کا گراﺅنڈ سٹاف ”پی آئی اے“ کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر سٹیشن منیجر ساجداللہ کی سربراہی میں مستعدی سے مصروف عمل ہے۔ نئی چلائی گئی پریمیئر سروس بھی لاجواب ہے۔ فوڈ مینیو کی تبدیلی‘ جہازوں کی اندرونی صفائی سے لے کر خاتون فضائی میزبانوں کی بھی جاذب نظر تبدیلی قومی ایئرلائن کی نیک نامی میں اضافے کا باعث ہوئی ہے‘ چنانچہ میرے اس حالیہ سفر نے ”پی آئی اے“ کے دہائیوں سے جاری برے امیج کو بھی بڑی حد تک دور کیا ہے یقینا اس قسم کی انقلابی تبدیلیاں ”پی آئی اے“ کے گرتے ہوئے مورال کی بلندی کیلئے نیک فال ثابت ہوں گی۔ لاہور میں یہاں وہاں پھیلے بہترین روڈ انفراسٹرکچر کا سہرا یقینی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے سر ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے تبادلہ خیال کر کے معلوم ہوا کہ اب یہاں یہ عام تاثر بدل رہا ہے کہ حکمران پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر لگا رہے ہیں یا یہ کہ سڑکیں بنانے‘ میٹرو بس یا اورنج ٹرین بنانے سے زیادہ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے اور عام آدمی کے معیار زندگی بلند کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے بلکہ عمومی رائے یہ ہے کہ صحت و تعلیم بھی ضروری ہے لیکن اتنے ہی ضروری ذرائع آمدورفت اور روڈ انفراسٹرکچر بھی ہے‘ مثلاً اگر سڑک نہ ہو گی یا اس کے متبادل آمدورفت کی سہولیات نہیں ہوں گی تو ایمبولینس کہاں چلے گی اور ٹریفک کی روانی کیسے ممکن ہوگی۔ میرے خیال میں آنے والے پانچ سال میں لاہور پورے پاکستان کیلئے ایک ماڈل شہر کا تاثر لے کر ابھرے گا اور دیگر صوبے اور شہر لاہور کی تقلید کریں گے لہٰذا یہ سوچ ملک اور عوام کیلئے حوصلہ افزاءاور ترقی کی ضامن ہے۔
لاہور میں اپنے گھر سے اگر میں میاں شہبازشریف کے گھر تک کا سفر کروں تو چالیس پینتالیس منٹ کے اس سفر میں کم از کم بیس ایسی قانونی بے قاعدگیاں نظر آتی ہیں جنہیں تھوڑی سی حکومتی توجہ سے قانون کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت صرف لاہور سے ہی نہیں پورے ملک سے بے ہنگم اور کھچڑی زدہ بے وجہ کی مذہبی زبردستیاں ختم کرے مثلاً اگر مسجدوں میں لاﺅڈسپیکر کا لایعنی استعمال ہی ختم کر دیا جائے تو ملک بھر میں بڑی حد تک مذہبی منافرت‘ عقیدے کے نام پر نفرت و قتال کی روش ختم کی جا سکتی ہے۔
کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ گلی محلوں میں آدھی رات اور رات کے پچھلے پہر بھی لوگ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ہارن دیتے ہیں‘ کیا ہارن دینے پر یہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ رہائشی علاقوں میں رات دس بجے کے بعد ہارن دینا قابل گرفت جرم ہے۔ سنا ہے حکومت نے لاﺅڈسپیکر پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن حکومتی رٹ کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ حکومت نے بہترین سڑکیں تو بنادیں لیکن ان کے استعمال کی تربیت نہیں دی۔ ریڈ اور گرین لائٹس کی کوئی پابندی نہیں کرتا، اپنی لین میں کوئی گاڑی نہیں چلاتا، حد رفتار کی کوئی پابندی نہیں، کون سا سامان اور کتنا سامان کس ٹرک یا کس گاڑی میں لوڈ کئے جانے کی اجازت ہے‘ کسی کو پروا نہیں۔ فٹ پاتھ اول تو ہیں نہیں‘ اگر ہیں تو ان پر ناجائز قبضے ہیں، سرکاری سکولوں اور کالجز میں پڑھائی سرے سے نہیں ہوتی‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نجی قسم کے سیلبس اور نظام تعلیم رکھنے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بہتات ہے جو حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں، افراتفری کا بے محار نظام ہے‘ جو رشوت، لوٹ کھسوٹ، اقرباپروری، بے راہ روی کو تقویت دے رہا ہے۔ میں اپنے لاہور والے گھر سے وزیراعلیٰ شہبازشریف کے گھر تک جاﺅں تو مجھے ایک ہی شہر میں تین قسم کے شہر نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے اس ایک ہی شہر میں پہلی، دوسری اور تیسری دنیا آباد ہے۔ شاید شمالی لاہور وزیراعلیٰ کی عمیق نظروں سے اوجھل ہے۔
لاہور میں حالیہ وزٹ کے دوران اورنج ٹرین کیلئے جاری تعمیراتی کام کی وجہ سے جگہ جگہ کھدائی کا عمل جاری اور کہیں کہیں عدالتی حکم کی وجہ سے رکا بھی ہوا ہے۔ بعض لوگوں نے چند وجوہات کی بنا پر سٹے آرڈر لے رکھا ہے۔ ورنہ شاید ابھی تک یہ کام مکمل ہو چکا ہوتا۔ بہتر ہوتا اگر حکومت پنجاب یہ منصوبہ شروع کرنے سے پہلے ہی تمام امور کا جائزہ لیتی اور پھر کام شروع کرتی تو ایسی دقتیں درپیش نہ ہوتیں۔ چار نومبر کو لاہور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں عبدالرزاق ساجد نے ”المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ“ کے تحت لاہور کے سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک تقریب کا انعقاد کر رکھا تھا جس میں ایڈیٹرز، اینکرز اور کالم نگاروں سمیت برطانیہ سے آئے ہوئے رکن برطانوی ہاﺅس آف لارڈز‘ لارڈ نذیر احمد نے بھی خصوصی شرکت کی۔ وہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ منتظمین جن میں معروف صحافی نواز کھرل اور تجمل گورمانی نے بریفنگ دی، ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد اور سرپرست اعلیٰ سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے بھارتی حکومت کو خط لکھا ہے کہ وہ ہمیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دیں تاکہ ہم وہاں ان کشمیریوں کی آنکھوں کا علاج کرسکیں جن کی بینائی پیلٹ گنوں کی فائرنگ یا کسی بھی دوسری وجہ سے ضائع ہوئی ہے۔ اس ضمن میں برطانوی وزیراعظم اور اقوام متحدہ کو بھی خطوط لکھے گئے ہیں تاکہ وہ بھی بھارتی حکومت سے اس بات کی سفارش کریں کہ ہمیں مقبوصہ کشمیر جانے کیلئے ویزے دیئے جائیں۔ اسی سلسلہ میں ایک تقریب کا اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بھی کیا گیا جس میں سینئر صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔ یقینا اس قسم کی جذبہ انسانی رکھنے والی تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے‘ اثرانداز ہونے والے افراد کو کرنی چاہیے۔
12روز لاہور میں گزارنے کے باوجود میں شہر کی کھلی فضا میں سانس نہیں لے سکا۔ کچھ تو پہلے ہی شہر کی فضا ہمیشہ سے گردآلود رہی ہے‘ رہی سہی کسر اس سموگ نے پوری کردی جو ایک رائے کے مطابق بھارت کی طرف سے اڑتی ہوئی آئی اور لاہور کی دھند میں آ کر جم گئی۔ یہ اس قدر خطرناک ہے کہ حکومت کو شہریوں کیلئے وارننگ جاری کرنا پڑی کہ عینک اور ماسک کا استعمال ضرور کریں اور بلاوجہ گھروں سے نہ نکلیں۔ خبروں کے مطابق یہ سموگ لاہور میں تین جانیں بھی لے چکی ہے۔ حکومت کی سموگ وارننگ‘ اپنی جگہ لیکن کیا وزیراعلیٰ شہبازشریف کو علم ہے کہ ان کے شہر لاہور میں آبادیوں کے درمیان ایسی سینکڑوں فیکٹریاں موجود ہیں جو مضر صحت انتہائی زہریلا دھواں چھوڑتی ہیں۔ ایسی فیکٹریاں بھی ہیں جو ٹائر جلانے کا کام صبح و شام کر رہی ہیں اور اس کا زہرآلود دھواں شہریوں کیلئے موت کا پیغام بن رہا ہے۔ کیا انہیں علم ہے کہ ان کے شہر میں صاف پینے کا پانی عوام کو مہیا نہیں اور لاکھوں لوگ سرکاری نلکوں میں گٹر کا مکس پانی پینے پر مجبور ہیں۔ انہیں فلٹریشن پلانٹ سے بھی مضر صحت پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کو یہ علم بھی ہوگا کہ آپ کے شہر میں کہیں اصلی نمبر ون ادویات مہیا نہیں ہیں۔ شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کیمیکل ملا دودھ استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ شہری گدھوں‘ گھوڑوں‘ کتوں اور چوہوں تک کا گوشت قصائیوں پر اعتبار کرکے کھا رہے ہیں۔ گیس کی لوڈشیڈنگ‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو شہری جیسے تیسے برداشت کر ہی رہے ہیں لیکن یہ تو حکومت کے بس میں ہے کہ اوپر لکھی گئی ان بے پناہ ”دہشت گردیوں“ کا علاج اور ان کا قلع قمع کرے لہٰذا میاں صاحب یہ حکمران ہوتے ہوئے اور لاہور کے مکین ہونے کے ناطے بھی آپ کا فرض اولین ہے اور پھر آپ کے پاس تو خادم اعلیٰ کا ٹائٹل بھی موجود ہے اور یہ ٹائٹل بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کم از کم اپنے شہر کو تو پہلے اور پھر پنجاب بھر کو اس قسم کی قباحتوں اور گندگیوں سے پاک کریں ورنہ شاعر کی طرح ہمیں بھی 12روز بعد ہی کہنا پڑے گا کہ
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا