منتخب کردہ کالم

شیر خان ایسا کیوں سوچتا ہے؟ ،،،،حسنین جمال

شیر خان ایسا کیوں سوچتا ہے؟ ،،،،حسنین جمال

ہم لوگ مال پہ تھے۔ شیر بھائی بتا رہے تھے کہ بچپن میں اگر ان کے ہاتھوں میں کوئی کتاب یا ناول دیکھ لیا جاتا تو انہیں باقاعدہ مار پڑتی تھی۔ پڑھنے کا شوق ہمیشہ سے رہا، زندگی بھر جب بھی، جہاں بھی موقع ملا وہ کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتے رہے۔ میں سن رہا تھا لیکن میں نے کوئی بھی سوال ان سے نہیں کیا۔ بالکل نہیں پوچھا کہ ان کتابوں نے آپ کو کیا فائدہ دیا، آپ نے کیا سیکھا، کچھ بھی نہیں۔
”مجھے فلم دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، میں اب موبائل پر خود فلمیں ڈاؤن لوڈ کرتا ہوں اور جب وہاں جاتا ہوں بچوں کے پاس، تو ان کو دیتا ہوں۔ کبھی میں فون کروں اور کوئی بچہ فلم دیکھ رہا ہو تو پہلا سوال پتہ ہے میں کیا کرتا ہوں؟ بیٹا آپ جو فلم دیکھ رہے ہیں اس کے ڈائریکٹر کا نام بتائیں۔ پہلے بچوں کو نہیں آتا تھا، اب وہ سب سے پہلے یہی دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہوں گے کہ باپ کیسا خبطی ہے، لیکن یہ زندگی کا سبق ہے کہ جب فلم دیکھو تو پتہ ہو کہ بنائی کس نے ہے‘‘۔
شیر خان کی بات وہاں ختم ہوئی جب انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ پڑھیں یا نہ پڑھیں، ایک کتاب آپ کے ہاتھ میں ہمیشہ ہونی چاہئے۔ کہنے لگے کہ یار کتاب اگر ہاتھ میں بھی رہتی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ وہ کبھی نہ کبھی پڑھی جائے گی۔ اگر کتاب سامنے ہی نہیں ہو گی تو اسے کون پڑھے گا اور کیوں پڑھے گا؟
پھر ان دنوں وہ اسمبلی میں حلف کے الفاظ والی خبر پہ بات شروع ہو گئی، باتوں کے دوران ایک جگہ اچانک ایسی ایک چیز نظر آئی کہ ان سے گاڑی روکنے کی درخواست کر دی۔ سڑک کے دوسری طرف بہت سے پینافلیکس لگے تھے۔ کوئی مقابلہ تھا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تھا۔ ان اشتہاروں پہ کچھ مرد حضرات کی تصاویر تھیں۔ یہ سارے فلیکس/پوسٹر مال روڈ سے شروع ہو کے یہاں تک آ رہے تھے۔ اب اچانک ایک کے بعد ایک، ہر فلیکس پہ جتنے بھی چہرے تھے، سب پر کالک ملی نظر آئی۔ دو، چار، چھ تو بس روک کے تصویر کھینچنے کا ارادہ کیا۔ شیر خان کہنے لگے، ایسا کریں گے تو بات یہاں تک تو آنی ہی ہے۔ پوچھا کیسا کریں گے؟ تو وہ بتانے لگے کہ جب عورتوں کے چہروں والے اشتہار اس سیاہی پھینک رجحان کا شکار ہوئے تھے، کسی نے آواز بلند نہیں کی، جب نہیں کی تو آج ان کے لیے کون آواز اٹھائے گا؟
یہ بات وہ انسان کر رہا تھا جو ایک دور دراز کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ مجبوریاں شہر لے آئیں۔ زندگی اور موت کئی بار بہت قریب سے دیکھیں، باعقیدہ آدمی ہے اور تمام ادب آداب کا دھیان رکھتا ہے۔ عین ویسا اکل کھرا ہے جیسے ان علاقوں کے لوگ اکثر پائے جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی دور سے شہر آنے والا سادہ سا انسان یہ بات جان گیا اور ادھر پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں رہنے والے کچھ لوگ سڑکوں پہ مردوں کی تصویریں دیکھ کے بھی منہ کالا کرتے رہتے ہیں؟ یہ بات انہیں کون سی تہذیب نے سکھلا دی؟مطلب آپ زندہ کس زمانے میں ہیں بھائی؟ کون لوگ ہیں یہ جو مال روڈ پر، پاکستان کے دوسرے بڑے شہر، صوبائی دارلحکومت لاہور کی مرکزی سڑک پر ایسا سب کچھ کر گزرنے کی جرأت کرتے ہیں اور کوئی انہیں پکڑ بھی نہیں سکتا؟ سیف سٹی پراجیکٹ کے مال روڈ والے کیمرے تو چل ہی رہے ہوں گے، ان میں بھی چیک کیا جا سکتا ہے۔ قابل اجمیری کہتے تھے، وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ تو یہ بنیادی طور پہ وارننگ ہے، داعشی فکر والے گروپ اعلان کر کے نہیں آتے، یہی حرکتیں شروع میں ہوتی ہیں اور بعد میں بامیان کے پہاڑوں سے بدھا کے مجسمے تک صاف کر کے صالح ماحول بنایا جاتا ہے۔
شیر خان اگر کتاب دوست نہ ہوتے تو ان کی سوچ اس رخ پہ کبھی جا ہی نہیں سکتی تھی۔ عین ممکن ہے کہ یہ کالک ملی دیکھتے تو ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا اور وہ نعرہ لگاتے کہ یہ دیکھو، کیا نر بچوں والا کام کیا ہے، جس نے بھی کیا ہے۔ تصویر کا وجود؟ توبہ کرو جی، مرد ہے یا عورت ہے، ہم کو نہیں پتہ، تصویر نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت ان سے اختلاف بھی کسی نے نہیں کرنا تھا۔ اس قسم کی سرشاری میں انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ کہ پاکستان میں شیر خان کی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کتاب کلچر پروموٹ ہو۔ بچے نہیں پڑھتے کتاب؟ کوئی مسئلہ نہیں، ڈاکیومینٹریز دکھائی جا سکتی ہیں، خود والدین سوشل میڈیا پہ انہیں مختلف ایسی چیزیں بھیج سکتے ہیں جو ان کے سماجی رویوں کی ڈائریکشن ٹھیک کریں۔
لیکن ایسا ہو گا کیسے؟ معاملہ یہ ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ڈائریکشن خود ٹھیک کرنی ہو گی۔ اگر ہمارا بچہ خواہ مخواہ نفرت والے ماحول میں پلے گا تو وہ محبت کرنا سیکھ ہی نہیں سکے گا۔ اسے ڈائجسٹ پڑھنے کی اجازت نہیں ہو گی، اسے فلم دیکھنے پر ڈانٹ پڑے گی، اسے گانوں پر جھومنے تو کیا سننے تک کی آزادی نہیں ملے گی، اسے بتایا جائے گا کہ گلوکار مراثی ہوتے ہیں، پینٹنگ یا مجسمے نام کی چڑیا کا پر تک اس نے دیکھا نہیں ہو گا، کلاسیکل رقص اس کے لیے شجر ممنوعہ ہو گا، شاعری ویہلے لوگوں کا گھٹیا کام کہہ کر متعارف کروائی جائے گی، اداکاروں کو ‘‘اس گھرانے” سے وابستہ کہہ کر اپنے گریبانوں میں جھانکے بغیر ان کی مٹی پلید کی جائے گی، سیاست دانوں کو باقاعدہ گالیاں دی جائیں گی، سالم ملک پورے عوام سمیت دشمن قرار دئیے جائیں گے، ان کی ثقافتیں گھٹیا قرار دی جائیں گی تو بھائی، بچہ کلچرڈ کیسے ہو گا؟
اسے کون بتائے گا کہ بالے تم جس دنیا میں رہتے ہو وہاں سوشل میڈیا اس لیے آیا تھا کہ لوگوں کو قریب کر سکے، انہیں جوڑ سکے، تم وہاں بھی بڑھ چڑھ کے حملے کرتے ہو، اپنی گھٹن اور نفرت مفتے میں پھیلاتے ہو۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی ایسی کوئی بھی خبر جو ہمارے کلچر سے مطابقت نہ رکھتی ہو، اس کے نیچے دیسی بچوں کے کمنٹس دیکھ لیجیے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہ کالک صرف سڑک پر موجود پوسٹر والے چہروں پہ ہی نہیں پوتی گئی، یہ ہر روز سوشل میڈیا پر بھی مکمل اہتمام بلکہ اطمینان کے ساتھ ملی جاتی ہے۔ ضرورت اسے جاننے، پہچاننے اور ماننے کی ہے۔ جب خرابی کا ادراک ہوتا ہے تو اسے ٹھیک بھی کیا جا سکتا ہے۔ علم ہی نہ ہو اور تہذیبی گراوٹوں پہ فخر کیا جائے تو پھر سب کچھ ممکن ہے۔ پھر تو شرمین عبید چنائے کے فرینڈ ریکوئسٹ والے ایشو کو بہ یک جنبش ابرو ریجیکٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بہ صد معذرت اس وقت صرف نصابی کتابوں پہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی جماعت سے آٹھویں تک اخلاقیات نامی کوئی مضمون دور دور تک نہیں ہے۔ کلچر کے بارے میں کہیں کچھ موجود ہے تو صرف ایسا جو بچے کو اپنے آپ پہ فخر کرنا اور دوسروں کا مذاق اڑانا ہی سیکھا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے بارے میں جو کچھ تھا تقریباً سب کا سب نکل چکا۔ سوشل سٹڈیز پاکستان سٹڈیز کا روپ دھار چکی ہیں۔ کل ملا کر جو نسخہ ترتیب دیا گیا ہے اسے اگر تھوڑا سا پالش کر لیا جائے تو وہی مخلوق نکلتی ہے جو چہروں پہ کالا سپرے پینٹ کر کے دنیا فتح کرتی پھرتی ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنی اور اپنے بچوں کی سوچ کو وسعت دی جائے۔ وہ تبھی مل سکتی ہے جب پوری دنیا کا ادب یا فلم حسب توفیق پڑھے یا دیکھے جائیں اور جانا جائے کہ دو تین سو برس پہلے ہر قوم اپنے آپ کو سرخاب کے پروں میں ملبوس خیال کرتی تھی، اب ہم اکیلے اس مرض کا شکار رہ گئے ہیں۔ نیز وجہ جانی جائے کہ ان کے ساتھ ایسا کیا ہو گیا جو انہیں آنے والی تھاں پر لے آیا اور ہم ابھی سپرے پینٹ لیے سڑکوں پہ ہی گھوم رہے ہیں