بھارتی وزارت خارجہ کے نئے عالیشان دفتر جواہر لال نہرو بھون میں ہر جمعرات کو ترجمان پریس بریفنگ دیتا ہے۔ چونکہ پچھلی جمعرات کو بریفنگ کے وقت کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، اس لئے دفتر خارجہ کورکرنے والے صحافی صبح سے ہی بے چین تھے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے، جو معمول کا واقعہ لگ رہا تھا۔ لیکن خبر آئی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر کابینہ کی سلامتی امور سے متعلق کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ تقریباً 11 بجے بتایا گیا کہ 15منٹ کے بعد ایک اسپیشل بریفنگ ہوگی۔ اس مختصر نوٹس پر سبھی حیران ہو گئے۔ ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد ہال میں وزرات خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ کے ہمراہ فوج کے ڈائریکٹر جنرل آپریشن جنرل رنبیر سنگھ نمودار ہوئے۔کرگل جنگ کے بعد پہلی بار یہاں وزارت خارجہ اور فوج کی مشترکہ بریفنگ ہو رہی تھی۔ جنرل نے لکھا ہوا بیان پہلے انگریزی اور بعد میں ہندی میں پڑھا اورکسی بھی سوال کا جواب دیے بغیر پریس کانفرنس ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جنرل نے انکشاف کیا کہ رات کے اندھیرے میں بھارتی فوج کے اسپیشل دستوں نے لائن آف کنٹرول کو عبور کرکے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، ان کو اور ان کے حامیوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ ان کے تحریری بیان کے آخری جملے معنی خیز تھے کہ بھارت ان آپریشنزکو جاری رکھنے کا خواہاں نہیں ہے اور سرحد پر امن اور سکون بحال کرنا چاہتا ہے۔
وزارت خارجہ کے دفتر سے نکلتے ہی انڈیا گیٹ پر ایک ہجوم جمع ہوگیا جو بھنگڑا ڈالے ہوئے تھا۔ چند قدم پر اشوکا روڈ پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر دفتر کے باہر ٹریفک جام تھا، پٹاخے چلائے جا رہے تھے، فون اور انٹرنیٹ پر مبارکبادیاں دی جا رہی تھیں۔ دہلی سے متصل نوئیڈا میں ہمارے دفتر کے قریب زیر تعمیر بلڈنگ کا ٹھیکے دار مٹھائیاں بانٹ رہا تھا۔کئی مالز میں ریسٹورانٹوں نے کھانوں پر اور کمپنیوں نے دیگر اشیاء پر 20 فیصد چھوٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ غرض ایک جنگی جنون سا چھاگیا۔ یہ کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کر رہا تھا کہ بھارتی فوج نے ایسا کیا کر دکھایا ہے کہ قوم سحر زدہ ہوگئی ہے۔ بھارتی انفارمیشن سروسز کے ایک سابق اعلیٰ افسر نے ایس ایم ایس کے ذریعے مجھے بتانے کی کوشش کی کہ مودی نے اپنی 56 انچ کی چھاتی کا
کمال دکھایا ہے جو سابق حکومتیں کبھی نہیں دکھا سکیں۔ اسی دن دوپہر کو کانگریس پارٹی ایک پریس کانفرنس میں بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ کو ایک افسر اور اس کے پورے خاندان کو مبینہ طور پر خود کشی پر مجبور کرنے کے ایک کیس کے سلسلے میں نشانہ بنانے والی تھی۔ لیکن اس سرجیکل سٹرائیک کے بعد کس کو ہوش تھا۔ وزارت خارجہ سے کچھ ہی فاصلے پر کانگریس کے صدر دفتر پہنچ کر معلوم ہوا کہ پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی ہے اور قریب ہی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر لیڈروں کو میٹنگ کے لئے بلایا گیا ہے۔ پارٹی کے ایک سینئرجنرل سیکرٹری جو ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، بتا رہے تھے کہ سرجیکل سٹرائیکس کا رخ پاکستان کے بجائے کانگریس کے طرف زیادہ تھا۔ بھارت کی سب سے بڑی انتخابی ریاست اتر پردیش اور پنجاب میں اگلے سال کے اوائل میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ نے اتر پردیش میں جیت کو زندگی اور موت کا سوال بنایا ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے اس صوبے میں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی3000کلومیٹر طویل روڈ شوکر رہے ہیں اور توقع کے برعکس ان کے جلسوں اور روڈ شوز میں خاصی بھیڑ جمع ہو رہی ہے۔ ادھر بی جے پی کو اپنے گڑھ مہاراشٹر اور گجرات میں سخت امتحان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہاراشٹر میں مراٹھی آبادی نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں محفوظ (ریزرو) نشستوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان سٹرائیکس سے پہلے پارٹی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر اسمبلی میں 148مراٹھی اراکین نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ اسی طرح گجرات میں بھی طاقتور پاٹل طبقہ محٖفوظ نشستوں کے مطالبہ لے کر سڑکوں پر ہے۔ دراصل مودی نے حکومت کی طرف سفر شیر پر سوار ہوکر کیا ہے۔ اس بھوکے شیر کو کھلانے کے لئے کچھ ایسے ہی کرتب کی ضرورت تھی تاکہ کشیدگی میں شدت پیدا ہو۔ اس آپریشن سے چار روز قبل جنوبی صوبہ کیرالا میں مودی کی تقریرکی سفارتی اور سیاسی حلقوںکی طرف سے پذیرائی ہو رہی تھی، جس میں اس نے پاکستان کے ساتھ مل کر غریبی کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر اس کے ایک ہی دن بعد دہلی میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والاکارکن ایک نجی محفل میں مودی کو آڑے ہاتھوں لے رہا تھا کہ ”آخر اس (مودی) نے اپنی گجراتی تاجرانہ خصلت دکھائی جن کا اول و آخر ملک کی عصمت کے بجائے کارو بار ہوتا ہے‘‘۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلی بی جے پی حکومت میں اٹل بہاری واجپائی لاہور تبھی وارد ہوئے تھے جب انہوں نے پہلے ایٹمی دھماکے کرکے کشیدگی عروج پر پہنچا دی تھی۔ مودی سے قد میں بلند اس لیڈر نے بھی پہلے کشیدگی کو عروج پر لاکر شیر کی خوراک کا انتظام کیا اور پھر عملی سفارتی اور سیاسی میدان کا سفر شروع کیا۔
اب یہ سٹرائیک حقیقت ہو یا نہ ہو، مگر اس سے قبل اڑی میں بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ اور 20 فوجیوں کی ہلاکت نے بھارت کو سفارتی سطح پر ایک بڑی سبکی سے بچایا۔ گویا بھارت کے لئے یہ آسمانی عطیہ تھا۔ 1994ء کے بعد پہلی بار میں نے بھارتی وزارت خارجہ کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا مضطرب پایا۔ اس حملے سے قبل جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی زمینی صورت حال، بچوں نوجوانوں اور بزرگوں کی ہلاکتوں کے سلسلے میں بھارتی مندوب سے جواب ہی نہیں بن پار ہا تھا۔ جس دن سرینگر میں حقوق انسانی کے سرگرم کارکن خرم پرویزکوگرفتار کیا گیا، ایک بھارتی سفارت کار ہاتھ مل رہا تھا کہ یہ ایشو دنیا بھر میں بھارت کی سبکی کا باعث بن جائے گا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ سشما سوراج کے لئے پریشانی کا باعث بنے گا، کیونکہ دنیا بھر میں سفارتی اور انسانی حقوق کی سطح پر کام کرنے والے اشخاص میںخرم ایک معتبر اور مشہور نام ہے۔ اس کی گرفتاری پر واویلا مچنا لازمی تھا، مگر اڑی نے بھارت کو پرپیگنڈے کا ایک موثر ہتھیار فراہم کر دیا اور دنیا کی توجہ کشمیرکی زمینی صورت حال سے ہٹ کر بارڈر دہشت گردی پر مرکوز ہوگئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بین الاقوامی برادری حقائق کا ادراک کرنے کے بجائے بھارت جیسی ایک بہت بڑی اقتصادی منڈی کو ہاتھ سے جانے کی ہمت نہیں کر پاتی۔ جنوبی ایشیا میں کبھی بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے اور اس کو بیلنس کرنے کے لئے پاکستان سے آس لگائے ہوتے تھے، مگر سارک اجلاس کے موخر ہونے اور ان ملکوں کے رویے سے ظاہر ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر خاصی تگ و دوکرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلی دو دہائیوں سے کشمیر اور بھارت پاکستان تنازع کوکورکرتے ہوئے اتنا تو ادراک ہوگیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر اس سے قبل بھی کئی بار دونوں ملکوں کی اسپیشل فورسز دست و گریبان ہو چکی ہیں، مگر ان آپریشنز کو کبھی عام نہیں کیا گیا۔ مارچ 1998ء میں بھارت کی اسپیشل فورسز نے چھمب سیکٹر میں بھنڈالا کے مقام پر 22 دیہاتیوں کا قتل عام کیا، جائے وقوعہ پر پاکستانی فوج کو ایک انڈیا میڈ گھڑی ملی تھی۔ بھارتی ذرائع نے بتایاکہ کچھ عرصہ قبل پرن کوٹ میں کسی تنظیم کی طرف سے 22 ہندوئوں کے قتل کا یہ بدلہ تھا۔ مئی 1999ء میں پاکستانی اسپیشل دستے نے بھارتی فوج کے کیپٹن سوربھ کالیہ اور دو سپاہیوں کو تحویل میں لیا اور بعد میں ان کی لاشیں بھارت کے حوالے کیں۔ 8 ماہ بعد جنوری 2000ء میں اس کے جواب میں سات پاکستانی فوجیوں کو قبضے میں لینے کے بعد بری طرح ٹارچرکرکے ہلاک کیا گیا۔ جنوری 2004ء میں نکیال سیکٹر میں پاکستان کی طرف لانجوٹ گائوں میں 16دیہاتیوں کو چاقوئوں وار کر کے قتل کیا گیا، ان کی لاشیں گائوں کی پگڈنڈیوں پر بکھری ہوئی ملیں۔اگرچہ بھارت نے کبھی اس آپریشن کو قبول نہیں کیا مگر انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اسپیشل فورسز کا یہ آپریشن جموں کے علاقہ میں ہندو گائوں پر حملے اور وہاں قتل عام کا بدلہ تھا۔ اسی طرح جون 2008ء میں پاکستانی فوج نے پونچھ میں 8 گورکھا سپاہیوں پر وارکیا جس کا بدلہ بھارت نے بٹھل سیکٹر میں ایک پاکستانی فوجی کا سر قلم کرکے چکایا۔ اگست 2011ء میں شاردا سیکٹر میں بھارتی فوج نے تین پاکستانی سپاہیوںکو پکڑ کر انکے سر اتارے۔ بتایا گیا کہ یہ پاکستانی اسپیشل فورسزکی طرف کرناہ میں کی گئی کارروائی کا بدلہ تھا، جس میں دو بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ صرف چند واقعات تھے جو میرے نوٹس میں ہیں۔ مگر اب یہاں مودی کو کون بتائے کہ ان کی 56 انچ کی چھاتی سے قبل بھی اس طرح کے آپریشنز دونوں اطراف میں ہو رہے تھے۔ جہاں پر بھی کسی نے سوالات کرنے کی کوششیں کی، ان کی ایسی حالت بنائی گئی کہ وہ اپنی گردن بچانے کے فراق میں خاموش ہوگئے۔کشمیر پر تو بھارت میں1947ء سے ہی کوئی سچ سننے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔
معروف صحافی سعید نقوی نے اپنی حالیہ تصنیف Being the Other–The Muslims of India میں انکشاف کیا ہے کہ 28 اکتوبر1947ء کو جب انگریزی اخبار سٹیٹس مین نے تنازع کشمیر پر ایڈیٹوریل لکھا اور تجویز دی کہ جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھارت کا حصہ جبکہ جغرافیائی اور دیگر عوامل کی وجہ سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چائیے، تو چند گھنٹوں میں اس کے ایڈیٹر آئیان اسٹیفنزکو لارڈ مائونٹ بیٹن نے طلب کرکے بھارتی کابینہ کی طرف سے نہ صرف سرزنش کی بلکہ دبے لفظوں میں دھمکی بھی دی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کشیدگی کو انتہا تک لے جانے اور جنگ کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کشمیر میں جاری بے چینی اور کشت و خون نے ایسی فضا قائم کر دی ہے جو 1947ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ء سے بالکل مختلف ہے۔ بھارتی فوج کے لئے اس وقت کشمیر کے اندر نقل و حرکت کرنا چلینج بنا ہوا ہے۔ پچھلی بار جب افواج کو سرحد پر تعینات کیا گیا اور دس ماہ تک دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رہیں، ایک اندازے کے مطابق دونوں ممالک کے اس فوجی جمائو پر بھارت کو3.1 بلین اور پاکستان کو1.4بلین ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑے۔ وقت آچکا ہے کہ بھارت کشمیرکی سچائی کا سامنا کرے اور اعلان کرے کہ وہ عوامی مفاد کی خاطر کسی بھی حل کے لئے تیار ہے۔