منتخب کردہ کالم

صبرو تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے!: آغا مسعود حسین

سبکدوش ہونے والے پاکستان کی بری فوج کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے واشگاف الفاظ میں بھارت کو ایک بار پھر للکارتے ہوئے کہا کہ ہمارے صبرو تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے، خود بھارت کے لئے یہ سوچ خطر ناک ثابت ہوسکتی ہے کہ انہوںنے بھارت کے علاوہ دیگر ملکوں پر یہ واضح کردیاہے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے اندرونی حالات پر بھی ایک بار اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کو نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنا چاہئے، ملک کو اندر ونی خطرات درپیش ہیں، جن میں انتہا پسندی ،کرپشن ، دہشت گردی سرفہرست ہیں، اس کے علاوہ بری طرز حکمرانی نے بھی پاکستان کو داخلی طورپر بہت کمزور کردیا ہے۔ جنرل راحیل شریف (ر) کے یہ خیالات نئے نہیں ہیں، بلکہ انہوںنے دوران ملازمت متعدد بار پاکستان کے اندرونی حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سویلین حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ حکومت کو خلوص دل سے پاکستانی عوام کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئے، کرپشن کی وجہ سے جہاں پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی ہے، وہیںاس کی وجہ سے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ جبکہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کو زبردست دھچکا بھی لگا ہے، کرپشن صرف حکومت کرنے والے نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ سلسلہ اب نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے، جو آہستہ آہستہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی الوداعی تقریر اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ومعاشی حالات سے مطمئن نہیں ہیں، بلکہ انہوںنے گزشتہ تین سالوں میں موجودہ حکومت کی جو طرز حکمرانی دیکھی ہے وہ کسی بھی طور پاکستان کی مجموعی ترقی اور عوام کی بھلائی وبہبود کے لحاظ سے مناسب ومعقول نہیں تھی، اس لئے انہوںنے جاتے جاتے حکومت کو ایک بار پھر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ حکمرانی کا انداز بدلنے کی سعی کریں اور مملکت کو آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان کا باشعور طبقہ بھی جنرل (ر)راحیل شریف کے خیالات سے اتفاق کرتا ہے، اور انہیں اس بات کا گہرا ادراک ہے کہ مملکت کا کاروبار اس انداز میں نہیں چل سکتا۔ ”شاہی‘‘ طرز حکمرانی میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے، کیونکہ اگر اندرونی حالات عوام کو خوشحالی اور پاکستان کو استحکام نہیں عطا کرسکتے تو پھر ایسی حکومت کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے، ایسی حکومت نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی آئین کی روشنی میں اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، ایڈہاک کی بنیاد پر کام کرنے والی موجودہ اور ماضی کی حکومت بھی دیرپا بنیادوں پر ملک میں معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی کی ضمانت نہیں دے سکی تھی، اس لئے عوام ملک میںحقیقی تبدیلی کے لئے بے چین ہیں،نیز عوام معاشی تحفظ کی خاطر تبدیلی چاہتے ہیں، کیونکہ آجکل ان کے روز مرہ کے سماجی ومعاشی معاملات انتہائی دگرگوں ہوچکے ہیں۔ مہنگائی کے علاوہ ان کے بچوں کی بے روزگاری نے ان کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کردیاہے، موجودہ حکومت اس صورتحال کا ازالہ کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ مزیدبراں سفارش اور تعلقات کے کلچر نے ایک عام آدمی پر ترقی کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ جس نے معاشرے میں مایوسی اور محرومی کو جنم دیا ہے، اقتدار پر قابض اشرافیہ ان حالات میں بہتری لانے کے لئے نہ تو کوئی فکر رکھتی ہے اورنہ ہی کوئی حکمت عملی ، وہ صرف اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے کام کررہی ہے، جبکہ خلق خدا بھوک وافلاس کی اذیتوں کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی الواداعی تقریر ان سب افراد کو سوچنے پر مجبور کررہی ہے اگر ہم سب نے مل کر اندورنی حالات کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تو پھر دشمن کی نت نئی چالیں ہمیں اندر سے تباہ کرنے میں دیر نہیں کریںگی، پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنے آپکو قانون اور آئین کے تقاضوں سے بالاتر سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ بھی ان کے رعب و دبدبے کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے،حالانکہ پارلیمنٹ میں بد عنوان عناصر کی بیخ کنی اور کرپشن کو موثر طورپر روکنے کے سلسلے میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، پارٹی بنیادوں پر وفاداریوں نے کرپشن کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کیا ہے، جبکہ عدلیہ کے احکامات کو بھی بسا اوقات نظر انداز کردیا جاتاہے، اس طرح اقتدار پر قابض اشرافیہ نے پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں کو عضو معطل بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ عوام کے حقوق سے متعلق قوانین کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے، تو پھر سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں عوام کی آواز چیخ چیخ کر اپنا حق طلب کرتی ہے، اس طرح احتجاج کو یا پھر اس احتجاج کی حمایت کرنے والوں کو اشرافیہ جمہوریت کے منافی قرار دیتی ہے، اورکہتی ہے کہ یہ طرز عمل جمہوریت کے خلاف ہے اس سے جمہوریت کو خطرہ ہے، حالانکہ خطرہ جمہوریت کو نہیںبلکہ ان کے مفادات کو ہے، جس کے ذریعہ وہ اپنی حاکمیت کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط کررہے ہیں۔ اس صورتحال کے سامنے عوام کی بے بسی، بے کسی اور بے طاقتی دیدنی ہے۔ کچھ کرنے کا حوصلہ رکھنے کے باوجود وہ ایسے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان کے پائو ں کی زنجیر بن جاتی ہے، یہ خوف حکومت کی طاقت کا ہے جو پولیس کے ذریعہ عوام کو ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے پیٹتی ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایاجاسکے اور اس طرح” جمہوریت‘‘ کو بچایا جاسکے۔ لیکن اب شاید اشرافیہ کا یہ فرسودہ طریقہ کار کارگر نہ ہوسکے، کیونکہ عوام اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے آئندہ ایسے لوگوں کو اقتدار نہیں سونپیں گے جن کا دامن کرپشن اور اقربا پروری سے داغ دار ہے، اور جو دشمن ممالک کی خوشنودی کے لئے کام کررہے ہیں.