صحت کا پہلا نمبر…ایم ابراہیم خان
ہم زندگی بھر بھرپور کامیابی کے خواہش مند بھی رہتے ہیں اور اس حوالے سے کوششیں کرتے رہنے سے بھی گریز نہیں کرتے مگر ایک بنیادی نکتہ ہم میں سے بیشتر نظر انداز کردیتے ہیں۔ تندرستی۔ جی ہاں، تندرستی۔ ہم میں سے کتنوں کو اپنی صحت کا بھرپور خیال اور احساس ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پورے معاشرے میں پچاس فیصد سے زائد افراد دن رات اپنی عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے ثابت کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی صحت کے حوالے سے کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اور چند ایک تو ایسے ہیں جن کے نزدیک صحت کوئی ایسا معاملہ ہے ہی نہیں جس پر خاص توجہ دی جائے۔ یعنی اللہ کی دی ہوئی مشینری جسم میں خود بخود چلتی ہی رہے گی، ہم کیوں پریشان ہوں!
کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا معاشرے میں اکثریت صحت کے حوالے سے لاپروا ہے؟ کیا لوگ اپنی صحت کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہونے سے گریز کرتے رہتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو اپنی صحت کا گراف بلند رکھنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو صحت کے حوالے سے بہت casual سوچ کے حامل ہیں۔ عام آدمی کو بظاہر اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کسی بھی عمل سے اس کی صحت کا کیا بنے گا۔
صحت کے بارے میں سنجیدہ ہونے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بہت سے معاملات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ سوال صرف صحت کا نہیں، نفسیات کا بھی ہے۔ معاشرے میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اُسی کے زیر اثر نفسی ساخت بھی پنپتی جاتی ہے۔ معاشرے عموماً بھیڑ چال کا شکار رہتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اثرات قبول کرتے رہتے ہیں۔ صحت کے معاملے میں لاپروائی ہمارے معاشرے کا عمومی رجحان رہا ہے اور اب غالب رجحان میں تبدیل ہوچکا ہے۔
صحت کے حوالے سے لاپروائی کی دو واضح صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ معمولات میں توازن برقرار نہ رکھیں یعنی سونے اور جاگنے کے اوقات درست نہ ہوں اور ورزش بھی نہ کی جائے۔ جو لوگ زیادہ یا کم سوتے ہیں وہ صحت کے حوالے سے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اِسی طور ورزش نہ کرنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔ جو لوگ چلنے سے گریز کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ اپنی صحت کو ٹھکانے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ جسم کو توانا رکھنے کے لیے سونے اور جاگنے کے معمول میں توازن اور باقاعدگی سے ورزش لازم ہے۔ جن معاشروں میں عوام کو ابتداء ہی سے صحت کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاتا ہے وہاں صحت کا معیار بلند رکھنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ لوگ جلد سوتے اور جلد بیدار ہوتے ہیں۔ ورزش کو معمولات کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
یہ تو ہوا سونے جاگنے کے معمولات اور ورزش وغیرہ کا معاملہ۔ ہمارے ہاں عمومی صحت کا بیڑا غرق کرنے والی ایک اور عادت ہے کھانے پینے کے معاملات میں شدید بے احتیاطی۔ لوگ غذائیت پر لذت کو ترجیح دینے کے عادی ہیں۔ کھانے کا بنیادی مقصد جسم کو زیادہ سے زیادہ توانائی فراہم کرنا ہے۔ کچھ بھی کھاتے وقت اُس کی غذائیت ذہن نشین رہنی چاہیے۔ لذت بعد کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ لذت کو دیگر تمام معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی رجحان یہ ہے کہ جو کچھ بھی وہ کھایا جائے وہ زیادہ سے زیادہ لذیذ ہو، غذائیت چاہے ہو نہ ہو۔ چٹخارے کو اولیت دینے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ لوگ اشیائے خور و نوش سے بھرپور توانائی پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر لذت پسند ہے، غذائیت پسند نہیں۔ زیادہ سے زیادہ لذت کشید کرنے پر متوجہ رہنے کے نتیجے میں ایسی تمام اشیاء کو ہم نے اپنی زندگی سے دور کردیا ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ غذائیت یعنی توانائی بہم پہنچا سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں یہی غالب رجحان ہے کہ زیادہ سے زیادہ کھائیے مگر زیادہ سے زیادہ لذت کشید کرنے کے لیے ، غذائیت یعنی توانائی حاصل کرنے کی غرض سے نہیں۔ غذائیت پر لذت کو ترجیح دینا اس بات کا انتہائی واضح مظہر ہے کہ ہم اپنی صحت کے حوالے سے بالکل سنجیدہ نہیں۔
بھرپور اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ جسم اور ذہن دونوں کے بھرپور مشقت اسی وقت لی جاسکتی ہے جب اُن کی صحت کا معیار بلند ہو۔ اگر صحت کا معاملہ اولین ترجیحات میں شامل نہ ہو تو انسان معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو اپنی صلاحیتوں کے درشن کرانا چاہتے ہیں وہ اس حوالے سے پہلے بھرپور تیاری کرتے ہیں۔ جس طرح کھلاڑیوں کو بہت پریکٹس کرنی پڑتی ہے اور گلوکاروں کو ریاض یا اداکاروں کو ریہرسل کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اُسی طرح ہر انسان کو اپنے اپنے شعبے میں کچھ کرنے کے لیے غیر معمولی مشق کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عام آدمی اپنی مشق یا مشقت کو ریہرسل اور ریاض کے درجے میں نہیں رکھتا۔ اگر کوئی بڑھئی بننا چاہتا ہے تو اُسے غیر معمولی مشق کرنا پڑے گی۔ کوئی درزی بن کر نام کمانا چاہتا ہے تو ملبوسات کی ڈیزائننگ کے حوالے سے غیر معمولی مشق کرنی پڑے گی۔ مشق کے بغیر کوئی بھی اپنے شعبے میں بہتر یا قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اور انسان اپنے شعبے میں دوسروں سے کہیں زیادہ مشق اُسی وقت کرسکتا ہے جب صحت اچھی ہو۔ صحت کا معیار بلند ہونے سے انسان اپنے کام میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ بھرپور کارکردگی کے لیے انسان کو جسمانی اعتبار سے مکمل طور پر متوازن ہونا لازم ہے۔
بہتر زندگی اور کیریئر میں کامیابی کے لیے تیاری کے حوالے سے اگر کوئی بہترین نمونہ دیکھنا ہے تو فوجیوں کی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ فوج میں بھرتی ہونے والوں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اُن کے معمولات طے شدہ ہوتے ہیں۔ سونے اور جاگنے کے اوقات بھی مقرر ہوتے ہیں۔ کھانے پینے میں توازن اور احتیاط کے ساتھ ساتھ یومیہ ورزش اور پھر پیشہ ورانہ تربیت طے شدہ معاملات ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک فوجی ان تمام مراحل سے گزر کر اپنے محاذ پر کھڑا ہوتا ہے تو قابلِ دید اور قابلِ داد ہوتا ہے۔
کوئی بھی عام آدمی جب نظم و ضبط اپناکر زندگی کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے تو قابلِ دید اور قابلِ داد ٹھہرتا ہے۔ مگر بنیادی شرط صحت ہے۔ جس طور ایک فوجی کے لیے سب سے بڑھ کر صحت ہوتی ہے بالکل اُسی طور تقریباً ہر انسان کو صحت کا معاملہ پہلے نمبر پر رکھنا چاہیے۔ بے داغ صحت ہی بھرپور زندگی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمارے ہاں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں اور اُن میں کام کرنے کی لگن بھی پائی جاتی ہے مگر صحت جیسے بنیادی معاملے کو نظر انداز کرنے سے معاملات بگڑ جاتے ہیں اور انسان اپنی صلاحیت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے۔ صحت قابلِ رشک ہو تو انسان اپنی صلاحیتوں کا اظہار کچھ اِس انداز سے کرتا ہے جو بہت سوں کی نظر میں قابلِ رشک ٹھہرتا ہے۔