صدارتی انتخاب اور عمران خان کی حکمت عملی…..کنور دلشاد
صدر مملکت ممنون حسین 8ستمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے ۔ صدر مملکت نے پروقار طریقے سے روایات کو برقرار رکھا۔حالیہ انتخاب میں وجود میں آنے والی حزب اختلاف نے ایسی عددی اہمیت اختیار کر لی ہے کہ حکومت کو صدارتی انتخاب میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ کیونکہ تحریک انصاف کو معمولی سی اکثریت حاصل ہے‘ اور اگر موجودہ صورتحال میں بننے والے اتحاد میں ایک بھی جماعت نے راستہ بدلاتو پھر نئی حکومت کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کر سکے۔ پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے سینیٹر رضا ربانی کو صدارتی انتخاب کے لئے کھڑا کرتی ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اتحادیوں بلکہ دیگر جماعتوں سے بھی ووٹ حاصل کر لیں گے ۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ 4 ستمبر کو صبح 10بجے سے شام 4بجے تک ہو گی۔ قو می اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی ووٹرز 706ہیں اس طرح اکیاون فیصد یعنی 353ووٹ حاصل کرنے والا امید وار آئندہ صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ موجودہ نمبر گیم کے مطابق حکومتی اتحاد کے پاس 365متوقع ووٹ ہیں جبکہ حزب اختلاف کے متوقع ووٹوں کی تعداد 304ہے ۔بڑی قوت قومی اسمبلی کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان‘ جہاں ہر رکن ایک ووٹ کا حامل ہے۔ اگر متحدہ مجلس عمل‘ حزب اختلاف کی طرف جاتی ہے تو پھر حکومت بلوچستان سے صرف دس ووٹ حاصل کر پائے گی۔ حزب اختلاف کا سینیٹ میں بڑا حصہ ہے۔قومی اسمبلی کے ووٹوں کی تعداد 342ہے ‘سینیٹ کے 104ووٹ جبکہ ہر صوبائی اسمبلی کے65ووٹ ہوں گے ۔بلوچستان میں ووٹوں کی تعداد 65ہے۔
گزشتہ صدارتی انتخاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کے جاری کردہ صدارتی شیڈول کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے حکومتی موقف کو مسترد کر دیا اور ان کے فیصلہ کے خلاف راجہ ظفر الحق نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی‘ جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے صدارتی الیکشن کے شیڈول کو مسترد کر کے حکومتی موقف کے مطابق الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ بعد میں دلبرداشتہ ہو کر چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں آئینی بحران سے بچنے کے لئے ہنگامی طور پر آئین کے آرٹیکل 217کے مطابق غالباً جسٹس نا صر الملک کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا اور ان کی نگرانی میں صدارتی انتخاب منعقد کرایا گیا تھا ۔ راست باز اور حق گو چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کو الیکشن 2013ئکے دوران بلا وجہ دبائو میںرکھا اور 18ویں ترمیم کے بعد ارکان کمیشن بھی اپنی اپنی رائے میں آزادانہ روش اختیار کئے ہوئے تھے‘ لہٰذا انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ان پر اسرار حالات میں ممنون حسین ملک کے صدر منتخب ہوئے‘ حالانکہ ان کے انتخاب میں حکومت کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں تھا ۔
ممنون حسین نے اپنے دورِ صدارت میںپالیسی اختیار کئے رکھی کہ ایوانِ صدر کی تقریب میں ان دانشوروں ‘اہلِ قلم اور سابق وفاقی بیورو کریٹس کو مدعو نہ کیا جائے‘ جو ان کے مرشد نواز شریف کی نا اہلی ‘ کرپشن پر تنقید کرتے ہیں ‘ ان کا داخلہ ایوان صدر میں ممنوع قرار دے رکھاتھا۔اپنے ہاں خوشامدی اور حکومت سے سیکرٹریٹ فنڈز لینے والے دانشوروں کا سرکاری اجتماع کراتے رہے اور بعض افراد کی سفارشات پر ایوان صدر میں من پسند اہل قلم ہی ان کے ارد گرد جمع رہے ۔ اس کے بر عکس آصف علی زرداری کے دور میں ایسی قدغن دیکھنے میں نہیں آئی۔ صدر ممنون نے اپنی تقریب میں یہ بھی نرالی داغ بیل ڈالی کہ تقریب کے اختتام پر چائے کے لئے بھی شرکا ء کو دعوت نہیں دی جاتی تھی کہ وہ صدر ممنون سے ملاقات کر سکیں۔ ان کے گرد سکیورٹی کا حصار کھڑا کر دیا جاتا تھا‘ اور مخصوص لوگوں سے ملاقات کے لئے راستہ دیا جاتا تھا۔ ان کے سٹاف کی اجازت کے بغیر صدر مملکت کی طرف پیش قدمی کی اجازت نہیں تھی۔یہ روایات ممنون حسین نے شروع کیں اور غالباً آئند ہ بھی یہی روایات جاری رکھی جائیں گی ۔
جب ایوان صدر میں مخصوص افراد کو ہی آنے کی اجازت تھی تو پھر صدر مملکت کے گرد سکیورٹی حصار کی ضرورت کیوں پیش آتی رہی ؟ ملاقات کی فہرست میں ان ماہرین کو ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی جو نواز حکومت کی پالیسیوں کے نقاد تھے‘ میرے خیال میں صدر ممنون حسین صاحب کا ایوان صدر جاتی امرا کا پارٹ ٹو رہا۔ اب نئے صدر سے امید ہے کہ وہ ایسی روایات نہ دہرائیں گے۔ صدر ممنون حسین ہمیشہ الیکشن قوانین اور آئندہ انتخابات بارے لا تعلق رہے ۔ان کی نظریں جاتی امرا کی طرف لگی رہتی تھیں‘ اس کے باو جود انہوں نے حق گوئی کا بھر پور ساتھ دیا ۔ ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ پاناما کی وجہ سے پتہ نہیں کون کون سے معاملات اٹھیں گے‘ آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے لوگ پکڑ میں آئیں گے ‘آپ یاد رکھئے گا کہ کوئی واقعہ دو ماہ کے بعد ہوگا‘ کوئی چار ماہ کے بعد ہوگا اور کوئی چھ ماہ کے بعد ہوگا اور کوئی ایک سال کے بعد ہوگا ‘یہ اللہ کا ایک نظام ہے ۔ صدر ممنون حسین کے دل کی بات سنی گئی اور ان کے محسن ‘ مربی ‘سر پرست اعلیٰ جیل میں ہیں اور یہ سلسلہ ابھی آگے بڑھے گا تو ان کے سمدھی اسحاق ڈار دونوں صاحبزادے‘ برادر شہباز شریف بھی احتساب کے دائرے میں آسکتے ہیں۔
منصب ِ صدارت کے لیے پاکستان تحریک کی حکومت کس کا نام پیش کرے گی‘ ابھی تک اس حوالے سے اس سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی رائے نہیں دی گی‘ اگرچہ بہت سے نام لیے جارہے ہیں ‘ اور یقینا اعلیٰ سطح پر جو نام زیر غور ہوں گے ان میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کو ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ عہدہ ٔ صدارت کے لئے عمران خان کو ایسے امید وار کو سامنے لانا ہوگا‘ جو ان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھتا ہو‘ تحریک انصاف کے سیاسی منشور کے ساتھ چلنے کا مزاج ہو اور حکومت کے لئے فعال کردار ادا کر سکے اور بین الاقوامی حیثیت سے ان کی پہچان ہو اور ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے کار آمد ثابت ہو۔اس کے لیے کسی ایسی شخصیت پر اتفاق کرنا ہو گا جس کی واحد قابلیت گمنام یا بھلامانس ہونا ہی نہ ہو بلکہ اپنے کیرئیر میں اس نے اعلیٰ سطح پر کام کا تجربہ بھی حاصل کررکھا ہو۔ میری رائے میں محمد میاں سومرو اس معیار پرہر لحاظ سے پورا اترتے ہیں۔ وہ چیئرمین سینیٹ اور نگران وزیر اعظم کے عہدوں پر فرائض انجام دے چکے ہیں‘اور ان کے مڈل ایسٹ ‘ مغرب اور امریکہ کی اہم شخصیات سے گہرے تعلقات ہیں۔مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سرمایہ دار اور بڑے بڑے بینکار بھی ان کے گرویدہ ہیں۔