صدرٹرمپ کی ٹریڈ وار…نذیر ناجی
”ڈونلڈ ٹرمپ 2017ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد سے یہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ اقتصادی سلامتی کے بغیر قومی سلامتی ممکن نہیں۔ ان کی حکومت تجارت پر بالخصوص توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اسی سلسلہ میں گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات کی خرید و فروخت کا جائزہ لیا جا رہا ہے؛ اگر امریکہ نے گاڑیوں اور گاڑیوں کے پرزہ جات پر حکومت کا تجویز کردہ ٹیرف عائد کر دیا ‘تو عالمی آٹو مارکیٹ پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ سوال یہ ہے کہ وائٹ ہائوس یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ وہ یہ ٹیکس عائد کرسکتا ہے یا نہیں؟حکومت نے محکمۂ تجارت کی تفتیش کی روشنی میں تیار کردہ اس ڈرافٹ رپورٹ پر مختلف حکومتی ایجنسیوں کے بین الاقوامی نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید کی کہ آٹو درآمدات امریکی معیشت کو کمزور کر کے قومی سلامتی کے لیے خطرہ تو نہیں بن رہیں؟ اگر ایسا ہے تو صدر ”ٹریڈ ایکسپینشن ایکٹ 1962ئ‘‘ کے سیکشن 232کے تحت اپنا فیصلہ کانگریس میں منظوری کے لیے پیش کیے بغیر ٹیرف عائد کر سکتے ہیں‘جن ملکوں کا امریکہ کی آٹو مارکیٹ پر انحصار ہے‘ ان سے تجارتی رعایتیں حاصل کرنے کے لیے صدر ٹرمپ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کا استعمال کرتے آئے ہیں‘ لیکن اس دھمکی کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ٹرمپ کے پاس یک طرفہ طور سے ایسا کرنے کا اختیار ہو۔ بصورت ِدیگر ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی بے اثر ہو گی۔اب اس حوالے سے قانونی جواز ملنے کا امکان ہے‘ تو بعض ملکوں پر ٹیرف عائد کیے جانے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں یہ جائزہ لینا اہمیت کا حامل ہے کہ ان ملکوں کے اس ٹیرف سے بچنے کے کیا امکانات ہیں؟
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی مینوفیکچرنگ سیکٹر کے زوال کا مسلسل رونا رویا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ اس کے تجارتی پارٹنرز کا غیر منصفانہ سلوک ہے‘ جو امریکی صنعتی پیداوار کافی مقدار میں نہیں خرید رہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ غیر مساوی تجارت کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسابقت آبادی کے بعض حصوں کو نقصان پہنچا رہی ہے جس سے شہریوں میں بے چینی پھیلنے کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فولاد اور ایلومینم کی درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کے لیے سیکشن 232 کا اطلاق کرتے ہوئے بھی وائٹ ہاؤس کا استدلال یہی تھا۔2017ء میں آٹوموٹِو سیکٹر کا امریکہ کے تجارتی خسارے میںحصہ قریباً 20فی صد تھا؛اگر اس سیکٹر کے لیے بھی یہی منطق استعمال کی گئی‘ تو نتیجہ وہی نکلے گا۔ ٹرمپ حکومت کا استدلال منطقی ہو یا نہیں‘ وہ قومی سلامتی کو‘ جو اُس کے دائرہِ کار میں ہے‘ ٹیرف کے قانونی جواز کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے۔نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر دوبارہ مذاکرات کے دوران‘ امریکہ کی حکمت عملی کے دو رُخ تھے۔ ایک رخ یہ تھا کہ امریکہ نے نئے معاہدے کے تحت رعایتیں حاصل کرنے کی غرض سے کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف بھی آٹو ٹیرف کی دھمکی استعمال کی تھی۔ ٹرمپ حکومت آٹو سیکٹر میں بعض مخصوص حدیں قائم کرنا چاہتی ہے‘ لیکن وہ ردِ عمل کو محدود کرنے کے لیے یہ ٹیرف پوری طرح عائد کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہتی ہے۔
اگلے برس امریکہ اور اس کے کئی تجارتی پارٹنر‘جن میں یورپی یونین اور جاپان بھی شامل ہیں‘ مذاکرات کریں گے‘ جن میں امریکہ دوسرے ملکوں پر عائد تجارتی حدوں میں اضافہ کرنے اور دوسرے ملکوں کی طرف سے قائم حدوں کو کم کروانے کے دہرے مقصد کے تحت شامل ہو گا۔ ادھر یورپی یونین اور جاپان چاہیں گے کہ ان کی گاڑیوں کی برآمدات پر ٹیرف زیادہ نہ ہوں۔ امریکہ اپنے تجارتی قوانین کے تحت 14جنوری 2019ء تک فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے باقاعدہ مذاکرات نہیں کر سکتا اور ان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی معاہدے 2020ء سے پہلے ممکن نہیں۔ وائٹ ہاؤس چاہتا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران نان ٹیرف شعبوں میں رعایتیں حاصل کرنے کی غرض سے گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات پر زیادہ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی استعمال کرنے کا اختیار حاصل کر لے۔سیکشن 232کے تحت ٹرمپ کو محدود مدت کے لیے اختیار ملے گا۔ محکمۂ تجارت کو گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات سے متعلق اپنی رپورٹ 17فروری 2019ء تک لازمی مکمل کرنا ہے۔ اس کے بعد اسے قبول کرنے یا مسترد کرنے کے لیے ٹرمپ کے پاس 90دن کا عرصہ ہو گا؛ اگر یورپی یونین اور جاپان کے ساتھ مذاکرات درست راستے پر رہے تو ٹرمپ انہیں ٹیرف میں اسی طرح رعایت دے سکتے ہیں‘ جس طرح فولاد اور ایلومینم کے معاملے میں کینیڈا اور میکسیکو کو دی تھی۔اس صورت میں ٹرمپ کے پاس اختیار ہو گا کہ مذاکرات طول پکڑ جانے پر استثنا جاری رکھیں یا نہیں۔ یورپی یونین اور جاپان اس تلوار کے سر پر لٹکتے رہنے کی صورت میں مذاکرات کرتے ہوئے پُرسکون نہیں ہوں گے‘ کیونکہ اگر مذاکرات طول پکڑنا شروع ہوئے‘ تو ٹرمپ ٹیرف میں دی گئی رعایت کی میعاد ختم ہونے پر ان میں توسیع نہیں کریں گے۔
اس حکمت عملی میں ایک رکاوٹی عامل یہ ہے کہ ٹیرف پر دوسرے ملکوں کا ردِ عمل اتنا سخت ہو سکتا ہے‘ جو ٹرمپ کا دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونا مشکل بنا دے۔ مثال کے طور سے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں امریکی کاشت کاروں کو سخت نقصان ہوا ہے‘ جس کے باعث کاشت کاروں میں ٹرمپ کی مقبولیت گھٹ گئی ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے ٹرمپ آٹو امپورٹس پر ٹیرف عائد کرنے کے بجائے ‘محدود کوٹا کا نظام متعارف کروا سکتے ہیں۔یورپی یونین امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ کے لیے مذاکرات کر رہی ہے‘ تو گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات پر ٹیرف سے بچنا اس کے لیے مشکل ثابت ہو گا۔ امریکہ اور یورپی یونین کے مابین مذاکرات کے ابتدائی مرحلے ہی میں واضح ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں فریق اس امر پر بھی متفق نہیں کہ مذاکرات کن معاملات پر ہونا چاہئیں؟ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین کے تحفظ یافتہ زرعی شعبے کو کھولنے کا معاملہ مذاکرات کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
جاپان بھی امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے مذاکرات میں جھجکتے ہوئے شامل تو ہو گیا ہے‘ لیکن یورپی یونین کے برخلاف ٹوکیو کو چند داخلی حدیں ٹریڈ ڈیل تیزی سے کرنے سے روک رہی ہیں۔ جاپان پہلے ہی امریکہ کے ساتھ ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے مذاکرات کر چکا ہے‘ جس کا نام ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) ہے۔ ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سنبھالتے ہی امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا۔ امریکہ جاپان سے مطالبہ کرے گا کہ وہ آٹوموٹو سیکٹر پر سے نان ٹیرف رکاوٹیں ہٹائے اوراپنی زرعی مارکیٹ کی بعض پروٹیکشنز کو آسان بنائے۔ایک تجزیہ کارایوان رِیس نے لکھا ہے کہ جاپان کا آٹو سیکٹر ٹیرف کے طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ جرمنی کے برخلاف جاپان کے آٹو میکرز عشروں سے امریکہ اور شمالی امریکہ کے مختلف ملکوں میں مینوفیکچرنگ کر رہے ہیں۔درحقیقت ہنڈا‘ نیسان اور ٹویوٹا ‘شمالی امریکہ میں جتنی کاریں بناتی ہیں‘ ان میں سے نصف سے زیادہ امریکہ میں فروخت کی جاتی ہیں‘ اس لیے یہ کمپنیاں درآمدی ٹیرف سے زیادہ متاثر نہیں ہوں گی۔ جنوبی کوریا سے بھی بڑی تعداد میں کاریں امریکی مارکیٹ میں فروخت کے لیے آتی ہیں۔ جاپان اور یورپی یونین کے برخلاف جنوبی کوریا کا پہلے ہی امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کے دورِ صدارت میںاس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ سیول اور امریکہ کو آٹو سیکٹر کے علاوہ بھی بعض ایشوز پر گفت و شنید کرنا ہے‘ اس لیے اس کا ٹیرف سے بچنے کا امکان ہے۔ بہرحال ٹرمپ حکومت جنوبی کوریا پر کوٹا عائد کرے گی؛ چونکہ جنوبی کوریاکے آٹومیکرز نے جاپان کی طرح شمالی کوریا میں کارخانے نہیں بنائے‘ اس لیے یہ امر قریباً یقینی ہے کہ وہ ٹیرف سے بچنے کے لیے کوٹا قبول کر لے گا۔ اس سے قبل جنوبی کوریا فولاد کے معاملے میں کوٹا قبول کر چکا ہے۔اگر محکمۂ تجارت یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ آٹو ایکسپورٹس امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں‘ تو برطانیہ کے سوا پوری دنیا کی کاروں پر ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔برطانیہ بریگزٹ کے بعدامریکہ کے ساتھ ٹریڈ ڈیل کے لیے مذاکرات کرے گا۔ محکمۂ تجارت کی تفتیش کے نتائج پر منحصر ہے کہ آٹو پارٹس پرٹیرف عائد کیا جاتا ہے یا نہیں؟ آٹو پارٹس چین اور جنوبی ایشیائی ممالک کی اہم برآمدی پراڈکٹ ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی وہیکل ٹریڈنگ پارٹنر نہیں اور چین کے سوا کوئی بھی وسیع تر مذاکرات کی امریکی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں۔ اس سے خطرہ بڑھ جائے گا کہ یہ ملک امریکہ کے بڑے آٹو ٹریڈنگ پارٹنرز کے سوا دیگر ممالک کی طرح کراس فائر کی زد میں آ جائیں گے۔باایں ہمہ محکمۂ تجارت کی تفتیش تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور جاپان اور یورپی یونین کے ساتھ امریکہ کے رسمی مذاکرات قریباً دو ماہ میں شروع ہونے والے ہیں ‘تو گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات پر ٹیرف عائد کیے جانے کی دھمکی اب ہمیشہ سے بڑھ کر حقیقی بن چکی ہے‘‘۔