منتخب کردہ کالم

صدر مملکت کی ’’سیاسی باتیں‘‘…!! (سچ یہ ہے)‌ الیاس شاکر

پیغامِ پاکستان...یاسر پیر زادہ

سندھ میں سیاست کی طوفانی ہوائوں نے کیا چلنا شروع کیاصدر مملکت ممنون حسین نے بھی موقع غنیمت جانا اور اخباری ایڈیٹروں کے روبرو بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی باتوں کا پٹارہ کھول دیا۔غیر سیاسی کا لفظ محترم صدر مملکت نے خود استعمال کیا۔ہمیں تو اُن کی گفتگو میں کہیں بھی کوئی غیر سیاسی بات نظر نہ آئی۔ہاں!! یہ اور بات ہے کہ کراچی کے حوالے سے اُن کی گفتگو خاصی معلومات افزاء تھی ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بھی کراچی کے حوالے سے اُن سے ڈھیر ساری گفتگو فرماتے ہیں۔کراچی کے حوالے سے جب مسائل پر سوال جواب شروع ہوئے تو حیرت ہوئی کہ اسلام آباد میں رہ کر بھی صدر مملکت کونہ صرف کراچی کے مسائل کا ادراک تھا بلکہ وہ بہت ساری باریکیوں سے بھی واقف تھے۔ خاص طور پر پاکستان کے سب سے بڑے فلائی اوور لیاری ایکسپریس وے کے معاملات پر وہ خاصے اپ سیٹ تھے ۔صدر پاکستان نے ایڈیٹروں سے درخواست کی کہ اگر ان کے پاس کوئی شکایت یا تجویز ہو تو وہ گورنر کے سیکریٹری صالح فاروقی سے رابطہ کرلیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”لیاری ایکسپریس وے جلد مکمل ہونے والی ہے‘‘ اخبار والے یہ جملہ دس بارہ سال سے سن رہے ہیں اور کبھی کبھی تو ایسالگتا ہے کہ لیاری ایکسپریس وے کا افتتاح کہیں اس کی ”طبعی عمر‘‘ پورے ہونیوالے دن ہی نہ …پھر ایک طرف ”ریبن‘‘کاٹا جارہا ہو اور دوسری جانب ملبہ اٹھایا جارہا ہو۔ لیاری ایکسپریس وے کراچی کی
سب سے بڑی سڑک اورفلائی اوور ہے ۔یہ آدھے کراچی کے ٹریفک کو ٹاور سے اپنے ”ناتواں کاندھوں‘‘پرسہراب گوٹھ سپر ہائی وے تک پہنچا سکتی ہے۔ لیاری ایکسپریس وے ساڑھے 16کلومیٹر طویل چار رویہ منصوبہ ہے ۔اس کے دو ٹریک ہیںجس پر 34ہزار گاڑیوں کے گزرنے کاتخمینہ لگایا گیا ہے ۔لیاری ندی پربنایا گیا ایکسپریس وے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔ایک دل جلے نے اس پر یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ ”اگرلیاری ایکسپریس وے پنجاب میں ہوتا تو اب تک اس کی تکمیل کو دس سال ہوچکے ہوتے‘‘۔لیاری ایکسپریس وے کے اختتام (سہراب گوٹھ)پراب سپر ہائی وے کا بورڈ اتر گیا ہے اور ایک نیا بورڈ (سنگ میل) لگایا گیا ہے۔جس کے تحت یہ سڑک اب موٹر وے کہلائے گی۔ اتنا موقع نہیں تھا ورنہ صدر صاحب سے ”تبدیلی نام ‘‘کا عوامی اشتہارشائع کئے بغیر کامیاب ”انتقال‘‘اور”عظیم کارنامے‘‘ پر بھی کھلی ڈھلی گفتگو ہوسکتی تھی چونکہ صدر مملکت بہت مصروف تھے،ان کے کراچی میں کئی اورپروگرام بھی تھے اس لئے نہ”چائے ‘‘پلاسکے ،نہ” اسنیکس ‘‘ کھلاسکے جبکہ لنچ کا وقت بھی سر پر آن پہنچاتھا۔خیر!! کبھی کبھی بلا معاوضہ ”مزدوری‘‘ کرنے کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔
گفتگو کے درمیانی مرحلے میں صدر مملکت کی شفقت میں کچھ اور اضافہ ہوا تو موقع غنیمت جان کر ایڈیٹروں نے ان پر” صحافتی حملہ‘‘ کردیا اور پوچھا کہ کل بھوشن یادیو کا کیا بنے گا؟خیال یہ تھاکہ صدر ممنون اس سوال پر پھنس جائیں گے اِدھراُدھردیکھیں گے ،کچھ سوچیں گے ،بات گول کریں گے لیکن صدر مملکت صاف بچ نکلے اور کہا کہ” ابھی تو اُسے اپیل کے چالیس دن ملے ہوئے ہیں اور بات اس سے آگے جائے گی‘‘۔صدر مملکت سے پوچھا گیا کہ” آپ کے پاس رحم کی درخواست آئی تو آپ کیا کریں گے‘‘۔صدر مملکت نے چالاکی کے ساتھ قبل ازوقت کوئی بات نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ” میں نواز شریف سے پوچھوں گا جو وہ کہیں گے میں وہ کروں گا‘‘۔صدرمملکت کے ان ریمارکس پر ایک ایڈیٹر نے کہا کہ” چلو ایک بڑی خبر مل گئی‘‘بعد میں ایوان صدرکے عملے نے کہاکہ آپ کو پریس ریلیز ملے گی لیکن کسی خبر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔صدر مملکت کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے سوالات بھی رکھے گئے۔ صدر صاحب نے کہا ”میرا خیال ہے کہ نواز شریف صاحب سمجھتے ہیں کہ جو جارہا ہے اس کو مت روکو اس کو جانے دو‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں پنجابی اور پختون عوام تک اپنا رابطہ رکھا اور یہ تاثر ابھرا کہ یہ جماعت دوسروں کیلئے قابل قبول نہیں ہوپارہی ہے۔جہاں تک سندھ کے بااثر لوگوں کا تعلق ہے تو وہ اپنا فائدہ سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔۔ ان میں سے کچھ کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ ”الیکٹ ایبل‘‘ (قابل انتخاب )ہوتے ہیںاور میوزیکل چیئر کا گیم جاری رہتا ہے ۔۔بقول اُنکے ناراض لوگوں کو روکنا مسلم لیگ (ن)کی پالیسی نہیں۔ ابھی ان کی سیاست کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
کراچی کے عوام کیلئے سرکلر ریلوے کبھی جذباتی مسئلہ ہوتا تھا اب سرکلرریلوے کی بوسیدہ پٹریوں اور کئی مقامات پر قبضوں‘ تجاوزات اور مکانات کی تعمیر کے بعد سرکلر ریلوے کے بارے میں کوئی خبر”خوشخبری‘‘نہیں بن پاتی ۔صدر صاحب نے بھی دو سے تین بار یقین دلایا کہ ”سرکلرریلوے کا کام شروع ہونے والا ہے ‘‘اخبارات کے ایڈیٹروںنے صدر صاحب کو بتایاکہ” لاء اینڈ آرڈر کی موجودہ صورت حال اور جرائم پیشہ افراد کا ان آبادیوں میں مستقل پڑائو عام مسافروں کے لئے انتہائی خطرناک ہے‘‘ ایک ایڈیٹر نے کہا کہ ”کراچی سرکلر ریلوے کے بعض اسٹیشن مرکزی مارکیٹوں سے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہیں اور عام مسافروں کو زیادہ پیدل چلنا پڑے گا ‘‘تیس سے چالیس سال قبل دو ‘چار کلومیٹر پیدل چلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی موٹر سائیکل ‘کار ‘رکشہ اور ٹیکسیوں نے عوام کے چلنے پھرنے کی عادت ایسی ” چھینی ‘‘کہ اب تو دودھ اور دہی لینے کیلئے بھی موٹر سائیکل استعمال کی جاتی ہے ۔ایسی صورت میں سرکلر ریلوے عوام کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی اس لئے سرکلر ریلوے کی ”عیاشی‘‘بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑے گی ۔صدر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ کراچی سٹی اور کینٹ اسٹیشن پر جو مسافروں کا دبائو ہے اسے بھی سرکلر ریلوے کے بڑے اسٹیشنوں کی طرف موڑ دیا جائے گا۔ ماضی میں گیلانی ریلوے اسٹیشن(گلشن اقبال)سے پشاور تک کیلئے ایک ٹرین چلتی تھی لیکن اب وہ بہاریں کہاں؟اب تو اس ریلوے اسٹیشن کے آثار بھی” قدیمہ‘‘ہوچکے ہیں۔ دروازے‘ نلکے اورٹونٹیاںچوری ہوچکی ہیں جبکہ ریلوے لائن پر جنگلی جھاڑیاں اور درخت سینہ تانے کھڑے ہیں۔بعض مقامات پر ریلوے لائن کوڑے اور تعمیراتی مٹی میں ”دفن‘‘ہوچکی ہے ۔یہ مدفون لائنیں قدرت کا کوئی اشارہ ہے یا پھر ہماری بے اعتنائی کی سز ا اس کا فیصلہ شاید 20سے 25ارب روپے لٹانے کے بعد اکائونٹنٹ جنرل ہی کرسکے گا۔