ایک اور پارٹی۔ ایک اور لیڈر۔ ایک نہیں‘ دو دو۔پاکستان میں قریباً پونے دوسو سیاسی جماعتیں ہیں۔ کچھ رجسٹرڈ۔ کچھ غیررجسٹرڈ۔ ہر پارٹی کا اپنا ایک منشور ہے۔ ایک لیڈر ہے۔ جتنے لیڈر ہیں‘ اتنی پارٹیاں ہیں۔ بعض پارٹیوں میں دو تین لیڈر ہیں۔ جتنی چھوٹی پارٹی ہے‘ اس میں اتنے ہی زیادہ لیڈر ہیں۔ البتہ پارٹی جتنی بڑی ہے‘ اس کے لیڈر تھوڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بڑی پارٹی میں ووٹ ملنے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کے اپنے پرانے ساتھی ‘انیس قائم خانی کی معیت میں‘ نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ نام ڈھونڈتے رہیں گے۔ شاید ڈھونڈ چکے ہوں۔ اعلان بعد میں کریں گے۔ مصطفی کمال نے آخر کار‘ وہ انکشاف کر ہی دیا‘ جس کا تذکرہ اکثر سرگوشیوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے بتا دیا کہ الطاف بھائی رات دن کثرت شراب نوشی کی وجہ سے نشے میں رہتے ہیں۔ قائد ایم کیو ایم نے کبھی اپنی غلطی مانی ہے‘ نہ مانیں گے۔ کراچی کے حالات ایک دن میں خراب نہیں ہوئے۔ ایم کیو ایم کے پارٹی الیکشن میں جرائم پیشہ افراد کو بلا کر ‘ ذمہ دار پارٹی کارکنوں کی بے عزتی کرائی گئی۔ ہم نے قائد ایم کیو ایم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کیا۔ہم نے قائد ایم کیو ایم کے الفاظ اور ان کی نازیبا زبان کو برداشت کیا اور میڈیا کے سامنے ان کی صفائیاں دیں۔ وہ کارکنوں کی لاشوں پر پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ اس وقت سے لاشیں گرتی آ رہی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ قائد ایم کیو ایم کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ جس نے پانچ سال کی عمر میں اپنے باپ کو دفنایا‘ اب اس کے بچے ‘ اپنے پانچ سال کے بچے کو دفنا رہے ہیں۔ یہ جماعت محب وطن تھی۔ اب را کی ایجنٹ ہو گئی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفی کمال بار بار آبدیدہ ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوںنے کسی شادی ہال‘ شاپنگ سٹور یا اپنی کوٹھی بنانے کے لئے ایک انچ زمین الاٹ نہیں کرائی۔ کرائے کے گھر میں رہے اور جب شہر کی نظامت چھوڑی تو کرائے کے گھر میں گئے۔ بیرون ملک بہت عیش و آرام کی زندگی گزاری۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ لیکن ضمیر مطمئن نہیں تھا۔ کراچی سے جانے کے بعد کسی پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ ٹویٹر تک استعمال نہیں کیا۔ ہم چار کروڑ اردو بو لنے والوں کے دکھ درد سے خود کو
دور نہ رکھ سکے۔ ایم کیو ایم کے را سے تعلقات کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جانتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد کے را سے تعلقات تھے۔ عمران فاروق کے قتل کے بعد‘ سکاٹ لینڈ یارڈ نے گھر سے تلاشی لی‘ تو سب کچھ پتہ چل گیا۔ متحدہ کے قائد اور محمد انور سے پوچھا گیا کہ آپ بھارت سے فنڈ لیتے ہیں۔ تحقیقات کی گئیں۔ دبئی بلا کر ہمیں بتایا گیا کہ ایم کیو ایم کے قائد اور دیگر رہنما سکاٹ لینڈ یارڈ کو کیا کیا بتا چکے ہیں؟ سکاٹ لینڈ یارڈ کو 20 سال کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا گیا۔ پارٹی 20 سال سے را سے فنڈز لے رہی تھی۔ ایم کیو ایم کے قائد رو رو کر بتاتے ہیں کہ وہ محب وطن لیڈر ہیں۔ آج وہ جرأت کا مظاہرہ کریں اور کارکنوں کو بتائیں کہ انہوں نے اپنی بقا کے لئے را سے مدد لی۔ ایم کیو ایم کے قائد کو شہر میں لاشیں چاہئیں۔ اسٹیبلشمنٹ‘ متحدہ کے ہر کارکن کو را کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس سب کا کچا چٹھا ہے۔ مصطفی کمال نے را کا کچا چٹھا تو بتا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ الطاف حسین جو کچھ کر رہے تھے‘ سب کچھ ان کے علم میں تھا اور پھر جلاوطنی میں ان کے ضمیر نے انہیں پکارا اور انہوں نے طے کیا کہ اب انہیں اپنے عوام کی مدد کے لئے میدان میں اترنا ہو گا۔
مصطفی کمال نے صاف بتایا کہ جب ایم کیو ایم کے قائد اور ڈاکٹر عمران فاروق کے گھروں پر چھاپے مارے گئے‘ تو جتنا سامان اور ریکارڈ دونوں گھروں سے برآمد ہوا‘ سکاٹ لینڈ یارڈ کے اہلکار بھی اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ انہیں ہفتوں اور مہینوں میں سارا ریکارڈ پڑھنا پڑا اور اس کے بعد جو تحریر انہیں ملی‘ اسے غور سے پڑھنے کے بعد متعلقہ کارکن کو بلا بلا کر‘ سوال جواب کئے گئے۔ مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کے لیڈروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ الطاف حسین سمیت‘ محمد انور اور دیگر سینئر لیڈروں کو بلا بلا کر پوچھا گیا ‘ توانہوں نے پہلے پانچ دس منٹ مالی معاملات سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ ہمت ہار گئے اور سب کچھ بتا دیا۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے تمام اراکین سے بھی اسی طرح انکوائری ہوئی اور وہ ذرا سی مزاحمت کے بعد‘ توتے کی طرح بولنے لگے اور ان سب کی ریکارڈنگ کے پلندے سکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس محفوظ ہیں۔ مصطفی کمال نے زور دے کر کہا کہ انہیں کسی نے یہاں نہیں بھیجا۔ لیکن اس سے پہلے یہ خبر میڈیا میں آ چکی تھی کہ چوہدری نثار علی خاں نے ان دونوں کو اطمینان دلا کر پاکستان آنے کے لئے کہا ہے اور پریس کانفرنس میں جیسے سکاٹ لینڈ یارڈ کا ذکر ہوا‘ بات واضح ہو گئی کہ یہ ریکارڈ ہمارے وزیرداخلہ کی تحویل میں آ چکا ہے اور انہوں نے ساری تفصیلات دیکھنے کے بعد‘ انہیں اطمینان دلایا اور وہ پاکستان واپس تشریف لے آئے۔ البتہ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ ہمیں کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ ہم اس یقین کے ساتھ پاکستان آئے ہیں کہ یہاں خصوصاً مہاجر عوام کو اس شخص کے کردار کے بارے میں بتائیں‘ جس پر وہ آنکھیں بند کر کے یقین کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا لیڈر جی بھر کے شراب پیتا ہے۔ وہ کئی کئی دن گھر میں دھت پڑا رہتا ہے اور پانچ دس منٹ کا فاصلہ طے کر کے‘ دفتر تک بھی نہیں آ سکتا۔ وہ اپنی میٹنگوں اور تقریروں میں کارکنوں کو گالیاں دیتاہے۔ نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ تین تلوار چوک پر خواتین کا ایک زبردست اجتماع تھا‘ جس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی ہی قیادت پر یقین رکھنے والی خواتین کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کئے اور ہمیں ان خواتین کو یقین دلانا پڑا کہ قائد ایم کیو ایم‘ جذبات میں وہ الفاظ استعمال کر بیٹھے‘ ورنہ ان کا مقصد یہ نہیں تھا۔ انہوں نے بڑے دردبھرے انداز میں بتایا کہ ہم مہاجر لوگ بہت پڑھے لکھے اور مہذب تھے۔ لیکن گزشتہ دو نسلوں کے بچوں کو بہکا کر گلی محلے کے آوارہ لڑکوں میں بدل دیا گیا اور مجھے دکھ ہے کہ جن بچوں کے بزرگوں سے لوگ علم اور تہذیب سیکھتے تھے‘ آج ان میں سے بے شمار بچے‘ خود علم اور تہذیب سے محروم ہیں۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ میرا ان بزرگوں سے واسطہ رہا ہے اور میں فخر سے اعتراف کرتا ہوں کہ علم اور تہذیب سیکھنے کے لئے میں نے ان سے بہت فیض پایا۔ گنتی کروں تو حافظہ ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ چند نام ذہن میں روشن رہ گئے ہیں۔ انہیں جب بھی یاد کرتا ہوں‘ دل بھر آتا ہے۔ ان سے بچھڑنا میرے لئے گہرے درد کا پیغام ہوتا ہے۔ جمیل الدین عالی‘ کل ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ان کے پوتے کا ٹیلی فون آیاکہ وہ عالی صاحب کے ساتھ میری نیازمندی سے باخبر ہیں اور مجھے کوئی مسئلہ پیش آئے‘ تو اسے بلا تکلف بیان کر سکتا ہوں۔ شوکت صدیقی اور ان کی بیگم صاحبہ نے تو بزرگوں کی جس محبت سے مجھے اور میرے خاندان سے نوازا‘ مجھے اور میری بیگم کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ میرا چھوٹا بیٹا انیق پیدا ہونے والا تھا۔ وہاں ہم میاں بیوی اکیلے رہتے تھے۔ شوکت صاحب کی بیگم انہیں خود لے کر آئی اور ہسپتال میں پیدائش کا انتظام کر کے‘ دونوں میاں بیوی نے تین دن ہسپتال میں گزارے۔ عاشور کاظمی ہرچند لاہور سے میرے دوست تھے۔ بعد میں کراچی اور پھر لندن چلے گئے۔ کراچی کے دنوں میں عاشور کاظمی اور ان کی بیگم صاحبہ نے بڑے بھائی اور بہن کا پیار دیا‘ جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ کس کس کو یاد کروں؟ واقعی یہ لوگ انتہائی شائستہ اور اعلیٰ تہذیبی اقدار کے وارث تھے۔ مصطفی کمال نے اپنے آبائو اجداد کا ذکرکرکے‘ مجھے وہ پرانے دن یاد دلا دیئے‘ جن کی یادیں آج بھی میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ گزرتا ہوا وقت ‘خدا جانے کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا ہے؟ صحافت میں میری
زندگی کا زیادہ عرصہ تین بڑے گروپس میں گزرا ہے۔ جناب مجید نظامی مرحوم‘ زندگی بھر میرے ہر دکھ درد میں شریک رہے۔ میرخلیل الرحمن اور ان کے صاحبزادے میرشکیل الرحمن کی محبت‘ آج بھی میری طاقت ہے اور موجودہ میڈیا گروپ کے سربراہ میاں عامر محمود ‘چھوٹے بھائی سے بڑھ کر میری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ اس دوران میرشکیل الرحمن نے کئی مرتبہ محبت سے یاد کیا۔ لیکن میاں عامر محمود کی محبت کی زنجیر توڑنا ‘میرے بس میں نہیں رہ گیا۔ ہرچند وہ سارے مہربان‘ جن کا ذکر آخر میں آیا ہے‘ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مہاجروں اور پنجابیوں میں جتنے بھی لوگوں سے میرا واسطہ رہا اور ہے ‘ وہ سب اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے امین تھے اور ہیں۔ جو خدا کو پیارے ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور جو زندہ ہیں‘ انہیں صحتمندی اور بے بہا نعمتوں سے مالامال کرتا رہے۔ مصطفی کمال نے اپنے اسلاف کو یاد کر کے‘ میری یادیں بھی تازہ کر دیں۔ جذباتی لمحوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔