صرف غیر ملکی قرضے نہیں۔ شہداء کے قرض بھی…محمود شام
تاریخ کے پاس سنہرے اوراق بھی ہوتے ہیں اور کچرا کنڈیاں بھی۔ تاریخ سے بہتر کچرا شناس کوئی نہیںہے۔
میں شکر گزار ہوں اپنے کرم فرما قارئین کا جنہوں نے فون۔ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ کے ذریعے ترقی کے راستے میں رُکاوٹ پارلیمانی نظام پر اظہار خیال کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جتنے بڑے ڈیم بنے۔ صدارتی طرز حکومت کے دَور میں بنے۔1973کا متفقہ طور پر منظور شدہ آئین بھی صدارتی دَور میں ہی وجود میں آیا۔ اس پر بات پھر کبھی کریں گے ابھی تو ہمیں پارلیمانی نظام کو ہی مضبوط کرنا ہے۔ کیونکہ عوام نے ووٹ اسی کو دئیے ہیں ۔ ہمیںابتدا سے یہ دعا بھی کرنی ہے کہ پارلیمانی نظام کی مجبوریوں کے باعث اس وقت جو غیر فطری ٹیم بن رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نیک نیتوں کو بد نیتوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ یہ دعائیں ملک بھر کی مسجدوں۔ خانقاہوں۔ گرجا گھروں۔ یونیورسٹیوں۔ کالجوں۔ دینی مدارس۔ کچے گھروں میں کی جارہی ہیں۔تبدیلی تو غریب۔ متوسط طبقہ ہی چاہتا ہے۔ یہ اس کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایم این اے۔ ایم پی اے۔ سینیٹر تو نہیں چاہیں گے۔ نہ ہی ہارنے والے جاگیردار۔ زمیندار۔ سردار۔ کیونکہ تبدیلی آئے گی تو ان کی جائیدادیں چھنیں گی۔ ان کی گاڑیاں ضبط ہوں گی۔ بہت سی مراعات اور منقولہ غیر منقولہ جائیدادیں رکھنے والے اکٹھے ہورہے ہیں۔ ان سب کو خبر ہے کہ یہ آسائشیں ان کی حلال کی کمائی کی نہیں ہیں۔
جیتنے والوں نے اپنا مرکزی نشانہ کرپشن کو بنایا تھا۔ ووٹ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے عزم کو ملا ہے۔ اب تیزی سے اس ہدف کو حاصل کرنا ہوگا،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب قوم میں جذباتی سوچ کی بجائے اقتصادی طرز فکر پیدا کرنا ہوگی۔ ملکی آمدنی میں ان کا بھی حصّہ ہو۔ بے کار بحث مباحثوں میں زندگی کے قیمتی لمحات کے زیاں کی بجائے ایک ایک لمحہ کسی عملی کام میں صرف کریں۔ ایسی اسکیمیں بنائی جائیں کہ وہ لوگ بھی جنہوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیئے یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان کا فیصلہ غلط تھا۔
’’جمعرات 2اگست کے کالم میں ہم نے گزارش کی تھی کہ ہفتے میں وزیر اعظم ’آن لائن‘ بھی آئیں غریب پاکستانیوں سے فون پر باتیں کریں۔ سوالات کے جوابات دیں۔ بزرگوں۔ مائوں بہنوں بھائیوں کی دعائیں لیں۔‘‘
عمران خان صاحب کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ ہفتے میں ایک روز پاکستانیوں کے سوالات کے جوابات دیا کریں گے۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میرے کالم سے انہیں یہ حوصلہ ملا ہے کیونکہ ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ لیڈروں نے اخبارات پڑھنے شروع کردئیے ہیں۔ بہرحال یہ ایک اچھا اقدام ہوگا۔
سابق گورنر سندھ۔ کئی کتابوں کے مصنّف بیرسٹر کمال اظفر کو مریم نواز کی بے جا سزا پر تشویش ہے۔ وہ ایک بیان بھی دے چکے ہیں کہ مریم کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس لئے وہ نیب کے دائرہ احتساب میں آتی ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے کچھ گزشتہ فیصلوں سے نظیریں بھی دیں۔ اس ہفتے ان کے ہاں ایک مختصر سی نشست رہی۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ کئی بار وزیر اعلیٰ سندھ رہنے والے تجربہ کار جہاں دیدہ سیاستدان سید قائم علی شاہ بھی تھے۔ اپنے دیرینہ ساتھی صدیق ابو بھائی کے ہمراہ۔جمشید مارکر آنجہانی کے بھائی ایم کے مارکر۔ یہ بزرگ پارسی عالمی افواج کی تاریخ کے ماہر ہیں۔ماہر معاشیات قیصر بنگالی بھی۔ ان کی یہ تشخیص مجھے بہت پسند آئی کہ اس دَور میں جاگیردار۔ صنعت کار۔ سرمایہ دار بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ٹھیکیدار آگے نکل گئے ہیں۔ میزبان سمیت سب مہمان خواہش ظاہر کررہے تھے کہ نومنتخب حکومت کو کام کا موقع ملنا چاہئے۔ پی ٹی آئی ایک وفاقی سیاسی جماعت بن کر اُبھری ہے۔ یہ خوش آئند ہے۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ پی آئی اے۔اسٹیل مل وغیرہ کی صرف انتظامیہ پرائیویٹ کمپنیوں کو دی جائے لیکن اثاثے ریاست کے پاس ہی رہنے چاہئیں۔ اس طرح ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پانی کم ہورہا ہے۔ اس لئے ایسی فصلوں سے گریز کیا جائے جو پانی زیادہ مانگتی ہیں۔ جیسے گنا۔ اور چاول۔ شوگر ملز کو وہ سیاسی صنعت Political Industry کہتے ہیں۔ ہم زیتون کی فصلیں کاشت کریں۔ پانی بھی کم لگے گا اور اس کی ایکسپورٹ بھی بہت ہے۔ کمال اظفر بھی معیشت سے کافی شغف رکھتے ہیں۔ ایشین ڈراما کے مصنّف مرڈال کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے ایک گائوں جلپانہ ضلع سرگودھا میں اپنے ایک کلاس فیلو شاہنواز خان کے ہمراہ کچھ بزرگوں سے ملاقات کی کہانی سنائی۔ جن سے انہوں نے پوچھا کہ بھٹو شہید نے آپ کے لئے کونسا بڑا کام کیاجو آپ کی زندگی میں بنیادی تبدیلی لایا۔سفید گھنی داڑھی والے ایک صاحب بصیرت نے کہا کہ روایت یہ تھی کہ جو کچھ کچی مٹی سے بنا ہوا ہے وہ مزارع کا ہوتا تھا۔ اور پختہ اینٹوں سے تعمیر شدہ ۔ وہ جاگیردار کا۔ مزارع اپنے گھر پکے نہیں بناسکتے تھے۔ بھٹو نے اپنی اصلاحات کے ذریعے صدیوں پرانے امتیازی قانون کو ختم کیا۔ سینکڑوں برسوں بعد اب مزارع بھی پکے مکانوں میں رہتے ہیں۔ سید قائم علی شاہ نے پی پی پی کا ہر دَور دیکھا ہے۔ وہ بھی اس حق میں تھے کہ معیشت کی بہتری کو اولیں ترجیح ملنی چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پی پی پی کو نئے اقتصادی۔ سماجی نظریات کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
ایسی نشستیں پاکستان کا درد بانٹنے میں بہت معاون رہتی ہیں میں تو گھر آکر ضروری جملے محفوظ بھی کرلیتا ہوں۔
اب جب نئی حکومت کی عملی آزمائش میں چند دن رہ گئے ہیں تو ہمیں نہ صرف اس سے ہمدردی ظاہر کرنی چاہئے بلکہ اس کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے چاہئیں۔مجھے یہاں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا غلام غوث ہزاروی یاد آتے ہیں جب لوگ کہتے تھے ہمیں ایوب خان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں تو مولانا فرماتے تھے کہ بھائی اس کے پائوں بھی تو مضبوط کرو۔ یہ مرحلہ بہت نازک ہے۔ گزشتہ دس سال جمہوریت کا شور تو بہت رہا ہے۔ لیکن عملاً سرکار غیر فعال تھی۔ بلدیاتی ادارے جو ریاست کے اعضائے رئیسہ میں سے ہیں۔ وہ بے اختیار تھے۔ زیادہ تر محکمے کام نہیں کرتے تھے۔ فرد واحد کے فرامین پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ شہروں میں کچرا۔ پینے کے پانی میں مسلسل کمی۔ گندے پانی کا نکاس نہیں ہورہا تھا۔ قوم فرقوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ کلیدی عہدوں پر منظور نظر افراد تھے۔ چپراسی سے لے کر سیکریٹری تک کی تقرری معاوضے کے بعد ہوتی تھی۔ کتنے ہی قابل لوگ ناکارہ کردئیے گئے ۔کتنے اپنی صلاحیتیں ملک کے مفاد میں استعمال کرنے کی بجائے دوسرے ملکوں میں جانے پر مجبور کردیے گئے۔ بہت سے قابل ذہن ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے۔ جو غلام بننا برداشت کرسکتے تھے ۔اپنی خود داری گھر چھوڑ کر آسکتے تھے۔ انہوں نے جاہلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ اس دس سال کا ورثہ قابل فخر نہیں ہے۔نئی حکومت کو وہ قرضے تو ادا کرنے ہی ہیں جو دوسرے ملکوں سے مختلف حکومتوں نے لئے لیکن آپ کو ان شہیدوں کا قرض بھی ادا کرنا ہے جو مختلف تحریکوں میں آمریت۔ ظالموں۔ جاگیرداروں۔ سرداروں۔ شہری مافیائوں کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ کچھ غیرت کے نام پر قتل کردئیے گئے۔ لیکن یہ قرض کیسے اُترے گا۔ بہت سے ظالم تو گنتی پوری کرنے کے لئے حکومت کے دست و بازو بن گئے ہیں۔