صرف پانچ ہزار روپے کے لیے!….رؤف کلاسرا
پارلیمنٹ کی گیلریاں پھر سے آباد ہوگئی ہیں ‘ سیاسی پنڈ دوبارہ سے آباد ہوگئے ہیں اور ہم سب سیاسی اور صحافتی اچکے بھی پنڈ بستے ہی پہنچ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے دو ہزار دو تک میں سیاسی اور پارلیمانی رپورٹنگ سے دور رہتا تھا ۔ جنرل مشرف کے مارشل لا ء کا یہ فائدہ ہوا کہ دو سال کے لیے پارلیمنٹ ختم ہوئی اور میرے جیسے عام رپورٹر کو موقع مل گیا کہ وہ ایکسکلوسیو خبریں فائل کرے‘ سکینڈلز بریک کرے۔ سیاسی خبریں کم ہونے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ میرے جیسے رپورٹرز نے اٹھایا تھا ۔ اخبارات کے صفحات پر جگہ زیادہ پیدا ہوگئی تو ہماری خبریں اندر کے صفحات سے نکل کر فرنٹ پیج پر چھپنا شروع ہوگئیں ۔ میں جنرل مشرف کے مارشل لاء سے ایک سال پہلے ہی ملتان سے اسلام آباد پہنچا تھا‘ لہٰذا مجھے اسلام آباد کے سیاسی موسم کا کچھ زیادہ اندازہ تھا ہی نہیں اور نہ ہی میری اوقات تھی کہ میں سیاسی سٹوریز بریک کرسکتا ۔
ویسے بھی ان دنوں میں چند شعبے ایسے تھے جہاں عام رپورٹر منہ مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ سپریم کورٹ‘ پارلیمنٹ ‘فنانس اور فارن آفس وہ شعبے تھے جہاں صرف بیس‘ تیس سال کے تجربے کے حامل سینئر صحافی ہی خبریں فائل کرتے تھے۔ آج کل تو ٹی وی کھولیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہر نوجوان ان شعبوں میں ماہر ہے۔ ایک دفعہ مائیک ہاتھ میں آیا اور کیمرا آن ہوا پھر اس کے بعد وہ جانے اور اس کے ناظرین۔
اس دوران مجھے پارلیمنٹ جانے کا موقع ملا جب جنرل مشرف نے ایڈہاک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تشکیل دی۔ ایک پرانے بیوروکریٹ ایچ یوبیگ صاحب چیئر مین تھے‘ وہ کمیٹی زیادہ تر ریٹائرڈ بیوروکریٹس پر مشتمل تھی‘ ایک آدھ پرائیویٹ سیکٹر کا آدمی بھی تھا۔ جنرل مشرف نے اچھا کام یہ کیا کہ انہوں نے میڈیا کو اجازت دے دی کہ وہ ان اجلاسوں میں بیٹھ سکتے تھے۔ یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا‘ کیونکہ پہلے ہم رپورٹرز گھنٹوں اجلاس کے کمرے کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے رہتے تھے کہ کوئی ممبر باہر نکلے گا تو کچھ پوچھنے کی کوشش کریں گے کہ اندر کیا ہوا ‘ اب سب کو اجازت تھی کہ وہ خود ‘براہ راست سب دیکھیں اور سنیں بھی۔ یقین کریں ایسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پھر نہ بنی‘ جس کے سربراہ ایچ یو بیگ تھے ۔ اس کمیٹی کے اراکین‘ پرانے بابو جانتے تھے کہ سرکاری افسران کیا گل کھلاتے ہیں‘ لہٰذا وہ ایک لمحے میں آج کے افسران کو پکڑ لیتے‘ خوبصورت گفتگو ہوتی۔ آڈیٹر جنرل کا دفتر بھی ابھی اتنا سیاسی نہیں ہوا تھا‘ لہٰذا وہ بھی سٹینڈ لے لیتے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مجھے رپورٹر بنانے میں جہاں شاہین صہبائی اور ناصر ملک جیسے سینئرز کا ہاتھ تھا‘ وہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوکر بھی بہت کچھ سیکھا۔جنرل مشرف کے دور تک بیوروکریٹس کی کچھ کلاس بچی ہوئی تھی‘ اب تو پی اے سی جائیں تو آپ کو فیڈرل سیکرٹری کی بجائے لگتا ہے کوئی کلرک ترقی کر کے بائیسواں گریڈ لے آیا ہے۔تاہم جب سیاسی حکومتوں کے ادوار میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین سیاستدان بننا شروع ہوئے‘ تو اس کا کردار اور مزا جاتا رہا۔کمیٹی کے اراکین‘ جن کا کام احتساب کرنا تھا‘ وہ اپنی اپنی پارٹی اور وزارتوں کی کرپشن کا دفاع کرنے لگ گئے اور یوں سب سکینڈلز سیٹل ہوتے گئے۔ پی پی پی اور نواز لیگ نے مک مکا کر لیا کہ آپ نے ہمارے ادوار کی کرپشن کو نہیں چھیڑنا‘ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ تحریک انصاف کے اراکین کو ویسے ہی کچھ علم نہ تھا کہ کیا چل رہا ہے ‘وہ بے چارے سنجیدگی سے منہ بنائے بیٹھے رہتے تھے۔
ان کمیٹیوں کے اجلاس میں ایک سائیڈ پر بیٹھ کر اہم موضوعات پر سب کو سنتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ بھی اتنی بری بات نہیں تھی ۔وقفۂ سوالات میں سے بڑی بڑی خبریں اور سکینڈلز نکلے اور فائل کیے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ سب سیاستدان لفاظی کرتے ہیں ۔ اپوزیشن میں ہوں تو ان کالہجہ‘ انداز اور مفادات مختلف ہوتے ہیں۔ لگتا ہے ان سے بڑا آئیڈیلسٹ اور ملک کا خیرخواہ پیدا نہیں ہوا ۔ جونہی ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے‘ تو لگتا ان سے زیادہ زمینی حقائق کا علمبردار کوئی نہیں ‘ ان کاپارٹی لیڈر بے شک پورا پاکستان لوٹ کر لے جائے ‘انہیں پروا نہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں‘ دو سال پہلے پی اے سی کے اجلاس میں پانامہ ہنگامہ کے بعد کمیٹی ممبر ڈاکٹر عارف علوی نے جرات کر کے حسن نواز اور حسین نواز کا نام لے لیا تو نواز لیگ کے اراکین نے وہ ہنگامہ کیا کہ ہم سب لوگ حیران رہ گئے۔ علوی نے معافی مانگ کر جان چھڑائی۔ خورشید شاہ اور پی پی پی کے اراکین مزے لیتے رہے کہ چلیں اچھا ہوا عارف علوی کو سبق ملا ‘آئندہ احتیاط کیا کریں گے اور زرداری یا بلاول کا نام لینے کی جرات نہیں ہوگی۔ یہ سلسلہ سب جماعتوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک دن کسی نے عمران خان پر بات کی تو وہی ہوا‘ تحریک انصاف کے اراکین بھڑک اٹھے اور دھمکی دی کہ اگر دوبارہ ایسی بات ہوئی تو پھر بات دور تک جائے گی۔ یوں اپنے اپنے لیڈروں کی کرتوتوں کا دفاع کرنا اب جمہوریت ہے۔ جمہوریت میں سنا تھا پہلے لیڈروں کو پاک صاف ہونا ہوتا ہے‘ تاکہ ان کی وجہ سے پارٹی بدنام نہ ہو۔ پارٹی ورکرز اور دیگر لیڈرز خود اپنے پارٹی سربراہوں سے سوال و جواب کرتے تھے۔ ہمارے ہاں الٹ ہے‘ یہاں لیڈرز دنیا بھر کے جرائم کرتے ہیں اور پارٹی کے ورکرز‘ لیڈروں اور فالورز کا کام ہے کہ وہ ان کی عیاشیوںکا دفاع کریں۔ نواز لیگ کے ایم این اے اسد الرحمن اور ایک آدھ نے کوشش کی تھی کہ وہ نواز شریف سے سوال پوچھ لیں ۔ ان کو ایسی عبرتناک مثال بنایا گیا کہ پھر کبھی دوسروں کو جرات نہ ہوئی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ لیڈرشپ کو نہ پارٹی کا ڈر رہا‘ نہ کسی کے سوال و جواب کا ۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ آج نوازشریف جیل میںہیں۔ اگر وہ اپنی پارٹی کو اجازت دیتے ‘ وہ ان کا احتساب کرسکتی تو شاید وہ آج جیل میں نہ ہوتے۔ ان لیڈروں کے پاس آپشن تھا کہ یہ پارلیمنٹ کے آگے سرنگوں ہوتے‘ اپنی پارٹی کے سامنے سر جھکاتے یا قانون کے ہاتھوں سزا بھگتتے۔ ان کا انتخاب ہمارے سامنے ہے۔ مجھے یاد ہے اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے دن سب ایم این ایز اپنے ہاتھ کاٹ رہے تھے تو اکیلی کشمالہ طارق تھی جو چیخ و پکار کررہی تھی کہ یہ مت کریں۔ اس نئے قانون کے تحت کوئی بھی ایم این اے پارٹی پالیسی کے برعکس نہ اسمبلی میں بات کرسکتا تھا ‘ نہ ووٹ ڈال سکتا تھا اورنہ ہی لیڈر پر تنقید کرسکتا تھا ۔ اپنے تئیں فلور کراسنگ کے نام پر پارلیمنٹ کے اندر مارشل لاء لگا دیا گیا ۔ ان سب گونگوں نے خود اپنے لیے قانون بنایا کہ وہ اپنے لیڈروں کی کسی بات یا پالیسی پر اعتراض نہیں کریں گے‘ اور اگر کریں تو انہیں پارلیمنٹ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ یہ تھی وہ جمہوریت اور یہ تھا ووٹ کا تقدس‘ جو اس دن دیکھنے میں آیا۔
اس لیے جب سپیکر کے الیکشن کے بعد‘ بدھ کے روز نواز لیگ کے ارکان نے ووٹ کو عزت دو اور نواز شریف کو رہا کرو کے نعرے لگا ئے تو مجھے وہ دن یاد آرہا تھا جب ان سب نے وہ قوانین پاس کیے جن سے جمہوریت کمزور ہوئی۔ نواز شریف کے حق میں نعرے سن کر مجھے یاد آیا کہ ان کے پاس پورا ایک سال تھا کہ وہ اس پارلیمنٹ کے آگے سر جھکا کر استعفی دے کر نکل جاتے۔ نواز شریف نے پارلیمانی کمیٹی تک نہ بننے دی جو پانامہ سکینڈل کی تحقیقات کرسکتی۔ وہی ہوا ‘گانٹھوں پر گانٹھیں لگتی گئیں اور آج وہی نواز شریف جیل میں ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ عمران خان اور ان کی پارٹی‘ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے زوال سے کیا سبق سیکھتی ہے۔ بظاہر عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کے پاس کوئی ایسی ٹیم نہیں ‘جسے وہ عوام اور میڈیا کو بیچ سکیں۔ عمران خان کو ایک ہی ایڈوانٹیج ہے کہ ان کی شہرت ہے وہ ایماندار ہیں‘ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایڈوانٹیج ان کو شاید تین سے چھ ماہ تک حاصل رہے گا‘ اس کے بعد سوالات پوچھنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ویسے میرے نزدیک اس نئی پارلیمنٹ کا سب سے اہم مرحلہ وہ تھا جب اسمبلی کے ارکان پہلے دن خدا ور رسولﷺ کو حاضر ناظر جان کر یہ حلف اٹھا رہے تھے کہ وہ ایمانداری سے کام کریں گے۔ اس پارلیمنٹ میں وہ ایمانداری سے کام کرنے کا حلف دے رہے تھے ‘جہاں کچھ دن پہلے تک دوبارہ منتخب ہو کر آنے والے اراکین کی اکثریت پوری ”ایمانداری‘‘ سے صرف پانچ ہزار روپے روزانہ کا الاؤنس وصول کرنے کے لیے جعلی حاضریاں لگا رہی تھی ۔جی ہاں آپ نے درست پڑھا ہے۔ صرف پانچ ہزار روپے کے لیے