صوبوں کے ماتحت انتظامی یونٹس…ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پاکستان کے چاروں صوبوں میں عوام کی منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ قومی وسائل میں حصہ داری پر نیشنل فنانس کمیشن (NFC)کے تحت ملنے والی رقوم پر سب صوبے مطمئن بھی ہیں۔ لیکن جمہوری نظام کے ثمرات اور این ایف سی کے ذریعے ملنے والے وسائل اب بھی ووٹرز کے ہر طبقے اور صوبوں کے سب علاقوں تک مساویانہ اور منصفانہ طور پر نہیں پہنچ رہے۔ اس کی وجہ سے ملک کے ہر صوبے میں رہنے والے عام پاکستانیوں کو صرف مشکلات ہی نہیں بلکہ کئی مواقع پر مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دوردراز دیہی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ لاہور اور کراچی میں رہنے والوں کو بھی ایک اہم ترین بنیادی ضرورت یعنی پینے کا صاف پانی حاصل کرنے میں دشواریاں ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے کروڑوں بچوں کے ساتھ جسمانی کمزوریوں کا مسئلہ ہے، حاملہ خواتین اور شیرخوار بچوں کی ماؤں کی مناسب طبی دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑی تعداد میں ایسی عورتوں اور ایک تا پانچ سال کی عمر میں فوت ہو جانے والے بچوں کی تعداد پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔ ٹی بی، ہیپاٹائٹس، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور دیگر کئی معتدی(Infections) بیماریوں کے مریض ہمارے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اسے حکومتی عدم دلچسپی کہا جائے، متعلقہ اداروں کی نااہلی یا چشم پوشی اور حکومتی و سماجی اداروں میں باہم رابطوں اور تعاون کی کمی کہ پاکستان
میں کئی معتدی بیماریاں کنٹرول ہونے کے بجائے پھیلتی جارہی ہیں۔ صرف بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ کئی چھوٹے شہروں میں بھی فراہمی و نکاسی آب کے لئے اطمینان بخش انتظامات نہیں ہیں۔ کئی شہروں کا آلودہ پانی دریاؤں اور نہروں میں پھینکا جارہا ہے۔ صنعتی علاقوں میں کئی مضر صحت بلکہ انسانی یا حیوانی زندگی کے لئے مہلک صنعتی فضلے کو صحیح طریقے سے تلف کرنے کے بجائے دریاؤں یا نالوں میں بہایا جارہا ہے۔ کئی مقامات پر یہ آلودہ ترین پانی سبزیوں یا باغوں میں آب پاشی کےلئے استعمال ہورہا ہے۔ بحیرہ عرب کا پانی کراچی سے آنے والے صنعتی فضلے اور کچرے سے آلودہ ہو کر سمندری حیات کے لئے بہت بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔ پاکستان کے ہر شہر میں صحت کی سہولتیں بہت کم ہیں ان سہولتوں تک بھی سب مریضوں کی بآسانی رسائی نہیں ہے۔ آئین کے تحت پاکستان کے ہر بچے کو تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان کے کسی صوبے میں سرکاری اسکولوں کی حالت قابل اطمینان نہیں ہے۔ کئی مقامات پر ایک ایک کمرے کے اسکول ہیں۔ بڑی تعداد میں اسکول میں باتھ روم تک نہیں ہیں۔
یہ سب باتیں کوئی انکشافات نہیں ہیں۔ اخبارات کے خبری اور ادارتی صفحات پر بارہا اس بارے میں تلخ حقائق قوم کے سامنے پیش کئے جاتے رہے ہیں لیکن جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے یا ان میں کمی نہیں آتی ان کا بار بار دہراتے رہنا ضروری ہے۔ تعلیم، صحت ، بہتر شہری سہولتیں نظام انصاف تک بآسانی رسائی ہر پاکستانی کا حق ہے۔ لیکن کئی حکمراںعوام کو ان کا حق خیرات سمجھ کر دینا چاہتے ہیں۔
عوام کو ان کی رہائش یا کاروبار کے قریب حکومتی اور عدالتی اداروں تک باسہولت رسائی کے لئے ہر ڈویژن، ہر ضلعے میں صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ دیگر شہری سہولتوںکی تیز رفتار ترقی کے لئے نئے انتظامات ناگزیر ہیں۔ کئی حلقے بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صوبوں کی تعداد چار سے بہت زیادہ ہونی چاہئے ۔ پنجاب، سندھ، خیبر ختونخوا میں وقتاً فوقتاً نئے صوبے کی بات اٹھتی رہتی ہے۔ لیکن اس معاملے پر غور و فکر اورعوام کی صحیح رہنمائی کے لئے بڑی سیاسی جماعتوں نے کبھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ ایشو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے زیادہ تر انتخابات سے پہلے اٹھایا جاتا ہے، بعد میں طویل عرصے تک اس معاملے سے لاتعلقی اورچشم پوشی اختیارکرلی جاتی ہے۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف پاکستان میں صوبوں کی حدبندیاں تبدیل کرنے اور ان میں نئے صوبوں کے قیام کے حق میں نہیں ۔ پیپلز پارٹی کا موقف تو اس سلسلے میں واضح ہے۔ باقی دو جماعتیں بھی اس سلسلے پر عملی طور پر آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔
عوام کی سہولت کے لئے ملک میں نئے صوبے نہیں بنائے جاتے تو پنجاب ، سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی تابع داری میں مالی اور انتظامی طور پر خومختار یونٹس قائم کئے جانے پر غور کیا جانا چاہئے۔ بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے ہر صوبے میں ایک کروڑ آبادی پر ایک انتظامی یونٹ بنایا جانا چاہئے۔ یہ مجوزہ انتظامی یونٹ چند معاملات میں صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت کو جواب دہ ہوں لیکن ان کی انتظامی اور مالی خود مختاری کو آئین کے تحت تحفظ دیا جانا چاہئے۔ ہر انتظامی یونٹ میں کام کرنے والی عدالتیں صوبائی ہائی کورٹ کے ماتحت ہوں۔ ہر یونٹ میں ہائی کورٹ کی جانب سے دو یا تین جج صاحبان پر مشتمل بینچ قائم کرنے پر غور کیا جائے۔ نیشنل فنانس کمیشن کی جانب سے صوبوں کو ان کا مقررہ حصہ دیا جائے اور صوبے اپنے ہر انتظامی یونٹ کو اس کی آبادی، رقبے، ریونیو کی بنیاد پر مالی گرانٹ فراہم کریں۔ تعلیم، صحت، پبلک ٹرانسپورٹ ، کسی حد تک امن و مان اور دیگر شہری معاملات ان انتظامی یونٹس کی ذمہ داری قرار دئیے جائیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد سے صوبوں کی موجودہ تعداد اور حدبندیاں برقرار رکھتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کے لئے نئی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔ موجودہ صوبوں کے اندر رہتے ہوئے انتظامی اور مالی طور پر خودمختار انتظامی یونٹس کے قیام سے پاکستان میں عام آدمی کی حالت تیز رفتاری سے بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔ اس نظام پر ٹھیک طرح عمل کرنے سے ملک کے ہر حصے میں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی بہتری بھی آئے گی۔
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ۔ لارڈ نذیر
پاکستان میں حکومتی و سماجی سطح پر کئی خرابیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں حکومتی عدم دلچسپی، غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد علاج اور تعلیم کے لئے مہنگے پرائیویٹ اسپتال اور پرائیویٹ اسکول پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن پاکستان میں ہر طرف کاروباری سوچ اور منافع کمانے کی دوڑ نہیں ہے۔ اللہ کی رضا پانے کے خاطر خدمتِ خلق میں مصروف لاتعداد پاکستانیوں نے انفرادی یا ادارتی سطح پر ایسے اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں، جہاں فیس یا تو نہیں لی جاتی یا بہت کم ہے۔ پاکستان کے فرشتہ صفت سماجی خدمت گار عبدالستار ایدھی کی زریں خدمات تودنیا بھر میں مشہورہیں، پاکستان کے عوامی خدمت کے بڑے اداروں میں المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ بھی شامل ہے۔ اس ٹرسٹ کی خدمات صحت اور تعلیم کے شعبوں، قدرتی آفات اور تنازعات سے متاثرہ انسانوں کی مدد کے حوالے سے معروف ہیں۔ ممتاز مذہبی اور سماجی شخصیت، سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیّب کی سر پرستی میں یہ ٹرسٹ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، برما، صومالیہ، گیمبیا، کینیا، سوڈان ، فلسطین اور شام میں بھی سرگرم رہا ہے۔ برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈ کے رکن اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی خدمات کے لئے متحرک اور فعال لارڈ نذیر احمد گزشتہ دنوں پاکستان آئے اور المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور شمولیت کی ۔ برادر ملک ترکی کے الائنس آف انٹرنیشنل ڈاکٹرز AID کے ماہرین امراض چشم پروفیسر ڈاکٹر میولات اور پروفیسر ڈاکٹر حسن کوچ اولو KOÇOGLU بھی المصطفیٰ ٹرسٹ کے زیر اہتمام موتیا کے آپریشنز کے لئے پاکستان آئے۔ ترک ڈاکٹر صاحبان نے بتایا کہ موتیا کے ایک لاکھ آپریشنز کا ہدف ہے۔ جن میں سے ساٹھ ہزار آپریشن کئے جاچکے ہیں۔
توقع ہے کہ حاجی حنیف طیّب کی زیرِ سرپرستی لارڈ نذیر کے تعاون، خدمت خلق کے اعلیٰ جذبوں سے سرشار ٹرسٹ کے منتظمین اور کارکنان کی کوششوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں روشنی، کامیابیاں اور خوشیاں آئیں گی۔