منتخب کردہ کالم

ضیا دور کی فلمیں اور سلطان راہی .. حسنین جمال

ضیا دور کی فلمیں اور سلطان راہی .. حسنین جمال

سلطان راہی کرکٹ سٹیڈیم میں کھڑے ہیں۔ بیٹ ان کے ہاتھ میں ہے۔ سامنے کوئی ولن ہے جس کا نام جابر خان ہے۔ وہ حسب روایت پہلے جابر خان کو ایک لمبا لیکچر دیتے ہیں جس میں صرف بڑھکیں ہیں۔ جابر خان منہ کھولے سنتا رہتا ہے، وہ کم بخت شاید ہپناٹائزڈ ہے یا موت اس کے سر پہ ناچ رہی ہے تو اس کی عقل گھاس چرنے نکل گئی ہے۔ پورے سٹیڈیم میں دور دور تک کوئی بندہ نہیں ہے لیکن جابر خان، اس بات کا علم ہوتے ہوئے بھی کہ اس کو ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگنی ہے، پورے خشوع و خضوع سے وہ تقریر سن رہا ہے۔ اس کے بعد سلطان راہی بیٹ گھماتے ہیں اور جابر خان کو گیند کی طرح شاٹ مارتے ہیں۔ جابر خان گیند ہی کی طرح اڑتے ہوئے کریز سے باہر جا کے گرتا ہے۔ یہ سلطان راہی کا چھکا تھا! فلم ابھی باقی ہے۔ جابر خان خاصا دور جا کے گرتا ہے لیکن مثل خورشید پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور مکمل صاف کپڑوں کے ساتھ‘ کہیں کوئی خون کا داغ نہ ہوتے ہوئے جابر خان ایکدم ایکٹیو ہے۔ بھاگ وہ پھر بھی نہیں رہا۔ آخر سلطان راہی بیٹ پھینک کر وکٹ اکھاڑتے ہیں اور جابر خان کا نشانہ لیتے ہیں۔ وکٹ سو گز دور کھڑے جابر خان کے پیٹ میں خنجر کی طرح جا کے گڑ جاتی ہے اور ایک بے وقوف ولن اس طرح دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔
سمگلر، بہرام ڈاکو، گبھرو، شیر میدان دا، جٹ دا ویر، اتھرا تے جی دار، بشیرا تے قانون، زہریلا دشمن، وحشی ڈاکو، وڈا خان، باغی شیر، وحشی ٹولہ، جگا تے شیرا یا قانون شکن؟ ستر اور اسی کی دہائیوں میں اس قسم کی چھ سات سو سے زیادہ فلمیں بنیں۔ کوئی ایک آدمی ایسا ہے جسے ان میں سے ایک بھی فلم یاد ہو؟ جن فلموں کے نام اس قدر پولیس مار ہوں گے وہ خود کیسی ہوں گی؟ اس وقت سینما کا رخ کون کرتا تھا، صرف وہی لوگ جو ایسی فلمیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ سارا طبقہ ایسا تھا جو اپنے اندر کی گھٹن اور غربت سلطان راہی کی شکل میں دیکھ کر خوش ہوتا تھا، تالیاں بجاتا تھا، نعرے لگاتا تھا اور خوشی خوشی تین گھنٹے پر مشتمل کریپ دیکھ کے باہر آ جاتا تھا۔ ان فلموں میں ایسا کیا تھا جو دکھانے کے قابل تھا؟ چند گنڈاسوں والے، آٹھ گھوڑے، فصلیں روندتی ہیروئینیں اور ان کے پیچھے ایک دوسرے سے بالکل مختلف سٹیپس اٹھاتی پندرہ بیس ایکسٹراز، نقلی مونچھ لگائے پولیس والا، پولیسٹر کی داڑھی اور شدید گھنگریالے بالوں والا کوئی ولن، اسی سے ملتا جلتا ایک عدد ہیرو، بلکہ وہی ہیرو، جو اپنی ذات میں خدا بخشے بہت نیک طبیعت آدمی تھا لیکن ہر فلم میں کردار ایک ہی کیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ولن کے ڈیرے پر عیش و عشرت کے چند سین جو بیسیکلی شیشے کے گلاسوں میں کوکا کولا انڈیل کر فلمائے جاتے تھے۔ یہ اس دور میں ہماری فلموں کی کل کائنات تھی۔
وہ ضیا صاحب کا دور تھا۔ کوئی ایسی چیز جس میں آرٹ کی ہلکی سی لہر بھی دوڑتی نظر آ جائے اس پر مکمل پابندی ہوتی تھی۔ طوائف، جوا، ڈرنکنگ، غیر ضروری پیار محبت دکھانا تو ویسے ہی حرام تھا۔ ان تمام پابندیوں کے بعد جو پاکیزہ ترین چیز وجود میں آتی وہ اس دور کی فلم تھی۔ ہر چیز پہ روک ٹوک تھی، نہیں تھی تو وائلنس پر نہیں تھی، انتہائی احمقانہ قسم کے پرتشدد مناظر پر نہیں تھی بلکہ ایک آدمی پہ کلاشنکوف کے برسٹ خالی کر دینے پر بھی نہیں تھی۔ ٹی والوں پہ تو ایسا دور بھی آیا جب وہ پینٹ کوٹ تک نہیں پہن سکتے تھے، شلوار قمیص ہو گی تو گلے والا بٹن بھی لگا کے رکھنا ہو گا، اور دوپٹہ تو خیر نیوز کاسٹرز پہ بھی فرض تھا۔ ضیا صاحب بہت جلدی چلے گئے لیکن فلموں کا وہ تکلیف دہ بھوت ان کی رحلت کے بعد بھی پاکستانی انڈسٹری سے چمٹا رہا۔ ان کے آٹھ دس برس بعد جب سلطان راہی کے قتل کا افسوسناک واقعہ ہوا تو اس کے بعد بھی
دس پندرہ فلمیں اسی فارمولے کی آئیں لیکن کچھ عرصے میں یہ سلسلہ رک گیا۔ نوے کی دہائی کے آخری دو تین برس وہ تھے جب اس فارمولے سے ہٹ کر بنی فلمیں کامیاب ہونا شروع ہوئیں۔ جیوا، گھونگھٹ اور چوڑیاں نے دیکھنے والوں کی عقل کو جھنجھوڑا کہ بابا کچھ تو ڈھنگ کا دیکھ لو اور ہمارا سینما اس تکلیف دہ پیریڈ سے نکل آیا۔ چوائس عوام کے پاس تھی، انہوں نے جنگ و جدل کے تین گھنٹے گزارنے پر محبت، پیار اور امن کے تین گھنٹوں کو ترجیح دی۔ عوام ہمیشہ امن پسند ہی ہوتے ہیں۔
میں ضیا مارشل لا کے تین سال چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔ میرے ساتھ کی پوری نسل اپنے بچپن کی یادوں میں سینما کا دیا کہیں بھی جھلملاتا نہیں دیکھتی۔ فلم دیکھنے کا مطلب انگریزی یا انڈین فلم دیکھنا ہوتا تھا، وی سی آر کا مطلب تیس روپے تیل کرنا ہوتا تھا (کرائے کے)، باقی بڑی سکرین کیا ہوتی ہے اپنی جانے بلا۔ کبھی کبھی ٹی وی پر کوئی ادھر کا ہیرو نظر بھی آتا تھا تو حیرت ہوتی تھی کہ یار ایسے بندوں کو تو دنیا میں ولن کوئی نہیں لیتا، ہم لوگ ہیرو بنا کے کھڑکی توڑ رش بھی لے لیتے ہیں۔ یہ بہرحال کمال تھا۔
فلم دیکھنے والے اندھے نہیں ہوتے، وہ باشعور لوگ ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کرافٹ کیا، اداکاری کیا ہے، کیمرے سے کام کیسے لیا جاتا ہے، لوکیشن کیسے فلمائی جاتی ہے، ڈانس کون اچھا کرتا ہے، ڈائیلاگ کس کے پاور فل ہوتے ہیں اور پوری کہانی کا تاثر کیا چیز ہوتا ہے۔ وہ باقاعدہ مقابلہ کرتے ہیں، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی فلمیں اب ان کی رسائی میں ہیں۔ کیا ایرانی سینما، کیا کورین سینما، کیا بھارتی، کیا ہالی وڈ ایک سے ایک اعلیٰ فلم بن رہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی لوکل فلم، ان سب ملکوں کے مقابلے میں آ کر کھڑی ہو جاتی ہے، جو ان سب کی نسبت انتہائی کم بجٹ سے بنی ہے، اور وہ سپر ہٹ بھی ہو جاتی ہے، پورا ایک آدھ مہینہ بھی نکال جاتی ہے تو اب، اتنی دیر بعد اس پر پابندی لگا دینے کی کیا تک ہے؟
کوئی آدمی ایسی غلطی نہیں کرتا‘ لیکن کی گئی، یہ فلم عید کے دوسرے دن فیملی کے ساتھ سینما جا کر دیکھی۔ ایک دم عجیب کراؤڈ تھا لیکن فلم اچھی بھلی ہے۔ خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اس چیپ ایکٹنگ کے دور سے ہم لوگ نکل آئے جب ہمارے ہیرو یا گنڈاسوں سے خون کی ندیاں بہاتے تھے اور یا تکیے کو لپٹ کر ایسے پیار کرتے تھے کہ اس میں سے مرغی کے پر نکل کے چاروں طرف اڑنے لگتے تھے، اور یہ ہماری نسل کے لیے رومانٹک سین ہوتا تھا۔ واضح رہے، یہ سین ہیرو کا ہی تھا اور یہ واقعی ایک گانے میں فلمائی گئی واردات تھی۔ اگر واقعی کوئی ایسی قابل اعتراض بات تھی تو سینسر بورڈ نے کس طرح پاس کر دی؟ اور اگر وہ بات اب نکل آئی تو باقی صوبوں نے کیا قصور کیا ہے؟ اس دور میں کہ جب تین سال کا بچہ بھی اماں کے موبائل میں یو ٹیوب لگا کے وڈیوز دیکھ رہا ہوتا ہے اس قسم کی پابندیاں ہمیں کیا بتاتی ہیں؟ فلم انڈسٹری گاڑیاں بنانے کا معاملہ نہیں ہے۔ ادھر تو ایسا جال تنا ہے کہ سن اٹھاسی میں جو ماڈل آپ کو ملتا تھا وہی چیز مزید کم اسیسریز کے ساتھ آٹھ لاکھ روپے میں آج بھی چپکا رہے ہیں۔ کسٹمر مجبور ہے۔ جاپانی گاڑی ٹیکسوں کی مار کھا کے اتنی مہنگی پڑتی ہے کہ وہ چپ چاپ یہ ٹین ڈبہ لے کے گھر چلا جاتا ہے۔ فلم میں ایسے نہیں چلتا۔ یا تو سیدھا سیدھا کہہ دیا جائے کہ بھیا بوریا بستر لپیٹو اور ملک سے باہر جا کے فلمیں بناؤ، یا پھر ادھر بنوانی ہیں اور ٹھیک ٹھاک ٹیکس بھی کاٹنا ہے تو لوکل انڈسٹری کو گلوبل مقابلے میں سانس لینے جتنی جگہ تو دی جائے۔ اچھی بھلی چلتی فلم میں کھنڈت ڈال دینا پوری انڈسٹری کو ان سکیور کرنے والی بات ہے۔ ادھر بچا ہی کیا ہے بھائی؟ جتنا ہے اسے سنبھال رکھیے، اس کی قدر کیجیے