طاقتور کا نہیں گناہ اگرچہ…ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک
جموں کے شہر کٹھوا میں اور اتر پردیش کے علاقے انائو میں زبردستی کے دو معاملے ایسے ہوئے ہیں‘ جو ان صوبوں کی بھاجپا سرکاروں کو تو کٹ گھرے (کٹہرے) میں کھڑی کرتی ہی ہیں‘ وہ بھارت کے لیے شرمندگی کا بھی سبب ہیں۔ کٹھوا میں بکروال مسلم سماج کی ایک آٹھ برس کی بچی کے ساتھ پولیس والوں نے پہلے زیادتی کی اور پھر اسے مار ڈالا۔ اس بچی کو گزشتہ جنوری میں اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ گھر کے قریب کھیتوں میں اپنے مویشی چرا رہی تھی۔ بچی پر تشدد کیا گیا۔ اسے بھوکا رکھا گیا اور ایک گروپ‘ جس میں پولیس والے بھی شامل تھے‘ نے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ بعد ازاں اس بچی کو قتل کر دیا گیا اور اس بات کا یقین کرنے کے لئے کہ وہ مر چکی ہے‘ پتھروں سے اس کے سر کو کچلا جاتا رہا۔ اسی طرح اُنائو میں اٹھارہ برس کی ایک خاتون کے ساتھ پہلے زیادتی کی گئی اور بعد میں اس کے والد کو اتنی بری طرح سے مارا گیا کہ ہسپتال میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس نوجوان عورت نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے گھر کے سامنے خود کشی کی کوشش بھی کی۔ اس خاتون کا الزام ہے‘ جس کی مرنے والے اس کے والد نے بھی تصدیق کی کہ اتر پردیش کے ایک وزیر نے اس خاتون کے ساتھ کئی بار زیادتی کی لیکن پولیس نے اس کی رپورٹ درج کرنے میں کافی آناکانی (پس و پیش کا مظاہرہ کرنا) دکھائی اور مسلسل تاخیر کرتی رہی۔ اب جب اس معاملے نے طول پکڑ لیا ہے اور بات میڈیا‘ اور میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ چکی ہے تو اس وزیر کے بھائی اور کچھ لوگوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ اس کے بعد وزیر صاحب لا پتا ہو گئے۔ اسی طرح جموں کے وکلا نے آٹھ برس کی اس بچی کے زیادتی کو ہندو مسلم کا مدعہ بنا کر دبانے کی کوشش کی۔ اس کی رپورٹ تک لکھوانے میں اڑنگے لگائے گئے‘ لیکن معاملہ دبنے کے بجائے پھیلتا گیا۔ ان دونوں معاملات نے پورے ملک میں اسی طرح کا غصہ پیدا کیا ہے‘ جیسا کہ نربھیا کے وقت پیدا ہوا تھا۔ یہ واقعات اور معاملے تو اس سے بھی بدتر ہیں۔ اس لیے بدتر ہیں کہ پورے بھارت میں اور خصوصی طور پر ان دونوں صوبوں میں بھاجپا کی حکومت ہے۔ اس پارٹی کی حکومت ہے‘ جو اپنے تئیں محب وطن‘ ہندتوا اور ملک کی شان کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ رام کا نام جپنے والی پارٹی تلسی داس کے اس قول کو ظاہر کر رہی ہے‘ طاقتور کا گناہ نہیں گو (اگرچہ) سائیں۔ ان دونوں معاملات میں بیرونی ممالک کا میڈیا بھی دلچسپی لے رہا ہے اور وہاں بھی اس ایشو کی بھرپور رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ اس سے بھارت کی ساکھ بری طرح خراب ہو رہی ہے‘ جو انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے بھی اچھی نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان دونوں واقعات کے سبب بھاجپا کی صوبائی سرکاروں کو جلد یا فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں‘ لیکن اگلے برس ہونے والے ایوان کے انتخابات میں ان کے نتائج جھیلنے کے لیے ہمارے طاقت ور بادشاہ (مودی) کی خاموشی بھاجپا پر بھاری پڑے گی کیونکہ اس معاملے کو اب آسانی سے دبایا نہین جا سکتا۔ ملزم وزیر کو فوراً برخاست کر دینے اور جموں کے زبردستی کرنے والے پولیس والوں کو فوراً سزا دینے پر تو شاید ان واقعات کا اثر تھوڑا کم ہو جائے‘ لیکن بھارت میں عورتوں کے تحفظ کے بارے میں آدتیہ ناتھ کے اعلان پر اب کون اعتماد کرے گا؟ ایک سنیاسی کی سرکار کو ایسے معاملات میں عام صورتحال کی نسبت زیادہ ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ویسے بھی اس آٹھ سالہ بچی کے خاندان نے یہ مقدمہ کسی دوسری ریاست میں منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ تاکہ انصاف کا حصول ممکن ہو سکے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حکومت اس معاملے کو کیسے سلجھا پائے گی۔ عدالت نے تو ٹھوس شواہد کو سامنے رکھنا اور انصاف کرنا ہے جو پولیس کی چارج شیٹ سے واضح ہو چکے ہیں۔ بھاجپا سرکار اگر بھارت میں عورتوں کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کرے گی تو لوگ احتجاج تو کریں گے۔
ہندی کے نام پر ڈھونگ
تازہ خبر یہ ہے کہ عالمی ہندی پروگرام کا 11واں اجلاس اب ماریشیئس میں ہو گا۔ ماریشیئس کی وزیر تعلیم لیلا دیوی دوکھن نے اجلاس کی ویب سائٹ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ‘آج ہندی کی حالت پانی میں جوجتے (تگ و دو کرتے) ہوئے جہاز کی طرح ہو گئی ہے۔ اچھا ہوا کہ انہوں نے ڈوبتا ہوا جہاز نہیں کہا۔ گزشتہ ستر برسوں میں اگر ہماری سرکاروں کا بس چلتا تو وہ ہندی کے اس جہاز کو ڈبو کر ہی دم لیتیں۔ خود بھارت کی سرکاروں کو کون چلا رہا ہے؟ نوکر شاہ لوگ! یہی لوگ اصلی شاہ ہیں۔ ہمارے لیڈر تو ان کے نوکر ہیں۔ ہمارے لیڈر لوگ حلف لینے کے بعد دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خدمت گار ہیں اور رہیں گے‘ سب سے پہلا خدمت گار! اگر حقیقت میں عوام ان کے مالک ہیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ تم حکومت کس کی زبان میں چلا رہے ہو؟ عوام کی زبان میں؟ یا اپنے اصلی مالکوں‘ یعنی بھارتی نوکر شاہوں کی زبان میں؟ آج بھی پورے بھارت میں سرکاروں‘ عدالتوں اور تعلیمی اداروں کے سارے ضروری کام انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ایوان میں بحث ہندی بھی ہوتی ہے‘ کیوں کہ ہمارے زیادہ تر ایم پی انگریزی روانی سے نہیں بول پاتے ہیں اور ان کے زیادہ تر ووٹر انگریزی نہیں سمجھتے۔ لیکن اس کے برعکس ایوان کے سارے قوانین انگریزی میں ہی بنتے ہیں۔ ہندی کے نام پر صرف ڈھونگ چلتا رہتا ہے۔ 43 برس پہلے جب عالمی ہندی اجلاس ناگپور میں ہوا تھا‘ تب میں نے ‘نو بھارت ٹائمز‘ میں ایک تحریر لکھی تھی‘ ہندی میلا: آگے کیا؟ اس تحریر پر ملک میں بڑی بحث چل پڑی تھی لیکن جو سوال میں نے تب اٹھائے تھے‘ وہ آج بھی منہ کھولے اسی طرح کھڑے ہیں‘ جیسے 43سال پہلے کھڑے تھے۔ ہر عالمی‘ ہندی اجلاس میں ‘بل پاس ہوتا ہے‘ کہ ہندی کو اقوام متحدہ کی زبان بنائو۔ وہ ملک کی زبان تو ابھی تک بنی نہیں اور آپ چلے‘ اسے اقوام متحدہ کی زبان بنانے! گھر میں نہیں دانے‘ اماں چلی بُھنانے! اس اجلاس پر ہماری وزارت خارجہ کے کروڑوں روپے ہر بار خرچ ہو جاتے ہیں‘ لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج خود ہندی کی بہترین ترجمان ہیں‘ اور میرے ساتھ انہوں نے ہندی تحریکوں میں کئی بار متحرک کردار نبھایا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہیں؟ ہندی کی جانب ان کا جنون انمول ہے‘ لیکن وہ سرکار کی پالیسی ساز نہیں ہیں۔ وہ سرکار نہیں چلا رہی ہیں۔ وہ سرکار کی صحیح زبان والی تبھی بنے گی‘ جب عوام کا زبردست دبائو پڑے گا۔ جمہوری سرکاریں گنے کی طرح ہوتی ہیں۔ وہ خوب رس دیتی ہیں‘ بشرطیکہ انہیں کوئی کس کر نچوڑے‘ مروڑے دبائے‘ مسلے‘ اور کچلے! یہ کام آج کون کرے گا؟ مجھے تو پورے بھارت میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جو یہ کام کر سکے۔