کیا طالب علموں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ یہ وہ سوال تھا جو آزادی سے پہلے بھی موجود تھا۔ میں لاہور میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا۔ ہم مہاتما گاندھی یا دیگر قومی لیڈروں کی آواز پر جدوجہد آزادی کی حمایت میں کلاسوں سے کھسک جایا کرتے تھے۔
یہ احتجاجی تحریک برطانوی حکمرانوں کے خلاف تھی اور ہمیں کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ ہماری پڑھائی کا کوئی حرج ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا نعرہ بلند کیا تو ہم طلبہ نے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے خلاف مزاحمت کی۔ یہ درست ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے کچن الگ الگ تھے لیکن ہم اکٹھے ہی بیٹھ کر کھاتے تھے اور دونوں باورچی خانوں سے کھانا لے لیتے تھے۔ ماحول میں جو تفریق پیدا ہو رہی تھی ہم پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔
آج اکھل بھارتیہ ودھیاتری پریشد (اے بی وی پی) ملک کی یونیورسٹیوں میں ہندوتوا کے ایک نرم پہلو کا پرچار کر رہی ہے۔ اے بی وی پی کو آج کے دور کی مسلم لیگ کہا جا سکتا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے ایل یو) ممکن ہے کہ ہندوتوا کے سمندر میں ایک جزیرے کی مانند ہے۔ تاہم اس کا تمام تر سہرا یونیورسٹی اور اس کے طلبہ کے سر بندھتا ہے جنہوں نے جمہوریت‘ اجتماعیت اور مساوات کے فروغ کے لیے بھارت کے بنیادی عہد کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ سیکولر ازم کی خاطر ابھی بھی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
چند روز قبل نہرو یونیورسٹی کے بعض مسلمان طلبہ نے، جن کی تعداد پانچ یا چھ سے زیادہ نہیں تھی، انھوں نے ایسے نعرے بلند کیے جن میں بھارت کو تباہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جگدیش کمار نے مجھے بتایا کہ ان طلبہ کی تعداد بہت تھوڑی تھی مگر انھوں نے یونیورسٹی کا تاثر برباد کر دیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش میں ایسا تاثر پھیلانے کی کوشش کی جیسے یہ یونیورسٹی مسلم بنیاد پرستوں اور علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
حتیٰ کہ ایک ٹی وی چینل نے دن بھر جس ویڈیو کلپ کو بار بار چلایا اس میں بھی مبالغہ آمیزی کی گئی تھی۔ مثال کے طور پر وشوا دیپک کے اس دعوے پر غور کریں جس میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی چینل پر نہرو یونیورسٹی کے معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا ہے۔ جس صحافی نے چینل سے استعفیٰ دیدیا ہے اس نے لکھا ہے ’’ہم صحافی اکثر دوسروں سے تو سوال کرتے ہیں مگر اپنے آپ سے سوال نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کی ذمے داریوں کو تو متعین کرتے ہیں لیکن اپنی ذمے داری کا تعین نہیں کرتے۔ ہمیں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، مگر کیا ہماری تنظیمیں‘ ہمارے خیالات اور ہمارے ایکشن واقعی جمہوری ہیں؟ اور یہ صرف میرا سوال ہی نہیں بلکہ ہر کسی کا سوال ہے‘‘۔
میں بڑی حد تک دیپک سے متفق ہوں۔ ہم صحافی لوگ تلقین زیادہ کرتے ہیں عمل کم کرتے ہیں۔ اپنی مینجمنٹ کے نام اپنے احتجاجی خط میں دیپک نے صورتحال کو بیان کرنے کے لیے بعض الفاظ کے استعمال پر معافی بھی مانگی ہے اور کہا ہے کہ کنہیا کمار کے ساتھ اور بہت سے طلبہ کو ہم نے غدار اور وطن دشمن کا نام دیا لیکن کل اگر کوئی قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی؟ ہم نے فی الواقعی ایسی صورتحال پیدا کر دی جس کے نتیجے میں کوئی قتل ہو سکتا ہے یا کوئی گھرانہ تباہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے ملک میں فسادات پھیلانے کی صورت پیدا کر دی بلکہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی تھی۔ آخر یہ کس قسم کی حب الوطنی ہے؟ اور آخر یہ کس نوع کی صحافت ہے؟…
بہرحال میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے افضل گرو کو خراج عقیدت پیش کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا، جس پربھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پوری قوم کے لیے ایجنڈا پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جب کہ بھارت کی آبادی کی اکثریت جمہوریت اور اجتماعیت پر یقین رکھتی ہے؟ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے واقعے کو ملک میں اجتماعیت کے عمل کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ ملک پہلے ہی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے۔ درحقیقت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی لندن کی آکسفورڈ اور امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹیوں کی طرح ہے جہاں کا ماحول آزاد خیال ہے۔ اور اگر عام سوچ کے خلاف کچھ آوازیں بلند ہوتی ہیں تو انھیں روک دیا جاتا ہے۔ کوئی ان اختلافات کی وجوہات پر شک نہیں کرتا کیونکہ بنیادیں بڑی مضبوط ہیں۔
جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جواہر لعل یونیورسٹی قائم کی تو ان کا مقصد تھا کہ طلبہ ان کے والد کے خیالات سے رہنمائی لیں۔ نہرو آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں نمایاں ہوئے تھے جن کو نہ صرف کانگریس پارٹی بلکہ پوری قوم کے عظیم رہنما کا درجہ حاصل ہے۔ جنہوں نے بلاشبہ برطانیہ کے سامراجی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی قیادت کی۔ ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی کا یقیناً مقصد یہ تھا کہ ان کے والد کا نام ہمیشہ زندہ رہے کیونکہ جدید بھارت کے حقیقی معنوں میں معمار وہی تھے، جن کو کہ یاد رکھا جانے چاہیے اور ان کی پیروی کی جانی چاہیے۔
بنگلہ دیش کے پاس اس قسم کا کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن پاکستان کے پاس لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی ہے جو اپنی ساکھ میں جے این یو کے مماثل ہے۔ اس کا میں خود ذاتی طور پر تجربہ کر چکا ہوں۔ یہاں ایک لیکچر کے دوران انجینئرنگ کی ایک طالبہ نے مجھ سے پوچھا کہ جب دونوں ملکوں کے لوگ ایک جیسے ہی ہیں‘ ایک جیسا کھانا پینا اور ایک جیسا لباس پہنتے ہیں تو پھر تقسیم کیوں ہوئی۔ یہ طالبہ غیر متعصب تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس ادارے کی فضا آلودگی سے پاک تھی اور یہ بات تقریباً 4 سال پرانی ہے۔ لیکن آج مذہبی جماعتوں نے سیاسی مقاصد کے لیے معاشرے کو یرغمال بنا لیا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذہب نے یونیورسٹیوں کے اندر گہرائی تک اپنے راستے بنا لیے ہیں۔
آر ایس ایس جو اپنے ہیڈ کوارٹر ناگپور سے نریندر مودی کی حکومت کی رہنمائی کرتی محسوس ہوتی ہے اور وہ کلیدی مناصب پر ایسے افراد کو تعینات کراتی ہے جو ہندوتوا کے فلسفے پر بڑی شدت کے ساتھ کار بند ہوتے ہیں۔ ممتاز اسکالر جو اپنے سیکولر خیالات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں آر ایس ایس ان کو آگے نہیں آنے دیتی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ طلبہ ایسی آزاد خیال شخصیات سے متاثر ہوں۔
اگر ملک میں جمہوری سیاست کو فروغ دینا ہمارا مقصد ہو تو پھر مذہبی شناخت سے ماحول کو آزاد رکھنا ہو گا۔ بدقسمتی سے اس طرح دوسرے شعبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پٹیالہ ہاؤس کورٹس کے واقعے کو دیکھیں۔ چند وکلاء جن کا تعلق بی جے پی سے تھا انھوں نے اس وقت اسٹوڈنٹ لیڈر اور صحافیوں پر حملہ کر کے انھیں زدوکوب کیا جب کنہیا کمار کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا جا رہا تھا۔ کنہیا کا بیان تھا کہ اس کا ان طلباء کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا جو بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے جب کہ طلباء پر حملہ کرنیوالے وکلاء میں کئی باہر کے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے کالے کوٹ پہن رکھے تھے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ساری سیاسی پارٹیاں سر جوڑ کر بیٹھیں اور طلباء کو گمراہ نہ کرنے کا عہد کریں تا کہ وہ سنجیدگی سے اپنی توجہ صرف تعلیم حاصل کرنے پر مرکوز کر سکیں اور سیاست بازی میں وقت ضایع نہ کریں کیونکہ طلباء کا یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے جس کو بے مقصد سرگرمیوں میں ضایع کرنا پوری قوم کے نقصان کے مترادف ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)