طیفا اِن ٹربل…..مظہر برلاس
’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کامیابی سے جاری ہے۔ پہلا ہفتہ ہی کھڑکی توڑ ثابت ہو رہا ہے۔ سیاسی جلسوں کے ساتھ ساتھ سینما گھروںکی رونق بھی بحال ہوگئی ہے۔ ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ سے مجھے کئی واقعات اور کچھ حالات یاد آ جاتے ہیں مگر ان تمام باتوںکو چھوڑ دیتے ہیں۔ آج سیاسی باتیں کرتے ہیں کیونکہ سنا ہے 25جولائی کو لوگ ووٹ ڈالیں گے۔ میں بھی بنی گالہ میں ووٹ کا حق استعمال کروںگا۔
الیکشن سے پہلے کا سیاسی سنڈے بڑا جاندار رہا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اندرون سندھ میں ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ میاں شہباز شریف نے ملتان میں جلسہ کیا اگرچہ انہیں ملتان سے کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ عمران خان نے سب سے بڑے شہر میں سب سے بڑا جلسہ کر دیا۔ فیصل عزیز خان کہتے ہیں کہ جناح پارک میں اتنا بڑا جلسہ کبھی نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی والے بھی خوش نظر آرہے ہیں۔خیال ہے کہ اس مرتبہ تحریک ِ انصاف کو سندھ میں قومی اسمبلی کی 10سیٹیں ملیں گی۔ باقی کام پنجاب اور خیبرپختونخوا پورا کرے گا۔ کرپشن کے خلاف نعرہ لوگوں کے دلوں میں سرایت کر گیا ہے۔
کرپشن سے یاد آیا کہ آج کل نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل میں ہیں۔ جیل میں دن گزارنا آسان کام نہیں ہے۔ اسی لئے روزانہ کی بنیاد پر رونا پڑا ہوا ہے۔ کبھی مچھر لڑتا ہے تو کبھی گرمی ستاتی ہے۔ لارے دینے والے بھی
روزانہ سہالہ ریسٹ ہائوس کے لارے دیتے ہیں مگر ہر رات جیل ہی میں گزارنا پڑتی ہے۔ یہ عجیب جیل ہے جہاں وا ک کی خاطر کوئی باہر نکلے تو ہر طرف سے چور، چور کی آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، پتا نہیں قیدیوںکو یہ سبق کس نے پڑھایا ہے؟
لارے سے یاد آیا کہ مبینہ طور پر میاں نواز شریف کے ایک مشیر نے انہیں لارا دیا تھا کہ چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئرترین ججوںمیںشوکت صدیقی اور اطہر من اللہ شامل ہیں۔ اطہر من اللہ عدلیہ بحالی تحریک میں افتخار چوہدری کے ترجمان تھے اور صدیقی صاحب کو تو آپ جانتے ہی ہیں، آپ کو جیل میں صرف ایک دن رہنا پڑے گا۔ جونہی اپیل ہوگی اگلے دن ضمانت ہو جائے گی۔ بس یہ لارا مروا گیا۔ اب نواز شریف ملاقات کے لئے آنے والوں کو کہتے ہیں کہ ’’مجھے نکالو‘‘
میں جسٹس (ر) قیوم ملک پارٹ ٹو کی زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کوئی مہینہ ڈیڑھ پہلے علامہ راجہ ناصر عباس کا حوالہ دے کر حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا تذکرہ کیا تھااور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی اگلی کوشش یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو بدنام کیا جائے۔ پاکستانی عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے لمبا چوڑا سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کی ابتدائی قسطیں شروع ہوگئی ہیں۔ ابھی اس میں مزید اضافہ ہوگا چونکہ پاکستان کے اندر سے کئی غداروںنے پیسے پکڑ رکھے ہیں۔ ان احمقوں کو نہ اپنے ملک کی فکر ہے نہ قوم کی۔ ان کے نزدیک سب کچھ پیسہ ہی ہے۔ شاید ان کومعلوم نہیں کہ دولت کا انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ کی کتاب میں درج ہے کہ ’’مال اور اولاد فتنہ ہیں‘‘ ذرا سوچئے کہ نواز شریف نے جن بچوں کے لئے مال بنایا وہ لندن چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں بہت اچھا وقت آ رہا ہے اگرچہ اگلے چند ہفتے انتشار کی طرف لے جائیں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ بہتری کا کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کو لوٹنے والے جیلوں میں جائیں گے، کچھ جاچکے ہیں، بہت سے اور جائیں گے اور ہر جماعت کے لوگ جیل کا نظارہ کریں گے۔ کچھ نام نہاد دانشور چوروں، لٹیروں اور منشیات فروشوں کی حمایت میں گفتگو کرتے نظرآئیں گے بس ایسے لوگوں کو ایسے لوگوں کا ساتھی ہی سمجھا جائے۔
کربلا میں اسلام کےلئے جانوںکا نذرانہ پیش کرنے والوںکے سربراہ حضرت امام حسین ؑ فرماتے ہیں ’’اپنے ضمیر کی عدالت میں ضرور جایا کرو کیونکہ وہاں کبھی غلط فیصلے نہیں ہوتے…..‘‘
پیارے لوگو!
حضرت امام حسین ؓ کے اس قول کو سامنے رکھو، یاد رکھو اور پھر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرو، کیا تم ڈاکوئوں، چوروںاور لٹیروں کو ووٹ دو گے۔ کیا تم ان لوگوں کو ووٹ دو گےجنہوں نے اس ملک کو لوٹا، مقروض کیا، جن کی وجہ سے آج مسائل ہی مسائل ہیں۔ جن کی وجہ سے مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔
جنہوں نے آپ کے بچوںکو تعلیم سے محروم رکھا، جنہوں نے آپ سے صحت کی سہولتیں چھین لیں، جنہوں نے ظلم کا نظام قائم کیا، کیا تم ظالموںکا ساتھ دینا چاہتے ہو یا پھر ان لوگوں کا جو ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔ جنہوں نےانصاف اور مساوات کا راستہ اپنا رکھا ہے فیصلہ آپ کا، مرضی آپ کی، بس انور شعورؔ کے دو اشعار پڑھتے جایئے۔
مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک
مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک
دکانِ دل میں نوادر سجے ہوئے ہیں مگر
یہ وہ جگہ ہے کہ آتے نہیں لٹیرے تک