ظلمت کی طرف؟….ھارون الرشید
اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ تاریکی سے نکال کر بنی نوعِ انسان کو روشنی کی طرف لے جائے۔ ہمیں کیا ہوا کہ اللہ اور رسولؐ کے نام کا ورد کرتے ہوئے ظلمت کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
وہ کون سی کیفیت ہے ، معاشروں کو جو مضمحل کر ڈالتی ہے ۔ ان کے اندر نمو کے امکانات ہی بجھنے لگتے ہیں ؟ مدتوں کے بعد رانا صاحب تشریف لائے تو میں نے قصور کے ان دیہات کا ذکر کیا، ڈاکٹر امجد ثاقب کی رہنمائی میں دنیا فائونڈیشن کی مدد سے جن کے ایک ہزار خاندانوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ ایک ماہ قبل، اس دن کی یاد جب بھی حافظے میں جاگتی ہے ، ایک چراغاں سا ہو جاتا ہے ۔ ارد گرد کے گرد آلود گائوں کے برعکس سو فیصد بچّے تعلیم پا رہے ہیں ۔ گلیاں ایسی اجلی جیسے ترقی یافتہ دنیا کا کوئی شہر ہو۔ نام و نشان تک کوڑے کرکٹ کا نہیں ۔ درونِ خانہ ہی نہیں ، مکان کے سامنے بھی گندگی وہ جمع ہونے نہیں دیتے ۔ بلا سود قرضوں کے طفیل ان کی آمدنیاں دوگنی ہو چکیں۔ صدیوں کے بعد باقاعدگی سے زمین ہموار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ پانی کم استعمال ہوتا اور پیداوار 50 سے 100 فیصد تک بڑھ گئی ہے ۔ تین برس میں ایک ہزار پھل دار درخت لگائے جا چکے ۔ باہمی جھگڑے برائے نام رہ گئے ، جو دیہی زندگی کا سب سے اذیت ناک باب ہوا کرتا ہے ۔ چہار جانب ایک امید سی جھلکتی ہے ۔ جنہوں نے کبھی خواب نہ دیکھا تھا ، اب وہ خواب دیکھتے ہیں ۔ نئے زمانے کے تقاضوں سے وہ ہم آہنگ ہوتے جا رہے ہیں۔
خاموشی سے رانا صاحب میری بات سنتے رہے ۔ وہ ایک سیانے ، جہاندیدہ اور گہرے آدمی ہیں ۔ گفتگو تمام ہوئی تو اپنے علاقے کا ممتاز زمیندار مسکرایا اور اس نے کہا : خود بھی میں یہ تجربہ کر چکا ہوں۔
حیرت زدہ میں نے سوال کیا کہ کب اور کیسے ؟ اس رسان کے ساتھ، جو کامیاب لوگوں کا شیوہ ہے… اور اس لہجے میں جو ظفر مندوں کو زیبا ہے ، انہوں نے کہنا شروع کیا: میرے علاقے میں کاشتکاروں کا حال پتلا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اس خوش حالی کا کیا لطف جو میری حویلی تک محدود ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ میں ایک جدید کاشتکار ہوں ۔ رزق اللہ نے فراوانی سے عطا کیا ہے؛ چنانچہ ایک دن فیصلہ کیا کہ اپنے تجربے اور زائد سرمایے سے پڑوسیوں کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی جائے۔
ایک بڑے اور باخبر زمیندار کی حیثیت سے رانا صاحب کھاد کی خریداری کا ایک نظام رکھتے تھے، موزوں قیمت پر بروقت ۔ بہترین اور قابلِ اعتماد کمپنیوں سے کرم کش ادویات کی خریداری۔ سب سے بڑھ کر بہترین بیج ، اکثر کی جن تک رسائی نہیں ہوتی۔
لگ بھگ اسی زمانے میں ، جب دنیا فائونڈیشن کے تحت قصور کے دیہات میں انقلاب کا آغاز ہوا، رانا صاحب نے تین دیہات کے مکینوں کو ان سب چیزوں کی پیشکش کی۔ قیمتِ خرید پر اور یہ کہا کہ فصل برداشت کرنے کے بعد ادائیگی کر دیا کریں ۔ جن کھیتوں میں دھان کی پیداوار 25 سے 30 من ہوا کرتی تھی ، اب ان کی بافت 50 من کو پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا۔ ان کے انداز میں ایک گہری آسودگی تھی، جیسے کوئی باپ اپنے بچوں کی کامرانی پہ شاد ہو۔
پھر انہوں نے یہ کہا : اس ملک کی خوش حالی ایک دیوار کے فاصلے پر ہے ۔ اگر کوئی درد مند ہو، معاملات اگر صاحبِ احساس لوگوں کے ہاتھ میں ہوں ۔ رانا صاحب کبھی ایوانِ اقتدار میں جگمگاتے تھے ۔ سیاست سے اب بھی ان کا تعلق ہے مگر پہلے کے سے سرگرم نہیں۔ پوٹھو ہار کا شاعر باقی صدیقی یاد آیا:
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
کہا کہ بیج جب ناقص ہو ، کھاد چور بازاری میں خریدنی پڑے اور ستر فیصد سے زیادہ کرم کش ادویات جعلی ہوں تو بربادی کے سوا کاشتکار کے حصے میں کیا آئے گا ۔ پھر انکشاف کیا کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ایک لاکھ روپے سے کم نہیں ۔ کاہلوں اور کسل مندوں کے سوا ، ان کے ہاں سبھی کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
کیسے بے درد لیڈروں کو اس قوم نے اپنے معاملات سونپ رکھے ہیں ۔ ہر سال دس ارب ڈالر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ دس لاکھ ملازمتیں یعنی پچاس لاکھ افراد کی خوش حالی کا سامان ۔ عمل تو کجا، کبھی کسی حکومت نے اس مکروہ عمل کو روکنے کی منصوبہ بندی تک نہیں کی۔ کریں بھی تو کیسے کہ ملک کا حکمران خاندان ، اپوزیشن لیڈر ، سبھی اس کارِ خیر میں ملوث ہیں۔ اندازہ ہے کہ ملک میں ہر روز بارہ سے بیس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ ایک آدھ نہیں ، سینکڑوں اور ہزاروں احد چیمے ہیں ، جن کے سر پر اقتدار والوں کا سایہ ہے ۔ باقیوں کا حال بھی برا ہے لیکن کاشتکار تو بالکل ہی برباد ہو گئے ۔ گنے کی ٹرالیاں لے کر وہ شوگر ملوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں ۔ گھنٹوں نہیں ، بعض اوقات کئی کئی دنوں تک۔ بیشتر نرے ٹھگ۔ بعض تو سالہا سال تک ادائیگی نہیں کرتے۔ اب کی بار تو بعض کسانوں نے کھیتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔
فرانس کے صدر شیراک یاد آئے۔ اٹھارہ برس تک جو پیرس کے میئر رہے ، وزیرِ خزانہ اور وزیرِ زراعت بھی ۔ پھر وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور طویل عرصے تک اس منصب پہ براجمان رہے۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ یہ کسان اتحاد کے رفیع خان تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج انہیں طلب کیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی وہ حکم صادر کر چکے لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا۔ امید ہے کہ شام سات بجے تک ایک واضح فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ ٹھگوں کو پابند کیا جائے گا ۔ برسوں سے دبا کر رکھے گئے اربوں روپے کاشتکاروں کو ادا کیے جائیں۔
صدر شیراک کا ذکر بیچ میں رہ گیا۔ انہیں عصرِ حاضر کا ڈیگال کہا گیا کہ یورپی یونین میں فرانس کی شمولیت انہوں نے ممکن بنائی۔ فرانسیسی کرنسی کو استحکام بخشا اور عسکری اعتبار سے ملک کو برطانیہ کا ہم پلہ بنا ڈالا۔
2007ء میں شیراک کے بارے میں چند شکایات سامنے آئیں ۔ پتہ چلا کہ پیرس کے میئر کی حیثیت سے وہ اپنی پارٹی کو مالی فوائد پہنچانے کا ذریعہ بنے تھے، قومی خزانے کو جس سے نقصان پہنچا۔ یہ لوٹ مار کے سنگین الزامات نہ تھے، جیسے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور صدر زرداری پہ عاید کیے جاتے ہیں ۔ وہ کالا دھن سفید کرنے کے مرتکب نہ ہوئے تھے‘ نہ ہی اقتدار میں رہتے ہوئے درجنوں کارخانے تعمیر کیے تھے۔ بظاہر معمولی شکایات تھیں مگر عدالت نے سنجیدگی سے ان کا جائزہ لیا۔ 69 سالہ قومی ہیرو اس دوران علیل ہو گیا۔ ہمدردی کا اظہار ان سے کیا گیا مگر مقدمے کی کارروائی جاری رہی۔ آخر کار عدالت نے انہیں دو برس قید کی سزا سنا دی۔
کوئی جلوس نکلا اور نہ ہنگامہ ہوا ۔ اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے ان کی صاحبزادی نے کہا: یہ ایک سخت فیصلہ ہے ، مگر آزادانہ اور منصفانہ۔ خاندان کو اذیت سے گزرنا ہو گا مگرکیا کیجیے۔
پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ، فرانس نہیں مگر تین صدیاں ہوتی ہیں ، جب ایک فرانسیسی شاعر نے کہا تھا: تاریخ نے صرف ایک انقلاب دیکھا ہے اور وہ محمد عربیؐ کا برپا کردہ انقلاب تھا۔
آخر کار مغرب نے سرکارؐ کی بعض تعلیمات کو اپنا لیا۔ نمایاں ان میں سے ایک یہ تھی : وہ قومیں برباد ہوئیں، کمزوروں کو جو سزا دیتی اور طاقتوروں کو چھوڑ دیا کرتی تھیں۔
متحدہ مجلسِ عمل کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا ارشاد یہ ہے کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کا فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔
خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ تاریکی سے نکال کر بنی نوعِ انسان کو روشنی کی طرف لے جائے۔ ہمیں کیا ہوا کہ اللہ اور رسولؐ کے نام کا ورد کرتے ہوئے ظلمت کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔