منتخب کردہ کالم

عارفہ للہ میری ہستی، میں حِبّہ خاتون…ڈاکٹر صغرا صدف

عارفہ للہ میری ہستی، میں حِبّہ خاتون…ڈاکٹر صغرا صدف

ہرروز سورج کے طلوع ہونے کا مقصد کائنات میں زندگی کے تسلسل کی علامت ہے۔ صبح کا اُجالا ایک نئی اُمید کا پیامبر ہوتا ہے مگر زندگی اتنی میکانکی ٹھہری کہ ہر پل نفع نقصان سے جڑے علت و معلول کے چکروں میں الجھی رہتی ہے۔ اصل مسئلہ ذات کے اندر اور باہر کے تضادات کا ہے۔ دونوں کے درمیان رابطے کا سوئچ بے معنی بھاگ دوڑ میں بورڈ سے منقطع ہو چکا ہے اس لئے مصنوعی اور مادی آسائشوں سے سکون تلاش کرنے کی جدوجہد بھی کامیاب نہیں ہو پا رہی بلکہ تلخی اور تضاد میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ سورج کی روشنی، گرمی اور چمک ویسی ہی ہے مگر انسان کے سخت رویے اور نفرت پر مبنی جذبات نے فضا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس نفرت اور تعصب کی کئی شکلیں ہیں مگر ہر شکل شر کو طاقت ور کرتی جا رہی ہے جس سے موسموں میں شدت کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔
کبھی سائنس کے طلبہ مردہ جانوروں کے اجسام کو پرزہ پرزہ کر کے علاج کی تفہیم آسان بنانے کی مشق کرتے تھے مگر اب مفادات کے حصول کے لئے زندہ انسانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی راتوں رات ارب پتی بننے کے لئے امراض کا خوف پھیلا کر دوائیوں کو لازم و ملزوم کر دیا جاتا ہے، کبھی کسی ملک کو کمزور کرنے کے لئے مذہبی، لسانی اور فرقہ واریت کی بنا پر پھوٹ ڈال کر وہاں کے لوگوں کو اس طرح ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کر دیا جاتا

ہے کہ وہ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے درمیان صدیوں کے فاصلے قائم ہو جاتے ہیں۔ شیرازہ بکھرنے لگے تو قوم کہاں باقی رہتی ہے؟ انسانوں کے استعمال کا خطرناک کھیل اس صدی کے چہرے پر کالک کی طرح نمایاں رہے گا۔ تاریخ کے اوراق میں یہ وہ دور کہلائے گا جب انسان نے عقل و شعور سے ایجادات کی بلندیاں چھونے کے ساتھ ساتھ مفادات کے لئے انسان کو اذیت ناک صورت حال سے دوچار کیا۔ شام، کشمیر، فلسطین سمیت کئی ممالک میں جاری ظلم و ستم کی تصویریں ہر روز میڈیا اور سوشل میڈیا پر حساس لوگوں کا جینا دوبھر کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ظلم کرنے والوں کے ہاتھ کانپتے ہیں نہ ارادے متزلزل ہوتے ہیں۔ کشمیر تو دنیا میں جبر کے ضابطوں کی عجیب مثال ہے۔ چار ہزار قبل مسیح کی تاریخ کی حامل قوم پر ظلم و ستم کی داستان بہت پرانی ہے۔ مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں نے اس خوب صورت وادی کے باشندوں کو معاشی، معاشرتی اور مذہبی استحصال کا نشانہ بنایا۔ بقول محمد حسین آزاد:
’’ اس زمانے میں کشمیر کا جو مسلمان گھرانہ دونوں وقت پیٹ بھر کر روٹی کھاتا تھا اسے امیر گھرانہ تصور کیا جاتا تھا۔ عام مسلمان سبزی ترکاری پر گزر بسر کرتے تھے کیونکہ جب فصل تیار ہوتی تھی تو بیربل کے غنڈے مسلمانوں سے چھین کے لے جاتے تھے‘‘۔
گلابو جو بعد میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے نام سے جانا گیا ایک معمولی سپاہی تھا۔ آغاز منگلہ کے حلقہ دار کے اردلی سے کیا۔ کچھ عرصہ بھمبھر کے راجہ سلطان خان کے اصطبل کا داروغہ بھی رہا۔ اس کی ڈیوٹی رنجیت سنگھ کے خیمے کے باہر کیا لگی اس کی قسمت جاگ گئی۔ اپنے قد و قامت، شجاعت اور خدمت کے عوض مہاراجہ نے اسے جموں کی جاگیر کا منتظم بنا دیا۔ 1840ء میں رانی جنداں (بیوہ رنجیت سنگھ) کی ایماپر پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا تو سکھوں اور انگریزوں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں سکھ دربار کو انگریزوں سے لڑائی کے ہرجانے کے طور پر ایک کروڑ روپیہ رقم تاوان ادا کرنے کو کہا گیا۔ لاہور دربار نے اس رقم کے عوض جموں و کشمیر کے علاقے انگریز سرکار کے حوالے کر دیئے۔ بعد ازاں انگریزوں نے معاہدہ امرتسر کی رو سے یہ علاقے 75 لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض گلاب سنگھ کو فروخت کر دیئے اور 25 لاکھ کی رقم کے عوض کلو اور منڈی کے علاقے اپنے ماتحت رکھ لئے۔
تجارت پیشہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 16 مارچ 1846ء میں صرف پچھتر لاکھ نانک شاہی روپوں میں چالیس لاکھ جیتے جاگتے انسانوں، دلفریب وادیوں، پھلوں، پھولوں اور سرسبز کھیتوں، پہاڑوں، دریائوں، جھیلوں اور آبشاروں کو ڈوگرہ راج کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انسانوں کی خرید و فروخت کی ایسی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔
انگریز برصغیر سے چلے گئے، پرانے نظام اور ضابطے ختم ہو گئے، پاکستان وجود میں آ گیا مگر اکثریتی مسلم علاقوں کی طرح کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بننے دیا گیا اور خرید و فروخت کے اس کالے قانون کو بنیاد بنا کر کشمیر کو بھارت میں شامل رہنے دیا گیا جو آزادی کے بعد کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ لاکھوں لوگوں کی رائے کے برعکس فردِ واحد کے فیصلے کو ایک جمہوریت کے علمبردار ملک نے اپنی ڈھال بنا کر استعمال کیا اور پھر رفتہ رفتہ اسی پر جم گیا مگر اخلاقی اور انسانی قدروں کی ترجمان دُنیا نے آج تک اس مسئلے پر سوچنے اور کچھ کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی جب کہ پاکستان کو کشمیر کی حمایت سے باز رکھنے کی غرض سے اندر سے کمزور کرنے کی سازش رچائی گئی۔ مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے اور مرکز کے خلاف اُکسایا گیا۔ حریت پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کی بیوی جو بڑی جرأت سے نہ صرف اپنے حریت پسند خاوند بلکہ پوری کشمیری قوم کی ترجمانی کر رہی ہیں اس بار یوم یکجہتیٔ کشمیر پر اُنہوں نے پاکستانی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر کی آواز بنیں۔ مختلف ممالک میں وفود بھیجیں اور کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر اقوامِ عالم کو متحرک کرنے میں ہمنوا بنیں۔
کشمیر صوفیاء کی پسندیدہ سرزمین ہے۔ ترکی، ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے صوفیاء کشمیر کی پرفضا اور پرامن وادی میں خلوت نشینی اور ریاضت کے لئے آتے تھے۔ یہاں کے نظارے ان کے لئے فلسفہ ٔ وحدت الوجود کی تفہیم کا باعث بنتے تھے۔ سید علی ہمدانی، نور الدین رشی، سید عبد الرحمن عرف بلبل شاہ کا شمار انہی صوفیاء میں ہوتا ہے جن کے کردار اور گفتار سے متاثر ہو کر 500 سال تک بدھ مت کے زیر اثر وادی نے اسلام کی طرف سفر شروع کیا۔ للہ عارفہ اور حِبّہ خاتون کی یہ سرزمین ہر پاکستانی کے دل کے قریب ہے۔ اگر ہم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کا نام دیتے ہیں تو ہمیں اس کے لئے حکمتِ عملی بھی وضع کرنی ہو گی۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف ہم تبھی بڑھ سکتے ہیں جب ہم اپنے اندرونی خلفشار پر قابو پا کر ملکی وقار کو اپنی ترجیح بنا لیں۔
میرا مان ہے نیلم، بہتا جہلم مری شال
میں دو میل سراپا، میں ہوں تیز ہوا کی شال
بہتے چشمے نغمے میرے اور قلم شمشیر
آنچل میرا، تیرے لئے ہے ایک عَلم کشمیر
عارفہ للہ میری ہستی، میں حِبّہ خاتون