عازمین حج کے لیے….مفتی منیب الرحمٰن
امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ سے حضرت سید محمد احسن بریلوی نے فرمائش کی :”میرا حج پر جانے کا ارادہ ہے اور بھی لوگ جاتے رہتے ہیں ‘ آپ حج کے طریقے اور آداب پر کچھ ضروری باتیں لکھ کر طبع کرادیں تاکہ سب کوفائدہ ہو‘‘۔آپ نے قلم برداشتہ ”انوارُ البَشَارَۃ فِیْ مَسَائِلِ الْحَجِّ وَالزِّیَارَۃ‘‘کے عنوان سے ایک مفصل رسالہ لکھ کر طبع کرادیا جو فتاویٰ رضویہ جلد :10میں شامل ہے۔میں اس رسالے کے بعض مندرجات کو عام حجاج کے استفادے اور اصلاح کے لیے آسان انداز میں پیش کر رہا ہوں۔
امام احمد رضا قادریؒ نے لکھا: سب سے اہم یہ کہ اس سفر سے مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کی رضا ہونی چاہیے ۔حج کے لیے روانگی سے قبل جس کا قرض یا امانت ہو‘اُسے واپس کرے ‘اگر فوری طور پرپورے قرض کی واپسی کے وسائل نہیں ہیں ‘ تو جو ادا کرسکتا ہو وہ ادا کرے اور باقی کے لیے اُن سے مہلت طلب کرے۔ جن کا ناحق مال لیا ہو ‘انہیں واپس کرے یا معاف کرائے‘ مالک کا پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پرصدقہ کرے ‘ کیونکہ ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہوا مال در حقیقت اُس کی ملکیت نہیں ہوتا‘پس جتنی جلدی ممکن ہو اُسے اپنی مِلک سے نکالے ۔ماضی کی قضانمازیں ‘ روزے ‘ زکوٰۃ ‘ الغرض جتنی عبادات واجب تھیں اور اُن سے عہدہ برآ نہیں ہوا ‘ اللہ تعالیٰ سے اس حکم عدولی پر صِدقِ دل سے توبہ کرے اور پھر شریعت کے مطابق اُن کی تلافی کرے ‘ اس کے باوجود اُن کا قبول ہونا اللہ تعالیٰ کے کرم پر موقوف ہے۔بالغ ہونے کے بعد جتنی قضا نمازیں ‘روزے اور زکوٰۃ بدستور واجب ہے‘ اُن کی اس وقت تک قضا کا اہتمام کرے ‘جب تک وہ اُن سے عہد برآ نہیں ہوپاتا۔ اگر یہ بے شمار ہیں ‘تو اندازے کے مطابق ان سے عہدہ برآ ہونے کو حسبِ توفیق اپنی زندگی کے معمولات کا حصہ بنا ئے۔
جن حق داروں کی اجازت کے بغیر سفر مکروہ ہے‘ جیسے ماں باپ (اولاد کے لیے)اور شوہر (بیوی کے لیے)‘حتی الامکان انہیں رضا مند کرے ‘اگر وہ کسی طور پر بھی رضامند نہ ہوں تو پھر حجِ فرض پر چلا جائے ‘ کیونکہ اُن کا روکنا اللہ کے فرض سے روکنا ہے اور اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:”ایسے امور میں (غیر اللہ کی) اطاعت جائز نہیں ہے ‘جن میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے‘ (حق داروں کی) اطاعت صرف نیک کاموں میں روا ہے‘ (صحیح مسلم:1840)‘‘۔کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے ہر صورت جانا ہی ہے ‘ تو والدین اور شوہر سے اجازت طلب کرنے کا کیوں کہا گیا‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اولاد اور بیوی کے لیے باعثِ سعادت ہے اوراجر کا باعث ہے اور ماں باپ اور شوہر کو بھی چاہیے کہ بخوشی اجازت دیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور حق سے تجاوز کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘(المائدہ:2)‘‘۔
سفرِ حج میں عورت کو جب تک شوہر یا مَحرم کی رفاقت میسر نہیں‘ وہ حج پر نہیں جاسکتی ‘ اگر جائے گی تو فقہی اعتبار سے حج تو ادا ہوجائے گا‘ مگر گناہگار ہوگی۔مصارفِ سفر اور زادِ راہ مالِ حلال سے ہوں ‘ورنہ حج کے قبول ہونے کی امید نہیں ہے‘ البتہ فرض ساقط ہوجائے گا۔حسبِ توفیق اپنی ضرورت سے زیادہ زادِ راہ لے کر جائے تاکہ اپنے احباب اور ضرورت مندوں پر بھی کچھ خرچ کرسکے ‘یہ حجِ مبرور کی نشانی ہے ۔مسائلِ حج وعمرہ اورزیارات پر کوئی عام فہم کتاب لے کر جائے یا کسی عالم سے رہنمائی حاصل کرے یابہارِ شریعت حصہ ششم یاحج وعمرہ پر کسی مستند عالم کی کتاب اپنے پاس رکھے۔ اکیلے سفر نہ کرے کہ یہ منع ہے ‘البتہ بے دین رفیقِ سفر سے اکیلا رہنا بہتر ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کسی سفر میں تین افراد ہوں ‘تووہ آپس میں سے ایک کو امیر بنا لیں‘ (سنن ابودائود:2608)‘‘۔ اُس شخص کو امیر بنانا بہتر ہے جو بااخلاق‘ دین دار‘ معاملہ فہم اور خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔
سفر پر روانگی سے پہلے اپنے حق داروں‘دوستوں عزیزوں سے ملے ‘ کسی کی حق تلفی کی ہو یا کوئی ناراض ہو تو اُس سے معافی مانگے اور راضی کرے اور اُن کو بھی چاہیے کہ خوش دلی سے راضی کریں‘ حدیثِ پاک میں ہے: ”جس نے اپنے بھائی سے (اپنے کسی قصور پر) معافی مانگی اور اُس نے اسے قبول نہیں کیا‘ تو اُسے ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے مالی واجبات وصول کرنے والے کو خیانت پر ہوتا ہے ‘ (سنن ابن ماجہ: 3718)‘‘۔ اپنے خطار کار کو معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ‘ سورۂ النور ‘آیت: 22میں خطاکاروں کو معاف کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ”اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں ‘کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری خطائوں کوبخش دے‘‘۔ یعنی اگر یہ چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے قصوروں کو معاف فرمائے تو تم بھی اپنے قصور وار کو معاف کردیا کرو۔ رخصت ہوتے وقت سب سے دعا کی درخواست کرے ‘ گھر پر چار نفل پڑھ کر نکلے ‘ یہ واپسی تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان کا وسیلہ بنیں گے اور گھر سے نکلتے وقت ”بِسْمِ اللّٰہِ وَآمَنْتُ بِاللّٰہِ وَتَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ‘‘پڑھ کر یہ دعا مانگے‘(ترجمہ:)”اے اللہ !ہم اس سے تیری پناہ چاہتے ہیں کہ ہم لغزش کھائیں یا کوئی ہمیں لغزش دے‘ ہم گمراہ ہوں یا کوئی ہمیں گمراہ کرے ‘ ہم کسی پر زیادتی کریں یا کوئی ہم پر زیادتی کرے‘ ہم کسی سے ہٹ دھرمی کریں یا کوئی ہم سے ہٹ دھرمی کرے‘‘۔اسی طرح گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگے: ”اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور ایسے کاموں کی توفیق طلب کرتے ہیں جو تجھے پسند ہوں‘ اے اللہ!اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرمادے اور اس کی مسافت کو ہمارے لیے لپیٹ دے (یعنی آسان فرمادے)‘ اے اللہ! سفر میں بھی تو ہمارا رفیق ہے اور گھر کا نگہبان بھی تو ہے ۔اے اللہ!ہم سفر کی مشقتوں ‘ تکلیف دہ صورتِ حال پیش آنے اور اپنے مال اور اہل میں ناخوشگوا ر تبدیلی آنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں‘‘۔اور جب سفر سے واپس آئے تو مذکورہ بالا کلمات کے بعد یہ دعا مانگے: ”ہم (عافیت کے ساتھ ) لوٹنے والے ‘(اللہ کی بارگاہ میں )توبہ کرنے والے ‘(اُس کی توفیق سے)عبادت کرنے والے اوراپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں‘(صحیح مسلم:1342)‘‘۔بلندی پر چڑھتے ہوئے ”اللہ اکبر‘‘ اور پستی کی طرف اترتے وقت ”سبحان اللہ‘‘ کہے ۔ کوئی چیز گم ہوجائے تو ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘یا ”اِنَّہٗ عَلٰی رَجْعِہٖ لَقَادِر‘‘ یا”یَاجَامِعَ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّارَیْبَ فِیْہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد اِجْمَع بَیْنِیْ وَبَیْنَ ضَالَّتِیْ‘‘پڑھے ۔
حج مشقت کی عبادت ہے ‘اگرچہ ماضی کے مقابلے میں آج کل حجاجِ کرام اور زائرینِ حرمین طیبین کو جو سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں ‘پہلے ان کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود حج مشقت کسی نہ کسی صورت میں باقی ہے اور انسانی ہجوم نے مشقت کی نئی صورت اختیار کرلی ہے ‘جس میں تخفیف کے لیے سعودی حکومت ہر سال کثیر مالی وسائل صَرف کرتی ہے ‘ توسیع ‘ تزئین اور تعمیر کا کام جاری رہتا ہے ‘ لیکن اس کے باوجود انسانوں کے ہجوم میں سال بہ سال اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ اس لیے حجّاج کرام کو کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اورکوئی ناخوشگوار صورتحال پیش آنے پرمغلوب الغضب نہیں ہونا چاہیے۔بہت سے لوگ اپنا زیادہ تر وقت معلّمین اور اُن کے کارندوں کو کوسنے اور گِلے شکوے میں گزار دیتے ہیں ‘ جس کا ماحصل غیبت اور بدگوئی کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘ اس کی بجائے انہیں حسبِ توفیق طواف ‘ نوافل ‘تلاوت ‘اذکار وتسبیحات اورنبی ﷺ پر درود پڑھنے میں گزارنا چاہیے اور اپنے لیے اور اُن لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے اصلاحِ احوال کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔
سیلفی بنانا ایک عالَمی متعدی بیماری بن چکی ہے ‘ اس کی کثرت بھی عبادات میں حضوریِ قلب سے ‘جوکہ روحِ عبادت ہے ‘ محروم کردیتی ہے اور لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہر مرحلے کی تصویریں وٹس اپ کے ذریعے اپنے دوست احباب اور عزیز وں کو ارسال کریں ‘اُن مقاماتِ مقدّسہ میں یہ شوق‘ اجر ضائع کرنے کا باعث ہے ‘اس سے اجتناب کرنا بدرجہا بہتر ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حجاجِ کرام اور زائرین یہ وقت اپنے اُن دوستوںاور عزیز واقارب کے لیے دعا میں صَرف کریں ‘کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ”(وہ دعائیں جن کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت یقینی ہے ‘اُن میں )کسی کے پسِ پشت اُس کے لیے دعائے خیرکرنا ہے‘‘ ، کیونکہ اس کا مُحَرِّک صرف اور صرف اخلاص اور لِلّٰہیت ہوتی ہے‘جبکہ سامنے کی دعا میں ریا اوربندے کی خوشنودی کا امکان ہوسکتا ہے ‘ لیکن غیاب کی دعا میں ہرگز نہیں۔حجاجِ کرام اور زائرین کو چاہیے کہ اپنے لیے ‘اپنے والدین وجملہ اہلِ ایمان آباء واجداد ‘ اپنے حق داروں ‘ احباب اور عزیزوں کے لیے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ اور اپنے وطنِ عزیز کے لیے بھی دعا کرتے رہیں ۔اہل پاکستان کو بیرونِ ملک اپنے سیاسی اختلافات اور نفرتوں کا اظہار کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت ‘ دلداری اور ہمدردی کا رویّہ رکھنا چاہیے ۔
ہمارے ہاں حجاجِ کرام کی تربیت کے پروگرام تو بہت ہوتے ہیں ‘ارکانِ حج اور ادائے حج کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیںاوربلاشبہ یہ ضروری ہے ۔ لیکن میرے نزدیک سب سے اہم شعبہ نظر انداز ہوجاتا ہے اور وہ ذہنی اورفکری تطہیرہے ۔حج و عمرہ اور عبادات وزیارات کی سعادت کو سمیٹنے کے لیے یہ شعبہ سب سے اہم ہے ۔ہمیں اپنے قلب وروح اور ظاہر وباطن کوگناہوں کی آلودگی سے پاک کرنے اور پاک رکھنے کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے ساری زندگی اُس پرکاربند رہنے کی دعا کریں اور توفیق مانگیں ۔پس ان میں سے بیش تر باتیں عام زندگی میں بھی برتنے اور اختیار کرنے کی ہیں۔حرمِ مکی میں عبادت کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے ‘حسبِ توفیق نوافل ‘تلاوت اور اذکار ودرودوتسبیحات پڑھ سکتے ہیں ‘لیکن وہاں کی سب سے اہم عبادت بیت اللہ کا طواف ہے‘ کیونکہ یہ عبادت حرم سے باہر میسر نہیں ہے۔اسی طرح مسجدِ نبوی میں جب بھی موقع ملے ‘رسول اللہ ﷺ کے مواجہۂ اقدس میں حاضر ہوکر نہایت ادب کے ساتھ پست آواز میں صلوٰۃ وسلام پیش کریں۔اگر آپ جوان اور صحت مند ہیں تو بوڑھوں ‘معذوروں اور ضعیفوں کی حتی الامکان مدد کریں ۔