عالمی تجارت‘ نئے دور کا ایک تجزیہ….نذیر ناجی
(آخری قسط)
”صدر ٹرمپ کے حربے جتنے بھی احمقانہ اور بے ربط ہوں‘ آسانی سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ یہ پتہ بھی چل جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہتے ہیں؟ فولاد اور ایلومینیم پر ٹیرف عائد کر کے صدر کی بنیاد مضبوط کرنے اور امریکہ کے تجارتی رفقا کو ہلانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے‘ امریکہ پر اپنی اہمیت ثابت کر سکنے والے تجارتی رفقا کو مشروط استثنا دے دیا ہے۔ جہاں ٹرمپ اوول آفس میں سکون سے بیٹھے ہیں‘ وہاں دنیا بھر کے رہنما امریکہ کو پیش کرنے کے لیے جتنی رعایات دے سکتے ہیں‘ انہیں جمع کر رہے ہیں تاکہ تجارتی جنگ سے بچا جا سکے اور معاملات میں تفہیم پیدا کی جا سکے۔ امریکہ جنوبی کوریا کو’ ‘امریکہ جنوبی کوریا فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘ ‘پر مذاکرات میں پہلے ہی رعایت دے چکا ہے لیکن اس ڈیل کا حتمی ہونا شمالی کوریا کے ساتھ اس کی سفارتی مینجمنٹ پر منحصر ہے۔ جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے(Shinzo Abe)، جنہیں ابھی تک ٹیرف سے استثنا نہیں ملا‘ چین کی طرف سے خلاف ورزیوں پرڈبلیو ٹی او کے ذریعے مشترکہ رابطہ کاری کی پیشکش کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی بحر الکاہل میں امریکہ کے ایک اہم سکیورٹی اتحادی کے طور ‘جاپا ن اپنے پتے کھیل رہا ہے۔ فرانسیسی صدر عمانویل میکرون‘ جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے‘ چین کے خلاف ڈبلیو ٹی او کے ایسے ہی مربوط اقدام کی تجاویز پیش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی صدر ٹرمپ کی نیٹو کے حوالے سے تشویش دور کرنے کی غرض سے دفاع پر زیادہ رقوم خرچ کرنے کے وعدے کر رہے ہیں۔ جرمنی‘ فرانس کو خفا کر کے واشنگٹن کو‘ اقتصادی اعتبار سے اشتعال دلانے والے عوامل رفع کرنے کی کوشش کر رہا ہے مثلاً یورپی یونین میں فرانس کی زیرِ قیادت ڈیجیٹل ٹیکس کی تجویز جس کا ہدف براہِ راست امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجیکل کمپنیاں ہوں گی۔ جرمنی بھی امریکہ کے ساتھ ایک نئی تجارتی ڈیل کرنے کی غرض سے گفت و شنیدکی پیشکش کر رہا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تبادلے میں ان تجارتی رفقا میں سے کوئی ملک ایران پر پابندیاں عائد کرنے میں تعاون کرتا ہے یا نہیں۔
ان مذاکرات کے درمیان جو سوال‘ جواب طلب رہ گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس اپنے اگلے اقدامات کا فیصلہ کرتے وقت‘ ابھرتے ہوئے عالمی سٹریٹیجک ماحول پر کافی غور و غوض کرے گا یا نہیں۔ امریکہ ما بعد سرد جنگ عبوری عرصے میں اپنا توازن کھو چکا ہے لیکن بڑی طاقتوں کی دشمنی عالمی میدان میں واپس آ رہی ہے۔ امریکہ اپنی دفاعی حکمت عملیاں ترتیب دے رہا ہے تو یوریشیا سے ایک خطرہ ابھر رہا ہے کیونکہ چین اور اس کا دم چھلا روس‘ امریکہ کی زیر قیادت قائم شدہ نظام کو چیلنج کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ اس ماحول میں امریکہ اپنی سلامتی کو چیلنج کرنے والے یوریشیائی خطرے کو محدود کرنے اور اس سے بچنے کی غرض سے مختلف قسم کے ذرائع بشمول یورپ، جنوبی کوریا، جاپان اور بھارت جیسوں کے ساتھ اپنے سکیورٹی اور کمرشل اتحاد استعمال کرے گا۔ اگر وائٹ ہاؤس کے قومی اقتصادی ایجنڈے کا عالمی سٹریٹجک ماحول کے ساتھ تعلق کمزور رہا تو اتحادیوں کو امریکہ کے بطور سکیورٹی ضامن‘ اس کی ساکھ پر سوال اٹھانا پڑے گا۔اس کے ساتھ ہی امریکہ کا چین پر اقتصادی حملہ اس وسیع تر سٹریٹیجک ڈھانچے میں پورا بیٹھتا ہے۔ چین اپنے عالمی اقتصادی پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ سٹریٹیجک تجارتی راستوں، وسائل اور منڈیوں کو امریکہ کی مداخلت سے بچانے کے جدید تقاضوں سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی قیمت پر چین کا بحری پھیلاؤ اور سٹریٹیجک ٹیکنالوجیوں میں اقتصادی خود انحصاری‘ بنیادی طور امریکہ کی بحری برتری برقرار رکھنے اور یوریشیائی چیلنجر کو ابھرنے سے روکنے کے تقاضے کے خلاف ہے۔
رسد کے مربوط سلسلوں اور تجارتی انحصار کے اس جدید دور میں‘چین کو تجارت کے میدان میں حدود کے اندر رکھنا زیادہ پیچیدہ ہے۔ چین جیسی بڑی اقتصادی طاقت کے خلاف کوئی بھی چال پلٹ کر امریکہ کو بآسانی نقصان پہنچا سکتی ہے اور یہ معاملہ اسے الٹا پڑ سکتا ہے۔ تجارتی تعلقات ایک فریق کی ہار اور دوسرے فریق کی جیت نہیں ہوتے ۔ڈبلیو ٹی او کی تقریباً آفاقی رکنیت اب 98 فی صد عالمی تجارت کا احاطہ کر رہی ہے تو امریکہ سرد جنگ جیسا وزن نہیں رکھتا۔ چین منڈیوں تک رسائی برقرار رکھنے کی غرض سے ڈبلیو ٹی او کے میکانزم اور امریکہ کی چین جیسے ملکوں کی تجارتی خلاف ورزیوں پر‘ انہیں زیادہ قابل احتساب بنانے کی اصلاحی کوششوں کو ناکام بنانے کی غرض سے‘ ڈبلیو ٹی او کی داخلی تقسیم پر انحصار کر سکتا ہے۔ یہ عمل امریکہ کو پاگل کر سکتا ہے ۔ امریکہ مابعد جنگ ‘قائم ہونے والے کثیر رکنی اداروں کے اندر‘ چین کے خلاف اپنا تجارتی اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اس ادارہ جاتی نظام کو تباہ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اسے تخلیقی بننا پڑے گا۔ اس مفروضے کے تحت عمل کرتے ہوئے کہ ڈبلیو ٹی او کا ڈھانچا ایسا ہے کہ وہ چین کے خلاف بے شمار شکایتوں کو رفع کرنے سے قاصر ہے۔ امریکہ ڈبلیو ٹی او کے ذریعے برقرار رکھے جانے والے تنازعات کے راستوں کے متوازی یک طرفہ اقدام کی گنجائش پیدا کر رہا ہے۔ واشنگٹن بیک چینل مذاکرات میں رعایتوں کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے‘ بیجنگ پر بھاری اخرا جات والی تجارتی جنگ کا خطرہ معلق کر سکتا ہے۔ چین اپنی قومی سلامتی کے نام پر عائد کی گئی پابندیوں کے ساتھ ساتھ‘ امریکی سرمایہ کاروں پر‘ مزید پابندیاں عائد کرے گا تو ان کا توڑ کرنے کی غرض سے‘ امریکہ جارحانہ رویہ اپنا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات ڈبلیو ٹی او کو خطرناک میدان میں دھکیل دیں گے۔آزاد تجارت کے کثیر فریقی معاہدات جتنے بھی متنازع ہوں‘ امریکہ کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آزاد تجارت کے معاہدے عوامی مہم کی صورت چلائے جائیں تو وہ سیاسی ڈائنامائٹ بن جاتے ہیں لیکن بڑی طاقتوں کی مسابقت کے دور میں‘ ہنوز افادیت کے حامل ہیں۔ یاد رہے کہ آزاد تجارت کے معاہدے(اور کسٹم یونینیں) عدم امتیاز کے ”موسٹ فیورڈ نیشنز‘‘کے اصول سے مستثنیٰ ہیں۔ اگر ایک جیسے مفادات کے حامل کچھ ملکوں کا کوئی گروپ اکٹھا ہونا اور ایک دوسرے کو خصوصی تجارتی مراعات کا انعام دینا چاہتا ہو تو جو ملک ان انتظامات سے باہر رہ جائیں گے‘ انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔ یہاں امریکہ‘ چین کے ریاستی کیپٹلزم کو اپنے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے؛ امریکہ محنت، انٹلیکچوئل پراپرٹی، ماحول، ڈیجیٹل اور اعلیٰ سیاسی معیاروں کے ساتھ، جن پر چین پوری طرح عمل نہیں کر سکتا، آزاد تجارت کے معاہدے جدید بنا کر‘ اپنے اتحادیوں کو ساتھ کھڑا رکھنے کی غرض سے انعام دینے اور خارج کرنے کی قوت استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی‘ جی اے اے ٹی/ ڈبلیو ٹی او کے الحاق کے عشروں کے برخلاف‘ آزاد تجارت کے معاہدوں میں اعلیٰ معیارات‘ تھوڑے امیدواروں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کیونکہ امریکہ واضح تجارتی خامیوں والے سٹریٹیجک اتحادیوں کی طرف سے‘ آنکھ بند نہیں کر سکتا۔یہ ہمیں ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کی طرف لاتا ہے۔ پوری دنیا پر محیط ایک تجارتی معاہدہ ‘جو ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ‘ ان بنیادوں پر ختم کر دیا تھا کہ یہ امریکیوں کی ملازمتیں تباہ کر دے گا۔اب وائٹ ہاؤس کیوں تجویز دے رہا ہے؟ کہ وہ اس معاہدے کی طرف واپس جائے گا؟ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ اصل میں امریکہ نے آزاد تجارتی معاہدوں، جن میں محنت، ماحول اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کے زیادہ تحفظات ہوں، کی نئی حد کا تعین کرنے کی غرض سے وضع کی تھی۔ اس معاہدے کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں چین کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔
صدرٹرمپ نے جوا کھیلا ‘ اس کے معاہدے سے نکل جانے سے دوسرے ممالک کو‘ امریکہ کے ساتھ اپنے دوطرفہ معاہدات پر مذاکرات کرنے کی تحریک ملے۔ لیکن اس کے بجائے انہوں نے اصل درافٹ میں سے امریکہ کے کئی مطالبات خارج کرتے ہوئے‘ نظر ثانی شدہ ”کمپری ہینسو اینڈ پروگریسو ایگریمنٹ فار ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ‘‘ وضع کیا۔ نا صرف امریکہ کو مسابقتی منڈیوں کے ٹیرف سے آزاد علاقوں سے خارج کیے جانے کا خدشہ ہے بلکہ سٹریٹیجک فریم ورک میں چین کے ساتھ اقتصادی مقابلے میں ‘اس کے ہار جانے کا احتمال بھی ہے۔ ہنوز بہت سی رکاوٹیں راہ میں حائل ہیں‘ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نئے معاہدے کرتے ہوئے بڑی غیرملکی مسابقتوں کے حوالے سے‘ ملکی تشویش کس طرح رفع کی جائے؟ یہ تجویز کہ وائٹ ہاؤس اس تجارتی کلب میں‘ دوبارہ مقام حاصل کر سکتا ہے ،یہ تسلیم کیے جانے کی نشان دہی کرتا ہے کہ عالمی سٹیج پر مسابقت کے واپس آنے پر‘ امریکہ کی تجارتی پالیسی اور عظیم سٹریٹجیز‘ کہاں ایک بار پھر مل سکتی ہیں؟‘‘