عام انتخابات اور توہم پرستی….وقار خان
منقول ہے کہ گزشتہ صدی میں ایک غریب زادہ، مسافرِ پا پیادہ نے بھوک سے تنگ آ کر قصدِ سفر کیا تو گائوں کے کسی سیانے نے اسے یاد دلایا کہ آج بدھ کا دن ہے اور اس روز سفر کا آغاز نیک شگون نہیں ہوتا۔ مسافرِ خستہ حال نے رختِ سفر کندھے پر ڈالتے ہوئے بے نیازی سے کہا کہ پہلے سے اجڑے ہوئوں کو ”بدھوار‘‘ نے کیا نقصان پہچانا ہے بھلا؟
یہ تاریک دور کی غیر سائنسی اور غیر منطقی باتوں میں سے ایک ہم نے آپ کو سنائی ہے۔ اکیسویں صدی میں ایسی توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب تو دنیا ستاروں کا حال زمین سے بہتر جانتی ہے۔ باہمی زمینی رابطہ تو انتہائی معمولی کام رہ گیا، اب تو ستاروں سے آگے کے جہانوں اور خلائی مخلوقات سے بھی باتیں کرنے کی تیاریاں ہیں۔ زمین کے بعد خلا کی طنابیں کھینچ دینے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایسی محیرالعقول دنیا میں غیرمنطقی مفروضوں اور توہمات کے زیرِ اثر رہنا عجیب سا لگتا ہے، مگر افسوسناک امر ہے کہ اس ڈیجیٹل عہد میں بھی، جب مستقبل کی ہر چیز شیشے کی طرح عیاں ہے، ہمارے ہاں توہمات کے اسیر بکثرت پائے جاتے ہیں۔ عام انتخابات کے حوالے سے ان خبطی طبیعت ہستیوں کو حالات اچھے نظر نہیں آرہے؛ البتہ آپ کی دعا سے ہمیں پورا یقین ہے کہ اس بدھ کو ہم نیک نیتی سے جس سفر کا آغاز کر رہے ہیں، وہ ہماری تعمیروترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔
ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات کے لیے الیکشن مہم کا وقت ختم ہوا اور اب بدھ کا دن، یعنی پولنگ کا عمل چند گھنٹوں کی دوری پر ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم ایک آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں اپنا جمہوری حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہیں۔ کل 25 جولائی کی شام تک عوام مسلسل تیسری آئینی مدت کے لیے وفاق اور صوبوں میں مضبوط جمہوری حکومتیں قائم کرنے کی خاطر اپنے نمائندوں کا انتخاب کر چکے ہوں گے؛ البتہ وہم کا علاج کوئی نہیں۔ بصد معذرت، ہمارے کچھ وہمی تجزیہ نگاروں کو ایسے صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں بھی ”ہنگ پارلیمنٹ‘‘ وجود میں آتی نظرآرہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد مخلوط حکومت سازی کے مرحلے میں وزارتوں کا جمعہ بازار لگے گا۔ ہمیں ایسے تجزیوں سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کہر آلود چوٹیوں اور دھند میں لپٹی گھاٹیوں سے گزرتے ہم ایک مرتبہ پھر سر نہیواڑے عام انتخابات تک آپہنچے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ اپنی روشن جمہوری تاریخ دہراتے ہم ایک مرتبہ پھر سر اٹھائے صاف اور شفاف لیکشن کی منزل تک آپہنچے ہیں۔ امید ہے کہ توہم پرست اور حقیقت پرست تجزیہ نگاروں کے درمیان فرق واضع ہو گیا ہو گا۔
ہم کسی کی منفی سوچ تبدیل نہیں کر سکتے کہ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ سیدھے سادے نارمل سیاسی حالات میں منعقد ہونے والے فیئر اینڈ لوّلی الیکشن میں ہر سر پھرا اپنے تحفظات کی پوٹلی سر پراٹھائے پھر رہا ہے۔ کوئی الیکشن کمیشن کا کردار زیر بحث لا رہا ہے، کوئی نیب کے اختیارات میں کیڑے نکال رہا ہے، کسی کو نگران حکومتوں کی طرف سے اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں گڑبڑ نظر آتی ہے،کوئی میڈیا کو جاری ہونے والی ہدایات کو انتخابات میں دراندازی قرار دے رہا ہے، کسی کو بم دھماکے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش دکھتے ہیں، کسی کوتاہ نظر کو عدالتی احکامات پر تحفظات ہیں اور کسی کو خیالی دھاندلی کی سنڈی کاٹ رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ جس کو اپنے سامنے کھڑا ہاتھی نظر نہیں آتا، اسے انتخابات کے پیچھے کارفرما خفیہ ہاتھ نظر آ جاتا ہے۔ ان میں سے ہر کسی کے وہم کا ثبوت یہ ہے کہ کسی کے پاس اپنی بات کا کوئی ثبوت نہیں۔
ذرائع ابلاغ کے اس دور میں میڈیا کا کردار مسلمہ ہے۔ اچھی بھلی پُرامن اور صاف فضا میں وہمی تجزیہ نگاروں اور چند سیاستدانوں نے ایسی مایوسی پھیلائی ہے کہ روایتی انتخابی جوش و خروش ہی پیدا نہیں ہو سکا‘ حالانکہ کچھ سیاسی رہنمائوں نے الزام تراشی، گالم گلوچ اور تندوتیز بیانات کے ذریعے لہو گرمانے کی بڑی مساعیٔ جمیلہ کیں مگر وہمی لوگوں کا بیانیہ غالب رہا۔ فرضی طور پر سمجھ لیا گیا کہ چند بڑی جماعتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور ان کے پر کاٹے جا رہے ہیں، جبکہ کسی پارٹی کے لیے حالات سازگار بنائے گئے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والی افسوسناک گفتگو سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں بھی کی گئی، جب فاضل ارکانِ سینیٹ خصوصاً رضا ربانی، شیری رحمٰن، ظفرالحق اور پرویز رشید نے عام انتخابات کی شفافیت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں فیل قرار دیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ان توہم پرست عناصر نے بغیر کسی ثبوت کے الزام لگایا کہ صرف دو جماعتوں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سابق چیئرمین ایوان ربانی صاحب تو مفروضے گھڑنے میں یہاں تک جا پہنچے کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ٹیسٹ ٹیوب بے بیز پیدا کرنے کی بات بھی کہہ ڈالی۔
ایسے مفروضوں کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے جو دلائل گھڑے جا رہے ہیں، ہم ان سے بھی متفق نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور باپ بیٹی اڈیالہ جیل میں اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اب اگر اتفاق سے احتساب کا یہ عمل عین انتخابات کے دنوں میں مکمل ہوا ہے تو اس میں کسی کو دیوار سے لگانے والی بات کہاں سے آ گئی؟ ن لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں نے نواز شریف کے استقبال کی آڑ میں قانون ہاتھ میں لیا تو ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنے۔ اگر گھروں میں بیٹھے رہتے تو کیا ایسا ممکن ہوتا؟ بلکہ ہم تو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر اس دفعہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے گھروں ہی میں بیٹھے رہتے تو بہتر تھا۔ اس سے ایک تو بقول عمران خان ”آزمائے ہوئوں‘‘ سے قوم کی جان چھوٹ جاتی (اور غیر آزمائے ہوئے زیادہ حلقوں میں بلا مقابلہ ہی کامیاب ہو جاتے) دوسرے ان جماعتوں کو بھی ایسا برا وقت نہ دیکھنا پڑتا کہ ان کے رہنما یک طرفہ جبر کی غیرمنطقی باتیں کرکے قوم کا وقت ضائع کرتے۔
تجزیہ نگار حنیف عباسی کو انتخابات سے تین دن قبل رات کے وقت سنائی جانے والی عمر قید پر بھی تحفظات ظاہر کر رہے ہیں‘ حالانکہ نسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے ان کو یہ سزا ایفی ڈرین کیس میں جرم ثابت ہونے پر مطابق قانون سنائی ہے۔ جو وہمی خواتیں و حضرات دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں، ان سے سوال ہے کہ کیا فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید احمد نے حنیف عباسی کو یہ جرم کرنے پر اکسایا تھا تاکہ عین انتخابات کے دنوں میں وہ ان کے مقابلے میں نااہل ہو جائیں؟ اتفاق سے اسی دن ایف آئی اے نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور قرار دیا تو اس پر بھی چہ می گوئیاں ہوئیں۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ بہن بھائی پر منی لانڈرنگ کا کیس ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں ہارون بلور اور سراج رئیسانی سمیت افسوسناک جانی نقصان ہوا۔ ان سانحات پر بھی سیاست اور صحافت چمکائی گئی اور انہیں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش تک کہا گیا، مگر کیا ان سے انتخابات سبوتاژ ہو سکے؟ بم دھماکے اور انسانی خون تو ویسے بھی یہاں ارزاں ہیں، پھر الیکشن میں ہونے والے ایسے سانحات کو انتخابی عمل سے جوڑنا چہ معنی دارد؟
بات لمبی ہو گئی۔ ہم اپنے فاضل توہم پرست برادران اور ہمشیرگان کے مقابلے میں اپنا موقف واضع کرنا چاہتے ہیں کہ بدھ کو شروع ہو نے والے صبحِ زرنگار کے اس سفر نے ہمارا بگاڑنا کچھ نہیں، بنانا ضرور ہے۔ کل مکمل آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں صاف اور شفاف انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک انقلاب آفریں کروٹ لے گا۔ کوئی مخلوط حکومت بنے گی نہ وزارتوں کا جمعہ بازار سجے گا؛ البتہ کسی اتوار بازار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
رہی بات ہنگ پارلیمنٹ کی تو بھلے لوگو پارلیمنٹ تو پارلیمنٹ ہوتی ہے، چاہے ہنگ ہو یا ربڑ سٹمپ… پریشانی کیسی؟