منتخب کردہ کالم

عام لوگوں کے درمیان موجود ایک خاص کردار….حسنین جمال

ناں سائیں ناں...ظفر محمود

عام لوگوں کے درمیان موجود ایک خاص کردار….حسنین جمال

دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک کیریکٹر پڑا ہوا ہے۔ ہر بندہ الگ مزاج کا ہے۔ الگ کہانیاں ہیں، الگ مزاج ہیں لیکن جس ملک، جس شہر، جس گاؤں، جس دیہہ کے جس گلی کوچے یا محلے میں دیکھیں گے، نصیحت باز ہمیشہ ایک جیسے ہی دکھائی دیں گے۔ یہ کسی بھی زمانے میں ہوں، ان کی سوچ، ان کا مزاج، دوسروں سے ان کا برتاؤ سب کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے یہ کسی میلے میں بچھڑے ہوئے جڑواں بھائی ہوں۔ یہ لوگ چوہدری بننا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جب یہ کہیں جا رہے ہوں تو ہر بندہ انہیں پہچان کے سلام ٹھونکتا جائے، ہٹو بچو کا شور پڑا رہے، لوگ انہیں گیسٹ آف آنر کے طور پہ بلائیں، انہیں ہر جگہ وی آئی پی پروٹوکول ملے۔ یہ انسانیت کی بات کریں گے، یہ محب وطن ہوں گے، یہ انکساریاں دکھائیں گے اور کن انکھیوں سے یہ بھی دیکھیں گے کہ متاثر کون کون ہو رہا ہے۔ یہ موقع کی مناسبت سے بات کرنا جانتے ہوں گے اور ضروری نہیں کہ ایک ماہ پہلے کی گئی نصیحت سے آج کی جانے والی نصیحت کا مرکزی خیال ملتا بھی ہو۔
یہ ہر بات دلیل سے کرتے ہیں۔ مکمل اعتماد سے، حلق صاف کرنے کے بعد، پورے ترنم سے جب یہ اپنا مؤقف بیان کرنا شروع کریں گے تو ایسا لگے گا جیسے پوری دنیا میں ان سے زیادہ سچا، بہادر اور اصول پسند آدمی کوئی نہیں ہے‘ لیکن جب وہی ساری باتیں سننے والا اگلے دن بیٹھ کے تنہائی میں سوچے گا تو اسے لگے گا کہ یار ان کا تو مطلب ہی کچھ نہیں نکلتا، بہت سی باتیں ایک دوسرے کے الٹ ہیں، لیکن بولتے وقت، ان کی گرج چمک، ان کا اعتماد مجال ہے جو کبھی اس چیز کا اندازہ بھی ہونے دے۔ اس برانڈ میں دلیل کی ایک خاص خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر صورت میں نصیحت پسند کو جتوا دینے والی ہوتی ہے بلکہ اکثر اوقات جو مثالیں دی جاتی ہیں وہ بھی ان کی اپنی گزری ہوئی زندگی سے ہی لی گئی ہوتی ہیں۔ اپنی مثال بیان کرتے ہوئے ایسے حضرات کی آنکھوں میں وہ خاص چمک آ جاتی ہے جو بچہ ٹافیوں کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ ان کے پسندیدہ ترین انسان وہ خود ہوتے ہیں۔ فیورٹ اقوال زریں بھی انہوں نے اپنے لیے خود ہی کہے ہوتے ہیں اور مختلف جگہوں پہ انہیں دہرا دہرا کے ہم سب کو یاد کروا دیتے ہیں۔
ان کے دل میں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے اور دوسروں کو غلط کہنے کی تڑپ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ چٹے سفید دن کو رات ثابت کر سکتے ہیں لیکن ہار نہیں سکتے۔ جب تک الیکشن نہیں ہوتا یہ بے چینی سے اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اپنے آس پاس ہر بندے سے کہتے ہیں کہ یار بس اب الیکشن ہو جانا چاہیے، الیکشن قوم کے لیے ضروری ہے، الیکشن جمہوریت کی اساس ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر جب الیکشن ہو جائیں اور ان کا امیدوار ہار جائے یا خود کھڑے ہو گئے ہوں اور شکست دیکھنی پڑ جائے تو پھر یہ نظام کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ان کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ سسٹم کو اتنا برا ثابت کر دیں کہ جس کا علاج کروانے کو مریض لوگ یا تو خود ان کے پاس آ جائیں یا پھر انہیں حکیم الملک کا خطاب دے کر ٹی وی پہ بٹھا دیا جائے۔ اتفاق سے اگر سسٹم بھی بدل جائے، پرانی بساط لپٹ جائے، اور تب بھی انہیں کوئی نہ لفٹائے پھر بھی یہ ہار نہیں مانتے۔ یہ اپنے ہی جیسا کوئی ایک آدھا نصیحت باز اور ڈھونڈتے ہیں اور طبلے کی جوڑی مکمل ہو جاتی ہے۔ پھر سُر بھی دو آتشہ ہو جاتے ہیں۔ ایک تان اٹھاتا ہے، دوسرا اسے پکڑتا ہے، پہلا راگ شروع کرتا ہے دوسرا ماحول بناتا ہے اور کام کبھی رکتا نہیں، وہ چلتا جاتا ہے۔ یہ شرط لگانے کو تیار ہوتے ہیں کہ ہماری نصیحت کا تعویذ سسٹم کے گلے میں ڈالو اس کے بعد دیکھو کس طرح ناچتا گاتا نیا ملک طلوع ہو گا، دوسرے چاہے جو کچھ مرضی کہتے یا سمجھتے رہیں انہیں اپنے کبھی نہ آزمائے گئے تعویذ کی صداقت پہ ازلی یقین ہوتا ہے۔
یہ لوگ اکیلے ہوتے ہیں لیکن ان کی باتوں کے بھرم اور تباہ کن تخریبی صلاحیت کی چمک میں آ کر ایک کثیر مفاد پرست طبقہ ان کا حمایتی ہو جاتا ہے۔ لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔ اس بات سے شہ پا کر یہ مزید چوڑے ہو جاتے ہیں، اپنے غلط فلسفے پوری طاقت سے بیان کرنے لگتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ جو آس پاس لوگ ہیں یہ بھی اپنے فائدے کے لیے جمگھٹا لگائے ہوئے ہیں، آج مقصد نکلے گا، کل یہ پھر سے اڑ جائیں گے۔ جب بالآخر واہ واہ کرنے والے اڑ جاتے ہیں تو اس وقت نصیحت باز کو یاد آتا ہے کہ یار میں نے زندگی بھر جو کیا آنے والی نسلیں اسے کیسے یاد رکھیں گی۔ پھر ذاتی خرچے سے مومی کاغذ پہ زندگی کے حالات چھپتے ہیں اور تحفتاً دی جانے والی وہ کتابیں بک ریکس کے مردہ خانوں میں لاشوں کی صورت کئی برس تک آرام کرتی ہیں۔ جب تحفہ وصول کرنے والا مرتا ہے تو فٹ پاتھ کی سیل میں دستخط شدہ وہ یادگاریں ہم آپ خرید لاتے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ جو ”میں پرستی‘‘ ایک جملے میں ہو سکتی تھی اس کے لیے کتاب لکھی گئی۔ پھر وقت فیصلہ کروا دیتا ہے کہ نصیحت باز چوہدری ٹھیک تھا یا وہ ٹھیک تھے جو اس کے مخالف تھے۔
نصیحت باز چوہدریوں کے تاریخی مخالف ماڑے بندے ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ بیچارے ووٹروں کے سہارے نظام میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی بندوق بردار نہیں ہوتا، کوئی کلف لگے سفید کپڑے نہیں ہوتے، میلے کچیلے مزدور، ہل چلاتے کسان، سائیکل موٹر سائیکل پہ گھومنے والے نوکری پیشہ، کریانہ سٹور چلانے والے سفید پوش، یہ سب ان بندوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بے چارے کسی کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ یہ نت نئی نصیحتیں کرنا بھی نہیں جانتے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سب کو ملا کر چلیں گے تو کامیاب رہیں گے ورنہ سامنے اندھی کھائی ہے جس میں گر گئے تو نیچے سے پھانسی کا پھندہ بھی گلے میں پھنس سکتا ہے۔ یہ ڈرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے جیسے دوسرے کمزوروں کو باتیں سناتے ہیں تو بھی گنجائش رکھتے ہیں کہ یار کل کو گلے لگانا پڑ جائے تو شرمندگی نہ ہو۔ یہ نصیحت بازوں کی طرح دو ٹوک بیان نہیں دیا کرتے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جو بات کرنی ہے ٹھوک بجا کے کرنی ہے، سننے والا اگلے دن سوچے تو بات میں سے مغز بھی نکلنا چاہئیے، نصیحت بازوں کی طرح تہہ در تہہ چھلکوں والا پیاز دوسروں کو پکڑانے سے یہ اجتناب کرتے ہیں۔ انہیں ڈیلیور کرنا ہوتا ہے۔ سالڈ کام کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جو مرضی کر لیں ایک نصیحت باز تاریخ میں کسی بھی موڑ پہ، کہیں سے بھی اچانک ضرور برآمد ہوتا ہے اور ان کے سامنے مورچہ لگا لیتا ہے۔
جو کمزور بندوں کا سہارا لے کے اوپر آتے ہیں وہ ہمیشہ بے اختیار ہوتے ہیں۔ انہیں لانے والے بہت سی امیدیں باندھتے ہیں کہ اب یہ ہو جائے گا، اب وہ ہو جائے گا، ہمارا ”سائیں‘‘ سب کچھ بدل دے گا لیکن سائیں غریب کو خود اوپر آ کے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک کچھ نہیں بدلا۔ وہ جتنا مرضی مینڈیٹ لے کے آ جائے، جتنی چاہے طاقتور اسمبلی بنا لے، روز صبح کچہریاں لگائے، آدھی رات تک کام کرے، کام ہوتا نظر ہی نہیں آئے گا۔ اتنی رکاوٹیں سلیمانی ٹوپی پہنے موجود ہوں گی کہ وہ اس طلسم ہوشربا میں چکر لگاتے لگاتے ہانپ جائے گا۔ آخر کار جب وہ بالکل تھک جائے گا، دیوار سے لگ جائے گا تو ایک ایک کر کے سلیمانی ٹوپیاں اترنی شروع ہوں گی۔ سارے چہرے آہستہ آہستہ سامنے آتے جائیں گے۔ وہ آس پاس والوں کو یقین دلائے گا کہ کچھ بھی ہو جائے میں اپنے ساتھ اگلی بار ایسا نہیں ہونے دوں گا لیکن اگلی بار… اگلی بار کیا اس کو ووٹ دینے والے کوئی اور ہوں گے؟ اصل میں وہ نہیں جانتا کہ ووٹ کی طاقت اتنی ہے جو اسے میدان کے بیچ تن تنہا کھڑا کر سکتی ہے۔ آگے جو کچھ کرنا ہے اس نے خود کرنا ہے۔