عجیب آدمی…ہارون الرشید
چوہدری صاحب کو اب عمران خان سے واقعی ایک کام آن پڑا ہے‘ پہلی بار۔ کوئی ذاتی غرض نہیں ایک بڑی قومی مہم وہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کی دعوے دار نئی حکومت کو ان کی بات سننا ہی ہو گی‘ سننی چاہیے۔
ساڑھے پانچ برس پہلے‘ چوہدری صاحب سے پہلی ملاقات ہوائی اڈے پر ہوئی۔ تحریک انصاف کے اس جلسۂ عام میں شرکت کے بعد‘ جس نے کراچی کے در و دیوار ہلا دیئے تھے۔ اب جس کے ثمرات پارٹی نے سمیٹے۔
کسی تمہید کے بغیر انہوں نے کہا: کاروباری آدمی ہوں‘ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ تجویز کیا تو ایک مہم کے لیے فوراً ہی پانچ لاکھ روپے مختص کر دیئے۔ بتایا کہ 1992ء کے عالمی کپ سے پہلے عمران خان سے ان کی ملاقات ہوئی۔
عمران خان لندن میں تھے اور پریشان۔ شوکت خانم ہسپتال کی ایئرکنڈیشننگ کے لیے خریدی گئی مشینری پہنچنے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ کینسر کے علاج میں برتی جانے والی ہسپتال کی کچھ نازک اور پیچیدہ مشینیں خطرے میں تھیں۔ فوری طور پر ایئرکنڈیشننگ پلانٹ نصب نہ ہوا تو کیا ہو گا۔ چوہدری صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میری ایک بات آپ مان لیجئے۔ مشینری چند دن میں لگا دی جائے گی۔
چوہدری نے ٹیلی فون اٹھایا۔ اپنے اسلام آباد دفتر سے کہا کہ دس بارہ دن کے اندر یہ کام نمٹا دیا جائے۔ کپتان سے چوہدری کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ان کے بارے میں وہ کچھ بھی نہ جانتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ مطمئن ہو گیا۔ چوہدری ایسے ہی آدمی ہیں۔ ایک تاثیر ان کی آواز میں ہے‘ اپنائیت اور اعتماد۔ معلوم نہیں کیوں‘ ان کی ہر بات سچی لگتی ہے۔
اطمینان ہو چکا تو خان نے کہا: اب بتائیے آپ کا کام کیا ہے۔ ”آپ سیاست میں حصّہ لیجئے‘‘۔ عمران نے کہا: مجھے ورلڈ کپ جیتنا ہے‘ کروڑوں روپے کے عطیات جمع کرنے سمیت‘ شوکت خانم کے بہت سے کام نمٹنانے ہیں۔ کسی اور چیز کے بارے میں‘ اس کے بعد ہی سوچا جا سکتا ہے۔
کبھی کبھی چوہدری صاحب سے میں ملنے جاتا ہوں۔ میری طرح شب بھر وہ جاگتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ عشاء کے بعد گھنٹہ بھر سو رہتے ہیں۔ پھر ساری رات مطالعہ‘ غور و فکر‘ مجلس آرائی یا کاروباری معاملات پہ دماغ سوزی۔ نمازِ فجر کے بعد چند گھنٹے سو رہتے ہیں۔
وہ ایک ناقابلِ علاج رجائیت پسند ہیں۔ روایتی تعلیم اور معمولی سرمایے سے انہوں نے کاروبار شروع کیا‘ رفتہ رفتہ جو بہت پھیل گیا۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہوں گے۔ چوہدری میں البتہ دو نادر خصوصیات ہیں۔ ایک تو عمر بھر انہوں نے کبھی ایک دھیلا رشوت نہیں دی۔ اس معاشرے میں جہاں اس کے بغیر کاروبار کا تصور ہی نہیں۔ ثانیاً جیسا کہ عرض کیا‘ ہر حال میں شاد‘ ہر حال میں پُرامید۔
اس قدر غیر معمولی تجسّس ان میں پایا جاتا ہے کہ سوال پہ سوال کرتے چلے جاتے ہیں۔ تخلیقی ذہن‘ کئی برس پہلے پانی سے بجلی بنانے کا منصوبہ بنایا۔ کامیابی کے قریب پہنچ گئے تھے کہ معطّل اور ملتوی کر دیا۔ حیرت سے میں نے پوچھا: آپ نے ایسا کیوں کیا۔ بولے: ترک نہیں‘ ملتوی کیا ہے۔ غیر معمولی سرمایہ درکار ہے۔ چھوٹے پیمانے پر یہ کام ہو نہیں سکتا اور ہاتھ پھیلانے کا میں قائل نہیں۔
کبھی طبیعت آمادہ ہو تو اپنے مشاہدات اور تجربے بیان کرتے ہیں۔ اس زندگی کی داستاں جس سے انہیں کوئی شکایت نہیں۔ سراپا شکر‘ سراپا دعا۔ آج تشریف لائے تو کہا: ایک بات تو بتائیے‘ اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے۔ جو کچھ عرض کر سکتا تھا‘ عرض کیا۔ پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔
بولے: پرانی بات ہے‘ اسلام آباد کی فیکٹری میں جگہ کم پڑ گئی۔ کاروبار پھیل رہا تھا۔ کارخانے کے عقب میں سی ڈی اے کی بہت زمین خالی پڑی تھی۔ ادارے سے درخواست کی مگر انہوں نے ٹال دیا۔ حالانکہ اسی مقصد کے لیے رکھی گئی تھی۔ کوئی اور مصرف اس کا تھا ہی نہیں۔ درخواست دی تو متعلقہ افسر نے عجیب حرکت کی۔ کسی دوسرے علاقے میں تین کنال کا ایک پلاٹ انہیں الاٹ کر دیا۔ وہ جو التجا تھی‘ مسترد کر دی۔
چند روز بعد ایک صاحب انہیں ملنے آئے اور مطلع کیا کہ عقب میں پڑا پلاٹ سرکار نے انہیں بخش دیا ہے۔ مقصد واضح تھا کہ زائد رقم دے کر وہ خرید لیں۔ اب اس کے لیے وہ قائل ہی نہیں۔ آخر یہ بھی تو ایک طرح کی رشوت ستانی ہے… اور اسی سے چڑ ہے۔ چوہدری صاحب کی پوری زندگی‘ مشکلات و مصائب سے لڑتے گزری ہے۔ اس کے باوجود حسّاس بہت۔ کبھی کبھی تو اس قدر جذباتی کہ حیرت ہوتی ہے۔
مجھ سے کہا: اس شخص کی بات سنی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تیزی سے چلتے‘ میں غسل خانے میں پہنچا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ آئینے کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے اور کہا: تو دیکھ رہا ہے یا رب۔ تیری دنیا کتنی عجیب ہے اور تیرے فیصلے بھی۔
کچھ دیر میں اچانک اور غیر متوقع طور پر‘ وفاقی محتسب کا فون موصول ہوا۔ اس نے پوچھا: کیا آپ ہی اس ادارے کے انتظامی سربراہ ہیں۔ چوہدری صاحب نے اثبات میں جواب دیا تو یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا کہ کل وہ ان کے ہاں وارد ہوں گے۔چوہدری پریشان کہ یہ کیا قصّہ ہے۔ کیا کوئی خطا سرزد ہو گئی؟ کیا اب کوئی اور امتحان درپیش ہے؟
جج صاحب تشریف لائے تو انہوں نے کہا: لاہور میں اپنا دفتر ہم نے تعمیر کیا ہے۔ اس کی ایئرکنڈیشننگ کے لیے کچھ رقم رکھی تھی۔ انکشاف اب یہ ہوا ہے کہ منصوبے کے لیے کافی نہیں۔ اب ہم کیا کریں‘ کیا آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں؟ جج صاحب کے ہاتھ میں پکڑی فائل‘ چوہدری نے ملاحظہ کی اور کہا: آپ مطمئن رہیں‘ اس محدود رقم میں یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ منافع ہو یا نہ ہو۔ خواہ کچھ رقم جیب سے ڈالنی پڑے۔
شاد اور آسودہ‘ وفاقی محتسب نے فیکٹری کا جائزہ لینے کی فرمائش کی۔ پھر یکایک انہوں نے سوال کیا: اس قدر وسیع کاروبار کے لیے کیا یہ جگہ کم نہیں؟ ”ناکافی تو ہے‘‘ چوہدری نے کہا” مگر کیا کیجئے ہماری درخواست سی ڈی اے نے مسترد کر دی ہے‘‘۔
جج صاحب سنجیدہ ہو گئے۔ پوچھا: کیوں مسترد کر دی‘ خالی پڑی ہے اور قانون کے مطابق آپ کو ملنی چاہیے۔ چوہدری اپنے ہی مزاج کا آدمی ہے۔ اس نے ٹالنے کی کوشش کی مگر جج صاحب مصر ہو گئے۔ اب پوری بات انہیں بتانا پڑی۔ چند روز بعد سی ڈی اے کا چیئرمین ان کے دفتر میں تھا کہ منسلک قطعہ ان کے حوالے کر دیا جائے۔
کہانی کہہ ڈالنے اور ایسے ہی کچھ دوسرے واقعات سنانے کے بعد چوہدری صاحب نے اپنا سوال دہرایا: اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے؟ یہ معمولی طالب علم اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ عرض کیا: قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ نے آدمی کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ پہ رحمت کو لازم کر لیا۔ شاید اس لیے کہ انسان اس کی مرضی کے بغیر تخلیق کیا گیا۔ شاید اس لیے کہ پیدائشی کمزوریوں کی بنا پہ‘ وہ رعایت کا مستحق ہے۔ فرمان رسولؐ بہرحال یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے‘ ان کی مائوں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ پھر ایک خیال نے ذہن میں پڑائو ڈال دیا۔ سرکارؐ سے کسی نے کہا: یا رسول اللہ آپ سے مجھے محبت ہے۔ فرمایا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے‘ وہ خیانت نہ کرے اور جھوٹ نہ بولے۔ یہ نہ کہا کہ شب بھر عبادت کیا کرے‘ نوافل پڑھے۔ یہ بھی نہیں کہ روزے بہت رکھے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بہت ہے لیکن اس طرف بھی اشارہ نہ کیا۔ صداقت شعاری اور امانت داری ہی شاید وہ اعلیٰ ترین اوصاف ہیں‘ زندگی جن سے نشوونما پا کر حیران کن نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ فرمایا: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
چوہدری صاحب کے بہت سے منصوبوں میں سے‘ تازہ منصوبہ اب یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو‘ ملک میں بنی اشیاء خریدنے پر آمادہ کریں۔ 22 کروڑ آدمیوں کو جو نمائش اور دکھاوے کے عادی ہو چکے۔ اسراف جن کی فطرتِ ثانیہ ہو چکی۔
چوہدری صاحب کو اب عمران خان سے واقعی ایک کام آن پڑا ہے‘ پہلی بار۔کوئی ذاتی غرض نہیں ایک بڑی قومی مہم وہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کی دعوے دار نئی حکومت کو ان کی بات سننا ہی ہو گی‘ سننی چاہیے۔