عدم فراہمی کا بل….نذیر ناجی
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گیس کا بل باقاعدگی سے وصول کرتی ہے۔ گیس کی مقدار میں مسلسل کمی کی وجہ سے محکمہ ” خسارہ‘‘ برداشت کررہاہے۔ایک طرف صارفین کابل روز بروزبڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف گیس کی عدم سپلائی کا بوجھ بھی صارفین کے کندھوں پر آپڑتاہے۔وہ زمانے لد گئے جب پرس یا جیب میں پیسے ڈال کر گیس کا بل ادا کر دیا جاتا تھا۔ اب جس تیزی سے بلوںمیں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی ادائی کے لئے اچھے خاصے سائزکا بیگ اٹھاکر لے جانا پڑتا ہے۔اصل میں ابھی تک حکومت پرانے زمانے کے طور طریقے استعمال کر رہی ہے۔ گیس کا پائپ‘ وہ اپنی جیب سے خرید کر زیر زمین بچھاتی ہے۔ گیس پائپ ڈالنے کے بعد ‘صارفین سے پیسے وصول کئے جا تے۔ جیسے جیسے گیس کی سپلائی میں کمی آتی گئی‘ صارفین کے اخراجات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گیس کی سپلائی کے اخراجات کا مسئلہ‘ باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا لیکن سارا بوجھ صارفین پر لاد دیا گیا۔
گیس کے زیادہ اخراجات کراچی والوں کو اٹھانا پڑرہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فضول خرچی سے بچنے کے لئے‘ کراچی میں گیس کی فراہمی حسب ضرورت بڑھائی جا رہی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کو بل تو وہی ادا کرنے پڑتے ہیں جو مسلسل چوبیس گھنٹوں کے ہوتے ہیں لیکن گیس کی سپلائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی۔اس سے صارف کی کمر ٹوٹتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا ‘ گیس کی مسلسل سپلائی کے لئے ‘عملے کو مشقت اٹھا نا پڑتی۔ دن ہو یا رات‘ گیس کی فراہمی مسلسل جاری رہتی تھی۔جس کا دل جب بھی چاہتا‘ وہ ٹھک سے چولہا جلاتا چائے یا دوسری چیزیں پکانے کے لئے رکھ دیتا۔ کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ جو گیس چوبیس گھنٹے ملا کرتی ‘ اس کی قیمت تو صارف کوادا کرنا پڑتی اور چوبیس گھنٹے گیس کی فراہمی جاری رکھنے کی وجہ سے‘ اس کے کندھوں پر اضافی بوجھ پڑجاتا۔و ہ زمانے اب پھر سے کیسے آئیں گے ؟ پنجاب والے‘ اہل کراچی کی نسبت زیادہ گیس استعمال کیا کرتے ہیں۔ ایک تو وہ چائے بہت پیتے ہیں۔ راتوں کو جاگتے ہیں۔ ملنے جلنے والے بھی ملاقاتوں اور گپ بازیوں کے مشاغل دن رات جاری رکھتے ہیں۔ کراچی میں دو تین ایم کیو ایم پائی جاتی ہیں۔ اس کے لیڈر اور کارکن رات رات بھر ٹیلی ویژن پر بحث اور جھگڑے کرتے ہیں ۔ٹی وی پر رات بھر ان کی تقریریں‘ مذاکرے اور طرح طرح کے موضوعات پر ہونے والے مباحث‘ سب کے لئے چائے نوشی کا شغل جاری رہتا ہے۔فاروق ستار بھائی اور دیگر ”رنگ برنگے بھائی‘‘گیس کا خرچ بڑھاتے رہتے ہیں۔چائے میں دودھ ڈالنا پڑتاہے۔ اسے الگ پکایا جاتا ہے۔ بعض کو برتن دھونے پڑتے ہیں۔ ان ساری چیزوں کے لئے گیس تو مطلوب رہتی ہے۔
گزشتہ دنوں جب ایم کیو ایم ٹوٹ اور بن رہی تھی۔اس کے تمام فریقوں کے‘ رات بھر کی میزبانی کے اخراجات بڑھتے جاتے۔ ایک دو بجے کھانا گرم کرنے یا پکانے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جو مہمان آدھی رات کو آئے گا‘ وہ دن کی پکی ہوئی باسی روٹی یا سالن پر صبر نہیں کر سکتا۔اس کے لئے تازہ کھانا بنانا پڑتا ہے۔ خصوصاً فاروق ستار بھائی کو تورات گئے شیو بنانی پڑتی ہے کیونکہ صبح کی گئی شیو ‘رات گئے تک ساتھ نہیں دیتی۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ فاروق ستار بھائی آخری مہمان کو رخصت کر کے اور اگلے دن کے پہلے مہمان کو ریسیو کرنے تک‘ کسی نہ کسی وقت شیو کرنا پڑتی ہے۔ وہ اتنی جلدی میں شیو کرتے ہیں کہ دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ باریش انسان ہیں۔حالانکہ انہیں میزبانی کے لئے اطمینان سے شیو کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
ان دنوں کراچی والوںکو گیس کی بے محابہ سپلائی جاری ہے۔ سندھ صوبائی اسمبلی میں بے تحاشہ گیس پھونکنا پڑتی ہے۔کیونکہ اسمبلی کا اجلاس جب تک جاری رہتا ہے‘ہال کو ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اے سی بھی چلتا ہے۔ اراکین کے گھروںمیںگیس کی فراہمی جاری رہتی ہے۔یہ عوامی نمائندوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ یہ کیا شرافت ہوئی کہ بندہ گھرمیں بھی گیس جلائے اور اسمبلی میں آئے تو یہاں بھی گیس جلائے؟ یہ ٹھیک ہے کہ عوامی نمائندوں کو گیس کا بل نہیں دینا پڑتا لیکن حکومت کو بھی گیس کی سپلائی روکنا پڑتی ہے اور عدم فراہمی کی قیمت صارفین ادا کرتے ہیں۔سچی بات ہے کراچی کے دکاندار‘ رات بھر دکانیں کھلی رکھتے ہیں۔میزبانی کے اخراجات اٹھانا پڑتے ہوں تو کون سی حکومت ہے جو دن رات گیس فراہم کرتی رہے؟فی الحال تو حکومت لوڈشیڈنگ سے ” گزارہ‘‘ کر رہی ہے ۔ سردی کے موسم میںسوئی گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ٹی وی پردیکھا کہ اب گیس کی نجی کمپنیاں اور حکومت‘ دونوں مل کر غوروفکر کرر ہے ہیں کہ گیس کی عدم سپلائی کے اخراجات‘ صارفین سے کیسے وصول کئے جائیں ؟عوام کی پریشانی بھی ختم نہ ہو اور محکمے کی بھی۔ صارف گیس کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ‘عدم فراہمی کا بل بھی ادا کرتا رہے گا۔ نہ حکومت کو پریشانی اور نہ صارفین کو۔ بعض اوقات سندھ اسمبلی میں بھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے پانی گرم نہیں ہوتا۔اس لئے کارروائی کا آدھا وقت ”پانی دو ‘پانی دو‘‘ کے نعرے لگانے پر صرف ہو جاتا ہے۔
نوٹ:۔بھاری بھرکم رکن سندھ اسمبلی ‘سیف الدین نے اسمبلی کے اندر دھرنا دے رکھاہے۔ انتظامیہ رات بھر کی خدمات فراہم کرنے پر مجبورہے۔موصوف کی دوائیں‘ علاج معالجہ اور رفع حاجت کی ضروریات کے لئے‘ عملہ ہال میں موجود رہے گا۔ مریض رکن نے کرسی سے اتر کے قالین پر ڈیرہ جما لیا ہے۔ عملہ غوروفکر کر رہا ہے کہ موصوف کے لئے کیسی ایمبولینس منگوائی جائے؟