منتخب کردہ کالم

عظیم قائد کی یاد میں: ڈاکٹر توصیف احمد خان

عظیم انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کے انتقال پر دنیا بھر کے غریب سوگوار ہیں۔ کاسترو نے 90 سال کی عمر پائی۔ انھوں نے کیوبا کو ایک مضبوط انقلابی نظام سپرد کیا۔ کاسترو کے جانشیں اب کیوبا کے سوشلسٹ نظام کو برقرار رکھیں گے یا نہیں، یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ صدر کاسترو نے جنرل بتستا (Fulgencio Batista) کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ ان کی قیادت میں عوامی بغاوت کو جنرل بتستا کی حکومت نے سختی سے کچلا تھا۔ اس بغاوت میں ان کے بیشتر ساتھی ہلاک ہوگئے، مگر کاسترو اور ان کے ساتھیوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں کیوبا سوشلسٹ جمہوریہ میں تبدیل ہوا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔

صدر کاسترو کو اپنا اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں موجود جاگیرداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کے سرپرست امریکی سامراج کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا نے سوویت یونین کے بعد کیوبا کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سب سے زیادہ سازشیں کیں۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کاسترو پر 69 کے قریب قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک حملہ تو کاسترو کی گرل فرینڈ نے بھی کیا، جو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایجنٹ تھی۔ 1960ء میں امریکی ہوائی فوج نے کیوبا پر حملہ کیا۔ کیوبا کی فوج نے بہادری سے اس حملے کے خلاف مزاحمت کی۔ صدر کینیڈی نے سوویت یونین کے مرد آہن خروشیف کی جانب سے کیوبا میں میزائل لگانے پر جنگ کی دھمکی دی۔ خروشیف اور کینیڈی ایک معاہدے پر متفق ہوئے۔

روس نے کیوبا سے میزائل ہٹالیے۔ امریکا نے فوجی پیچھے ہٹا لیے مگر کیوبا کا گھیراؤ شروع کردیا۔ کیوبا سے تجارت کرنے والے ممالک کو بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا، کیوبا جانے والے غیر ملکیوں پر امریکا کا ویزا بند کردیا گیا، اگر کوئی ہوائی جہاز کیوبا کے ایئرپورٹ پر اتر جاتا تو اس کمپنی کا جہاز امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں اتر نہیں پاتا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی بحری جہاز کیوبا کی بندرگاہ میں داخل ہو جاتا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بندرگاہوں کے دورازے اس پر بند ہوجاتے۔ اس طرح کیوبا میں پیدا ہونے والی شکر کے خریدار دنیا میں ختم ہوگئے۔

اس موقع پر سوویت یونین نے کیوبا کی مدد کی اور وہ کیوبا کی شکر کا سب سے بڑا خریداربن گیا۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ لاطینی امریکا کے ممالک نے کیوبا سے تعلقات بحال کرلیے۔ جب نکاراگوا میں عوامی حکومت قائم ہوئی تو امریکا نے نکاراگوا پر پابندیاں عائد کردیں۔ کیوبا کے صدر کاسترو نکاراگوا کی مدد کے لیے پہنچ گئے اب کیوبا نکاراگوا کے تیل کا سب سے بڑا خریدار بن گیا مگر کاسترو کا حقیقی کارنامہ کیوبا میں مضبوط معاشی اصلاحات تھیں۔کیوبا کی حکومت نے صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا اور دولت غریب عوام پر خرچ ہونے لگی۔ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایسی اصلاحات نافذ کیں کہ کیوبا کے عوام کی اکثریت کے بیشتر مسائل حل ہوگئے۔

کیوبا میں نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیم مفت قرار دے دی گئی۔ ریاست کا ایک فریضہ اپنے شہریوں کو تعلیم کی بنیادی سہولت فراہم کرنا قرار پایا۔ حکومت نے تعلیم کے معیار پر خصوصی توجہ دی۔ اس طرح غریب لوگوں کے بچے مفت میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے لگے۔ دیگر لاطینی ممالک اور امریکا میں مفت تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کیوبا میں خواندگی کا تناسب صد فی صد ہوگیا۔ حالانکہ وہاں 1950ء تک پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد انتہائی کم تھی چند برسوں بعد ہر شخص خواندہ ہوگیا۔ ہر شخص کے خواندہ ہونے سے کیوبا کی معیشت پر بہترین اثرات رونما ہوئے۔ بیشتر نوجوانوں نے سائنس اور انجنیئرنگ کے شعبوں کو چنا۔ تعلیم یافتہ کسانوں نے زرعی پیداوار میں اضافہ کے لیے نت نئے تجربات کیے۔

کینیڈا کی مزدور تحریک سے وابستہ بشارت مرزا کا کہنا ہے کہ کیوبا میں فصلوں کو کیڑے مارنے کی ادویات کے بجائے انوکھا تجربہ ہوا۔ کینیڈا اور کیوبا کے سائنس دانوں نے ریسرچ کے مشترکہ پروجیکٹ کے تحت ایسے کیڑوں کی پرورش کی جو فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو کھاتے ہیں، اس طرح کیڑے مار دواؤں کے مضر صحت نقصانات نہیں ہوئے۔

اسی طرح کیمیائی کھاد کے نقصانات سے بچنے کے لیے بھی تجربات کیے گئے، اس طرح بنیادی اشیاء کی پیداوار بڑھنے کے ساتھ ماحولیات کو تحفظ حاصل ہوا اور عام آدمی کی صحت کا معیار بہتر ہوا۔ دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیاں کیمیائی کھاد اور جرائم کش ادویات کی مارکیٹنگ سے اربوں ڈالر کماتی ہیں، اس طرح فوری طور پر کیڑے مر جاتے ہیں اور فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں مگر پھر کیڑے ان ادویات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اگلی دفعہ زیادہ مقدار میں ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں، اس سے ایک طرف پیداواری اخراجات بڑھتے ہیں تو دوسری طرف مضر صحت زرعی اشیاء کے استعمال سے جان لیوا امراض پھیلتے ہیں اور ماحولیات کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کیوبا کی زراعت کو ختم کرنے کے لیے اپنی اشیاء کیوبا کو فروخت کرنے پر پابندی لگادی تھی مگر کیوبا کے سائنسدانوں نے اس پابندی کو ناکام بنادیا۔ کیوبا کا ایک اور کارنامہ صحت کے شعبے کو ترقی دینا ہے۔ کیوبا میں اسپتال میں کیش کاؤنٹر نہیں ہوتا، وہاں ڈاکٹر گھر گھر جاتا ہے، ریاست مریضوں کو دوائیں فراہم کرتی ہے اور ہر قسم کے آپریشن کے کوئی پیسے نہیں ہوتے۔ حکومت طبعی تحقیق پر خاصی رقم خرچ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوبا میں امراض چشم کا جدید طریقوں سے علاج ہوتا ہے۔

ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آنکھ کے پیچیدہ آپریشن پر امریکا میں ہزاروں ڈالر خرچ ہوں گے مگر کیوبا میں یہ آپریشن مفت ہوگا۔ کیوبا میں حکومت ہر شہری کو مکان فراہم کرتی ہے۔ جس خاندان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوگی اس خاندان کو زیادہ کمرے والا مکان ملے گا۔ اسی طرح حکومت ہر شہری کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ کیوبا میں بیروزگاری کا کوئی تصور نہیں۔ ہر شخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق روزگار ملتا ہے اور اتنا معاوضہ ملتا ہے کہ وہ کسی پریشانی کے بغیر زندگی گزارتا ہے۔ جب 2005ء میں کشمیر میں زلزلہ آیا تھا تو دنیا بھر کے مختلف ممالک سے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے امدادی کاموں میں حصہ لیا تھا۔ امدادی کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیوبا کے ڈاکٹر اور طبعی عملے نے سب سے زیادہ محنت سے فرائض انجام دیے تھے۔

ان لوگوں نے غریبوں کے آپریشن کے لیے ایمرجنسی آپریشن تھیٹر قائم کیے تھے۔ کیوبا کے ڈاکٹر اپنے استپال کی صفائی خود کرتے تھے، حتیٰ کہ بیت الخلاء تک صاف کرتے۔ پھر رات گئے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ صدر کاسترو نے اس موقع پر پاکستانی طالب علموں کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 100 طلبا کے ایک بیچ کو کیوبا بھیجا تھا۔ ان طالب علموں کو پہلے سال اسپینش زبان کی تعلیم کے لیے دیہاتوں میں بھیج دیا گیا تھا مگر ان طالب علموں نے جب کیوبا میں تعلیم مکمل کرلی تو پاکستان کی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے کیوبا کی ڈگری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس طرح یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ پاکستانی طلبا مفت معیاری تعلیم سے محروم ہوگئے۔

صدر اوباما نے کیوبا کے بارے میں امریکی پالیسی کو تبدیل کیا۔ امریکا اور کیوبا میں سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ صدر اوباما نے کیوبا کا دورہ کیا۔ اس وقت کاسترو عملی سیاست ریٹائر ہو چکے تھے مگر ان کی پالیسیوں کی کامیابی کی وجہ سے امریکا کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑی تھی۔ سوشلسٹ ممالک پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان اور مشرقی یورپی ممالک اور کیوبا کے حالات میں بڑا فرق تھا۔ سابقہ سوویت یونین نے افغانستان اور مشرقی یورپی ممالک کی بہت زیادہ مدد کی تھی۔

ان ممالک نے حیرت انگیز ترقی کی مگر ان ممالک میں برسر اقتدار کمیونسٹ پارٹیاں اپنے ممالک میں مضبوط ڈھانچے قائم نہیں کرسکیں، ان کی معیشت اور فوج سوویت یونین کی طفیلی ہی رہی، یہی وجہ تھی کہ 1991ء میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ان ممالک کا نظام بھی بکھر گیا، مگر کاسترو نے کیوبا میں قائم ہونے والے نظام کی جڑیں عوام میں پیوست کردیں اور جڑیں پیوست کرنے کے لیے غریب عوام کو وہ سب کچھ دے دیا جو ان کی خوشحال زندگی کے لیے ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین کے خاتمے کے باوجود کیوبا پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ کیوبا اب بھی کوئی خوشحال ملک نہیں ہے، وہاں لوگوں کا معیار زندگی مغربی ممالک کے شہریوں کے برابر نہیں ہے، مگر آبادی کی اکثریت مطمئن ہے۔ اب کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کو لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے نئی پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ آزادئ اظہار کے ادارہ کو تقویت دینی ہوگی۔

کاسترو ایک عظیم رہنما تھے۔ انھوں نے اپنے خاندان کے لیے کوئی مالیاتی اثاثہ نہیں چھوڑا مگر ایک ایسا نظریاتی اثاثہ چھوڑ گئے کہ دنیا بھر کے غریب اس اثاثے پر فخر کرسکتے ہیں۔ اب نئے حالات میں ان کے جانشینوں کو مزید اصلاحات کرکے کیوبا کو جدید زندگی سے آراستہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کاسترو انسانی تاریخ میں زندہ رہے گا۔