عمران، ریحام، شیرو اور میں…( 3)….رؤف کلاسرا
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی، مجھے تو عمران خان نے ملنے کے لیے بلایا تھا کہ وہ ذاتی بات کرنا چاہتے تھے تو پھر کیاجرمن شیفرڈ شیرو کی موجودگی ضروری تھی جو اب مجھ پر مسلسل نظریں جمائے بیٹھا تھا اوردھونکنی کی طرح اس کی سانس چل رہی تھی۔ مجھے لگا عمران خان کے ساتھ ساتھ شیرو بھی باقاعدہ جِم کرنے لگ گیا تھا۔میں خود ڈاگ لورز میں شامل ہوں لیکن اس وقت شیرو کی موجودگی میرے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ اگر مجھے کسی اہم بات کے لیے بلایا گیا تھا تو پھر اس ماحول کو بھی سنجیدہ ہونا چاہیے تھا ۔
اس سے پہلے جب مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اور میں عمران خان کا انتظار کررہا تھا تو ریحام اندر داخل ہوئی ۔ سلام دعا کے بعد مجھ سے پوچھا آپ آج کل کہاں ہوتے ہیں ؟
میرے لیے یہ سوال بھی کچھ حیران کن تھا کیونکہ ہم میڈیا اینکرز ایک دوسرے کو جانتے ہیں کہ کون کس چینل پر ہے اور کب شو کرتا ہے۔ لیکن ریحام ایسے ظاہر کررہی تھی جیسے اب وہ معمولی میڈیا انڈسٹری سے اوپر نکل گئی ہے۔ وہ اپنے تئیں مجھے یہ پیغام دے رہی تھی کہ شاید میرے جیسے میڈیا مین اس قابل نہیں کہ ان کا اتا پتہ رکھا جاتا کہ آج کل وہ کس ٹی وی پر کام کرتے ہیں یا کس وقت ان کا ٹی وی شو چلتا ہے۔ یہ بھی ریحام خان کا اپنا انداز تھا تاکہ میں خود کو کوئی توپ چیز نہ سمجھوں۔ میں ریحام خان کا یہ سب نفسیاتی کھیل یا عمران خان سے شادی کے بعد کے احساس ِبرتری کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا لیکن بات پھر وہی تھی کہ میرے جیسے عام صحافی کی ریحام خان اور عمران خان کو کیوں ضرورت پڑ گئی ۔
جب میں نے ریحام خان کو بتایا کہ ٹی وی پر عامر متین کے ساتھ شو کررہا ہوں تو واضح طور پر ریحام کے چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات ابھرے ۔ اسی لمحے مجھے پتہ چل گیا کہ آج کچھ خاص ہوگا ۔ میں نے خود سے کہا بچُو آج اچھے پھنسے ہو۔
اتنی دیر میں جب عمران خان ٹرائوزر اور جوگر پہنے تولیہ سے پسینہ پونچھتے اندر داخل ہوا اور ابھی ہم دونوں نے ہاتھ ملایا ہی تھا کہ ریحام بول پڑی:
یہ آپ نے کس کو بلا لیا ۔ یہ تو اسی ــ ”گینگ ‘‘کے ساتھ جا کر مل گیا ہے اور وہیں ٹی وی شو کرتا ہے جس چینل کے صحافیوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے ہم نے اسے بلایا ہے۔ اس سے بات کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟
عمران خان یہ جملہ سن کر شرمندہ ہوا اور اسے محسوس ہوا کہ ریحام نے گھر آئے مہمان اور وہ بھی صحافی کے منہ پر زیادہ سخت بات کہہ دی ہے۔ ریحام کے اس سخت جملے کا اثر دور کرنے کے لیے عمران خان نے فورا کہا: نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے، رئوف کو میں جانتا ہوں یہ بہت مختلف انسان ہے۔
میں پھر بھی چپ رہا اگرچہ مشکل کام تھا۔ لیکن عمران خان کے جملے نے آگ پر پانی کا کام کیا۔
مجھے اب ریحام خان کے جملے سے زیادہ یہ تجسس پیدا ہوگیا تھا کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس کے لیے مجھے یہاں بلایا گیا تھا اور مجھ سے پوچھ کر کہ کس چینل میں کام کررہا ہوں اب اچانک ریحام کو اندازہ ہوا کہ بیکار میں ایک بندہ بلا لیا اور اسے اتنی اہمیت دی کہ گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر ذاتی مسئلہ ڈسکس کرنے لگے گئے۔
اتنی دیر میں عمران خان میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا ۔ عمران اور ریحام ایک صوفے پر نہیں بیٹھے۔ ریحام کرسی پر میرے بائیں جانب بیٹھی تھیں۔ خیر بڑے عرصے بعد میں نے ایک بڑی تبدیلی دیکھی کہ میز کھانے پینے کی چیزوں سے بھر گئی۔ کباب، بسکٹ، سموسے، اور چائے فورا آگئے۔ پہلے بنی گالہ میں صرف چائے ملتی تھی وہ بھی اگر آپ خود پینے پر تُل جاتے ۔ تاہم ریحام خان کے اس گھر میں آنے کے بعد یہ بڑی تبدیلی تھی کہ ریحام خان نے گھر آئے مہمان کے لیے مناسب بندوبست کیا ہوا تھا کہ اسے یہ نہ لگے کہ اسے خالی چائے پلا کر ٹرخا دیا گیا ۔
مجھے احساس ہوا کہ واقعی گھر میں عورت ہو تو اسے احساس ہوتا ہے کہ گھر آئے مہمان کی مناسب خدمت ہونی چاہیے ورنہ وہ باہر جا کر شکایت مرد کی نہیں بلکہ عورت کی کرتا ہے کہ کیسی بیوی ہے جو گھر آئے مہمان کو چائے تک نہیںپلاتی۔
یوں اچھی چائے دیکھ کر، ریحام خان کے جملوں سے جو میرا موڈ خراب ہوا تھا وہ کسی حد تک بہتر ہوا کہ چلیں کوئی بات نہیں اسے یہ تو احساس ہے کہ عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ کسی کو کھانا کھلانا تو دور کی بات چائے تک نہیں پوچھتا، اب شادی کے بعد یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے۔
میں نے موڈ بہتر کرنے کے لیے پانی پیا اور ساتھ میں چائے شروع کی تو میری نظر پھر شیرو پر پڑی ، وہ ابھی تک میرے اوپر آنکھیں جمائے بیٹھا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسے عمران خان کا مجھ سے باتیں کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔
شیرو اس وقت ایک شدید قسم کی کیدو جیسی رقابت کا شکار لگ رہا تھا۔
اس سے پہلے جب عمران خان اپنے شیرو کے ساتھ اندر داخل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ریحام کو شیر و کا ڈرائنگ روم آنا اچھا نہیں لگا ۔
لوگ بیوی کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہیں اور عمران شیرو کے ساتھ داخل ہوا تھا ۔
جونہی عمران خان صوفے پر بیٹھا تو شیرو بھی ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔
ریحام نے عمران خان کو شائستگی سے کہا شیرو کو باہر بھیج دیتے ہیں۔
عمران نے روایتی بے نیازی سے کام لیا اور بولا بیٹھنے دو۔
ریحام بولی میرا خیال ہے اسے دوسرے کمرے میں بھیج دیتے ہیں۔ ریحام نے گھر کے ملازم کا نام لیاکہ اسے کہتے ہیں وہ اسے باہر لے جائے۔
عمران خان نے اس کی تیسری دفعہ یہ کوشش بھی ناکام بنا دی ۔
ریحام کو محسوس ہورہا تھا کہ شیرو کی موجودگی وہاں نہ ضروری تھی اور نہ یہ کوئی اچھا تاثر چھوڑ رہی تھی کہ مہمان کیا سوچے گا کہ گھر بلا کر ساتھ اپنا پالتو کتا بھی بٹھا لیا اور کتا بھی کوئی عام نہیں جرمن شیفرڈ جو مالک کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر بیٹھتا ہے اور اگر اسے باقاعدہ احترام نہ دیا جائے تو مہمان بے شک اس کی موجودگی کو پسند نہ کرے لیکن جرمن شیفرڈ ضرور اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ مہمان کو اس سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔
عمران خان کو شاید جرمن شیفرڈ کے اس مزاج کا علم تھا لہٰذا عمران خان کسی قیمت پر شیرو کو یہ احساس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا کہ مہمان کی خاطر اسے باہر جانا ہوگا۔ عمران خان واقعی اس وقت جرمن شیفرڈ کی عزت نفس کا خیال رکھنے پر تُل گیا تھا جبکہ ریحام کی پوری کوشش تھی کہ میری موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کم از کم ایک دفعہ تو شیرو کو بھی اس کی اوقات یاد دلائی جائے کہ اب وہ بھی اتنا اہم نہیں ہے کہ ہر اجلاس اور میٹنگ میں اس کا اپنے خان کے ساتھ بیٹھنا ضروری ہے، یا کوئی بھی اہم اجلاس اس کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
ریحام کے مسلسل اصرار کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے اتنا ضرور کیا کہ شیرو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تاکہ اسے تسلی رہے کہ اس کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہوسکتی اور چاہے کچھ بھی ہو وہ رئوف کے ساتھ ہونے والے اہم اور ذاتی نوعیت کے مذاکرات میں شامل رہے گا۔
عمران خان کو بھی احساس ہوا کہ شاید شیرو کچھ زیادہ ”اوور ری ایکٹ‘‘کررہا ہے۔ اس کا عمران خان نے ایک اور حل نکالا جسے دیکھ کر مجھے شدید جھٹکا لگا اور حیرانی ہوئی کہ عمران جیسا سمجھدار بندہ یہ کام کیسے کر سکتا ہے۔عمران خان کی وہ حرکت دیکھ کر ریحام نے فورا سخت نظروں سے عمران خان کو گھورا۔مجھے بڑے عرصے بعد اپنا آپ چھوٹا محسوس ہوا اور لگا کہ عمران خان کو واقعی ابھی بہت سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔
میں اب اس گھر کے میں بیٹھا تھا ، کیا ردعمل دے سکتا تھا، تاہم ریحام نے محسوس کیا کہ عمران جو کچھ اب شیرو کو کنٹرول کرنے کے نام پر کررہا تھا وہ مناسب نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر گھر آئے مہمان کے سامنے یہ سب کچھ کرنا مناسب تھا۔
مجھے عمران کا وہ عمل دیکھ کر محسوس ہوا کہ واقعی عمران کے بعد بنی گالہ کی اس ریاست میں اگر کسی کی اہمیت تھی تو صرف شیرو کی تھی ۔ ریحام خان کے بے ساختہ عمران خان کو گھورنے کے بعد میں بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ عمران خان اب کیا کرتا ہے۔ بنی گالہ میں کس کی چلے گی۔
شیرو کی یا ریحام خان کی؟
فیصلہ میری موجودگی میں ہی ہونیو الا تھا۔ (جاری)