عمران، ریحام، شیرو اور میں… (5)…..رئوف کلاسرا
عمران خان سے ملاقات کے چھ ماہ بعد ارشد شریف، عامر متین، عدیل راجہ اور میں ٹی وی چینل پر بلدیاتی الیکشن کی لائیو ٹرانسمیشن میں شرکت کرنے کراچی گئے تو ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی: عمران نے ریحام کو طلاق دے دی۔
عامر متین، ارشد شریف اور راجہ عدیل کو یہ خبر سن کر لگا جیسے بم گرا ہو۔ میں نارمل انداز میں چلتا رہا۔ وہ میرے حیران نہ ہونے پر حیران ہوئے۔ ارشد شریف نے چونک کر مجھے دیکھا اور حیران ہوکر بولا: واقعی چھ ماہ بعد طلاق ہوگئی۔ میں نے کہا: یہ طلاق تین ماہ پہلے ہونی تھی، تمہاری ضد کی وجہ سے تین ماہ بعد ہورہی ہے۔ ارشد بولا: میرے اوپر کیوں ڈال رہے ہو۔ میں نے کہا: تمہیں سب پتا ہے‘ عامر متین اور راجہ عدیل گواہ ہیں‘ تم اگر اس دن میری بات مان جاتے تو تین ماہ پہلے کہانی ختم تھی۔
ارشد شریف بولا: لیکن میں نے تمہاری بات مان کر ٹویٹس بند کر دئیے تھے اور پروگرام بھی نہیں کیا تھا۔ میں نے کہا: زیادہ سمارٹ نہ بنو، تم نے صرف پندرہ دن یہ کام بند کیا‘ پھر شروع ہوگئے، اس لیے طلاق میں تاخیر ہوئی۔
تھوڑی دیر میں ہم ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ چیک اِن سے پہلے تھکے ہارے صوفوں پر بیٹھے تھے۔ ارشد شریف بولا: اتنا درست اندازہ کیسے لگا لیا تھا؟ میں نے کہا: یہ راکٹ سائنس نہیں۔ اُس شام عمران، ریحام ملاقات میں جو کچھ دیکھا اور سمجھا اس کی بنیاد پرکہا تھا کہ تین ماہ یا چھ ماہ۔ میں نے کہا: یاد ہے تمہیں بتایا تھا کہ جب عمران نے مجھ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تو واضح تھا کہ وہ شدید دبائو کا شکار ہے۔ عمران خان نے ایک اور غلطی کی کہ پشاور میں ایک سو چالیس بچوں کے قتلِ عام کے دو ہفتے بعد ہی شادی کا اعلان کر دیا اور دلہا بن کر ریحام کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں جو میڈیا کو بھیجی گئیں۔ میڈیا ٹریجڈی بھول کر ریحام عمران شادی پر لگ گیا۔ اس اعلان کو سیاسی، سماجی حلقوں میں اچھا نہیں سمجھا گیا۔ بچوں کے والدین کو بھی برا لگا کہ ابھی بچوں کی قبریں گیلی تھی کہ قوم کے لیڈر نے شادی کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کو کسی اہم شخصیت نے شادی کی مبارک نہیں دی۔ عمران کو ‘نان سیریس‘ سمجھا گیا۔ شادی پر اعتراض نہیں تھا لیکن شادی کی ٹائمنگ پر سب ناخوش تھے۔ عمران خان کو بھی جلد غلطی کا احساس ہونا شروع ہوگیا۔
عمران خان کا خیال تھا کہ ریحام اس کی ذاتی آزادی اور سیاست میں دخل نہیں دے گی؛ لیکن جب ریحام نے پارٹی اجلاسوں میں بیٹھنا اور باقاعدہ صدارت شروع کردی تو عمران کو شدید جھٹکا لگا۔ عمران کی پارٹی کے ایک مالدار لیڈر نے انہیں شادی کے تحفے میں بینک کارڈ بھی دیا جس کی شاپنگ کی کوئی لمٹ نہیں تھی۔ ریحام کے رویے کی وجہ سے پارٹی لیڈروں کو محسوس ہونا شروع ہوا کہ عمران خان کا سورج ڈوب گیا ہے۔ چڑھدا سورج اب ریحام تھی۔ روز بروز ریحام کی اہمیت بڑھتی گئی۔ ریحام نے عمران کو اجلاسوں میں ٹوکنا شروع کر دیا تھا۔ عمران خان جو ہمیشہ بولتا تھا اور لوگ سنتے، انہیں یوں لگنا شروع ہوگیا کہ عمران کا کرشمہ ختم ہوگیا ہے۔ اب ریحام لیڈر تھی۔ میڈیا ریحام خان کا موازنہ پہلے ہی سونیا گاندھی اور بینظیر بھٹو سے کرنا شروع ہوگیا تھا جسے ریحام خوب انجوائے کررہی تھی۔ ریحام خود میڈیا میں کام کرچکی تھی لہٰذا اسے علم تھا کہ میڈیا کو کیسے اپنے امیج کے لیے استعمال کرنا ہے۔
ارشد شریف خاموشی سے سن رہا تھا۔ میں نے بات جاری رکھی۔
جہاں عمران خان کو غلطی کا احساس ہونا شروع ہوگیا، وہیں ریحام سمجھ گئی کہ موقع اچھا ہے۔ اس نے جلسوں میں شرکت اور خطاب کے پروگرام بنا لیے۔ عمران کی موجودگی میں ریحام کی پارٹی اجلاسوں میں شرکت اور وہاں بحث میں حصہ لینے اور عمران خان کو ٹوکنے پر پارٹی لیڈروں کو پتا چل گیا کہ اب سورج مشرق سے نہیں مغرب سے نکلا کرے گا۔ عمران پارٹی کے لوگوں کے سامنے ریحام کے ساتھ بحث میں نہیں الجھ سکتا تھا۔ عمران نے ہر دفعہ سرنڈر کیا اور ریحام نے اسے عمران کی کمزوری سمجھ لیا۔
عمران خان نے ساری عمر اکیلے اور ہیرو لائف گزاری تھی۔ جمائما سے طلاق ہوئے عرصہ گزر گیا تھا۔ ٹین ایج میں لندن گیا اور پھر پوری عمر کرکٹ کھیلی۔ کبھی گھر نہیں رہا۔ چند برس ہی شادی شدہ زندگی کے گزارے۔ ڈسپلن اور گھریلو لائف کا عادی نہیں تھا۔ جو مل گیا کھا لیا، جو ملا پی لیا‘ جہاں جگہ ملی سو گیا۔ جس دوست کی گاڑی ملی اس پر بیٹھ گیا۔ اب پچاس ساٹھ برس جس بندے نے ایک کھلی ڈلی، رات گئے تک دوستوں کے ساتھ محفلیں اور پارٹیاں جمائی ہوں اور دوست اشارے پر سب حاضر کرنے کو تیار ہوں، اسے اچانک ایک دن کہا جائے کہ آج کے بعد سب کھیل تماشے بند۔ آج کے بعد روایتی پاکستانی شوہر جیسی زندگی گزارنی ہے۔ تمام عیاشیاں ختم۔ کوئی خاتون ملنے نہیں آسکتی۔ کوئی محفل پارٹی نہیں ہوگی۔ نہ میسج‘ نہ فون۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کی حالت کیا ہو گی۔
میں نے کہا: ارشد شریف! میں نے خود کالج سے یونیورسٹی تک دس سال ہوسٹل لائف گزاری۔ جب شادی ہوئی تو مجھے دس سال اپنی گھریلو زندگی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے اور خود کو سمجھانے میں لگے۔ مجھے اگر دس برس لگے تو عمران خان دس دنوں میں ریحام کے کہنے پر سدھر جاتا؟ اب عمران خان اس عمر میں کیسے تبدیل ہوتا اور تبدیلیوں کو قبول کرتا جو ریحام نے خان پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ ریحام کا خیال تھا‘ اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے عمران کو ٹوک دے، چاہے میرے جیسا صحافی بیٹھا ہو‘ پھر پارٹی لیڈرز یا اجلاس چل رہا ہو۔
عمران خان کو اب غلامی ٹائپ گھریلو زندگی اور عمر بھر عیاشی اور بغیر روک ٹوک گزاری گئی زندگی میں سے ایک کو چننا تھا۔ ریحام، عمران کے اندر ابلتے طوفان اور جاری جنگ کو نہ سمجھ سکی کہ عمران کی آزادی اور عیاشی چھن گئی تھی۔ وہ کرکٹ ہیرو اور ملک کے متوقع وزیر اعظم سے یکدم بزدل شوہر کے رول میں آگیا تھا۔ اگر عمران خان نے مؤدب شوہر اور گھریلو زندگی گزارنی تھی تو پھر جمائما میں کیا برائی تھی؟ اس لیے جب عمران نے مجھے بنی گالہ بلایا کہ تمہیں منع کروں تو وہ ریحام سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
ارشد شریف کرسی سے اچھل پڑا اور پوچھا: وہ کیسے؟
میں نے کہا: چھ ماہ پہلے بنی گالہ سے واپسی پر ہی بتا دیا تھا کہ عمران خان ریحام سے جان چھڑانے پر تل گیا ہے، تم اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہو۔ ارشد شریف نے کہا: خدا کا خوف کرو۔
میں نے کہا: تم ان دنوں ٹی وی شوز اور ٹویٹر پر مسلسل عمران اور ریحام کے درمیان جاری کشمکش اور متنازع ایشوز پر لکھ اور بول رہے تھے۔ باقی میڈیا نے اسے ذاتی مسئلہ قرار دے کر نظرانداز کیا، تم نے نہیں۔ اگر اس وقت عمران خان ریحام خان کو طلاق دے دیتا تو پھر یہ لگتا‘ ارشد شریف کے مسلسل ٹویٹس کی وجہ سے عمران نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ عمران کا کمزور فیصلہ ہوتا کہ جب ریحام پر میڈیا اٹیک کر رہا تھا تواس نے اپنی بیوی کا دفاع کرنے کی بجائے اسے طلاق دے دی۔ عمران کی مردانہ انا یہ قبول نہ کرتی۔
عمران خان کو کچھ وقت چاہیے تھا جس سے سب کو لگتا کہ وہ فیصلہ اس کا اپنا تھا کسی صحافی کے پروگرام یا ٹویٹر پر جاری جارحانہ حملوں کی وجہ سے نہیں۔ اس دوران کچھ اور سنگین ایشوز بھی جنم لے چکے تھے۔ ریحام کے ہاتھ بلیک بیری لگ گیا تھا۔ عمران فون تکیے کے اندر رکھ کر سوتا تھا جو ریحام نے عمران کے سوتے وقت نکال کر چرا لیا۔ عمران خان کے دوست کے بقول عمران نے ریحام سے لڑ کر وہ بلیک بیری چھین تو لیا لیکن ریحام فون کا ڈیٹا پہلے ہی ٹرانسفر کرچکی تھی۔
اب عمران خان کو بھی ریحام کے خلاف ایسے ”ثبوتوں‘‘کی ضرورت تھی جیسے عمران کے ریحام کے پاس تھے۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ ریحام کے خلاف ”ثبوت‘‘ عمران کے ایک شدید دشمن کے فون میں موجود ہیں۔ سوال یہ تھا اس سیاسی مخالف نے کیسے سکرین شاٹس لیں؟
ریحام کو کائونٹر کرنے کے لیے عمران خان کو ہر صورت وہ ”ثبوت‘‘ چاہیے تھے۔ عمران خان کشتیاں جلانے پر تل گیا تھا۔ ان ثبوتوں پر اس کا انحصار تھا کہ ریحام رہے گی یا طلاق ہوگی۔ لیکن سوال وہی کہ ثبوت کون لائے گا؟
ایک رات عمران خان کے ذہن میں وہ نام ابھرا جو وہ سکرین شاٹس لانے میں مدد کر سکتا تھا۔ (جاری)