عمران جہاں بھی ملے … منیر بلوچ
میڈیا پر سب نے رپورٹ ہوتے دیکھا کہ جی ٹی روڈ پر ریلی کے دوران کوئی اور نہیں بلکہ قومی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر میاں نواز شریف کی ریلی کی قیا دت کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ” عمران خان جہاں بھی ملے اسے ٹھوک دو‘‘ ۔کل کو ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی کوئی شخص ایسا انتظام کر دے کہ جیسے ہی عمران خان ایوان میں پہنچیں وہ نشانہ بنا دیئے جائیں۔۔۔۔۔ پارلیمنٹ کے ایوان میں اپنی واسکٹ کی جیب سے کچھ مشکوک قسم کی نظر آنے والی شے رکھتے ہوئے ایک وفاقی وزیر کی وائرل ہونے والی ویڈیو پر ان کا کہنا ہے کہ وہ پستول نہیں بلکہ موبائل تھا۔ ان کی دی جانے والی اس وضاحت کودرست تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ دنیا کا وہ کون سا موبائل ہے جس کی نال بھی ہوتی ہے اور انگلیوں سے پکڑنے والا چھوٹا سا دستہ بھی؟۔ ہائوس کے کسٹوڈین کی حیثیت سے سردار ایاز صادق نے شیخ رشید کو یہ مشورہ کیوں دیا کہ وہ بجائے قومی اسمبلی کی عما رت کے سامنے والے حصے سے نکلنے کے احتیاطاً عقبی راستہ استعمال کریں؟۔وہ کون سے خدشات تھے جنہوں نے سپیکر کو شیخ صاحب کو یہ مشورہ دینے پر مجبور کیا؟۔ اس خبر کے تنا ظر میں بتانا پڑے گا کہ عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنا ووٹ کا سٹ کرنے سے عین وقت پر کس نے منع کیا؟۔یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ قومی اسمبلی کی عمارت کے اندر اور باہرسے ایک حساس ادارے کی جانب سے پانچ رکنی گروہ کے دو لوگ گرفتار کئے گئے تھے اور ان سے ہونے والی تفتیش پر تیسرا ساتھی خیبر ایجنسی سے گرفتار کیا گیا ہے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ گرفتار کئے جانے والے یہ لوگ کون ہیں؟۔ انہیں کس نے بھیجا اور ان کے سہولت کار کون کون تھے؟ یہ سوالات کوئی معمولی نوعیت کے نہیں اور نہ ہی انہیں یونہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ہائوس کو اس سے با خبر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس دن قومی اسمبلی کے گیراج میں کچھ ایمبولینسیں پہلے سے کیوں لا کر کھڑی کر دی گئیں؟۔
وزارت عظمیٰ کے امیدوار شیخ رشید کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا اور 300 سے زائد لوگوں کا بینرز سمیت پارلیمنٹ کے اندر بغیر سکیورٹی کے داخل ہونا کسی ”بنانا سٹیٹ‘‘ کا پتہ دے رہا تھا‘ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں قانون اور ریڈزون کے نام سے کسی سکیورٹی سسٹم یا فورس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؟۔ شیخ رشید کے ساتھ کی جانے والی غنڈہ گردی اور قومی اسمبلی کے ایوان میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داروں تک پہنچنے کیلئے حنیف عبا سی کی سپریم کورٹ کے صرف ایک روز پہلے باہر کی جانے والی تقریر کا متن سامنے رکھیں ۔حنیف عبا سی نے کہا: ہم نے اپنے کارکنوں کو بہت روک رکھا ہے لیکن کب تک ؟اب اگر میاں نواز شریف کے کچھ متوالے ہم سے بے قابو ہو کر شیخ صاحب پر چڑھ دوڑے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہو گا کیونکہ صبر اور برداشت کی کوئی حد ہو تی ہے۔حنیف عبا سی کی یہ تقریر آج بھی ہر ٹی وی چینل کے پاس محفوظ ہے اور اس دھمکی آمیز وارننگ کو بآسانی سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ عمران خان پر تو الزام لگا دیا جاتا ہے کہ دھرنے کے دوران انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا لیکن یہ تین سو افراد نعرے مارتے اور گا لیاں بکتے ہوئے اس مقدس ایوان میں کس طرح اور کس نے داخل کئے ؟ جیسے قائد ایوان کا انتخاب نہیں وہاں پہلوانوں کا دنگل ہونے جا رہا تھا اور مری پنڈی سے بھیجے گئے ان سما ج دشمن عناصرکی ہلڑ بازی سے لگتا تھا کہ یہ کسی قانون ساز اسمبلی کا ایوان نہیں بلکہ
عام سی جگہ ہے۔
کیا ملک کی تمام خفیہ ایجنسیاں اس منصوبے سے بے خبر تھیں؟۔ کیا پارلیمنٹ کی سکیورٹی پر مامور افراد اور ہائوس کے کسٹوڈین سپیکر ایاز صادق بے خبر تھے ؟اگر ایسا تھا تو انہوں نے شیخ صاحب کو عقبی دروازہ استعمال کرنے کو کیوں کہا ؟۔ کیا نئے قائد ایوان کے انتخابی مرحلے پر عمران خان کی آمد کی صورت میں کسی خطرناک منصوبے پر عمل ہو نا تھا؟۔۔۔کیا ہائوس یا خفیہ اداروں کی کوئی کمیٹی اس کی تحقیق کرتے ہوئے سپیکر سمیت تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی؟۔
وزیر موصوف نے وضاحت تو دے دی ہے کہ وہ ننھا پستو ل نہیں بلکہ موبائل تھا لیکن ویڈیو میں جس طرح سے انہوں نے اس موبائل کو پکڑا ہوا ہے وہ شکوک پیدا کرنے کیلئے کا فی ہے۔ انہیں یاد ہو گا جب وہ طالب علم لیڈر کی حیثیت سے ماڈل ٹائون لاہور میں ایک اہم ترین جگہ جایا کرتے تھے تو اس وقت بھی ان کی عادت تھی کہ وہ اپنے کپڑوں کے نیچے ہولسٹر میں مائوزر رکھا کرتے تھے جسے سکیورٹی والے اندر لے جانے کی اجا زت نہیں دیتے تھے بلکہ ان سے زبردستی یہ اسلحہ لے کر گیٹ پر رکھو الیتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جب تک وہ اپنے مائوزر کو سرنڈر نہ کرتے انہیں گیٹ کے قریب آ نے کی اجا زت ہی نہیں دی جاتی تھی جس کی انہوں نے شہباز شریف سے شکایت بھی کی لیکن وہ خاموش رہے۔ ان کیلئے دہری مصیبت یہ ہو گئی کہ جب گیٹ پر ان کو اسلحہ رکھنے کیلئے روکا جاتا تو وہ شکوہ کرتے کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے لڑکے جو دور کھڑے یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کے سامنے میری کوئی وقعت نہیں رہتی بلکہ میرے لئے یہ سخت بے عزتی کا مقام بن جاتا ہے کیونکہ اپنے اپنے کالجوں میں جا کر یہ دوسرے ساتھیوں کو نمک مرچ لگا کر یہ سب کچھ سناتے ہیں جس پرمیری لیڈری میں فرق آتا ہے اور مخالف طلبہ تنظیم کے لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں ۔ جس پر ان کی عزت افزائی کیلئے جب بھی وہ آتے تو سکیورٹی کے ذمہ داران انہیں اپنے کمرے میں بٹھا کر بڑی عزت سے کافی بنا کر پلاتے۔ لیکن اندر داخل ہونے سے پہلے وہ اپنا اسلحہ وہاں جمع کرانا نہ بھولتے۔
وفاقی وزیر کی اپنی اس ویڈیو پر دی جانے والی وضاحت درست ہو سکتی ہے لیکن اگر تحقیقات کر لی جائیں تو ڈپٹی سپیکر کی دھمکی کے بعد یہ ان کیلئے اور وزیر اعظم خاقان عبا سی کیلئے بھی منا سب ہو گا ۔ قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد شاہد خاقان عبا سی ایوان میں جب اپنی پہلی تقریر میں فرما رہے تھے کہ آج لکھ لو میں اس ملک سے اسلحہ کلچر ختم کر کے رہوں گا، کسی کو اچھا لگے یا برا، میں ممنوعہ بور کے تمام لائسنس منسوخ کر نے کے بعد اسلحہ کی نمائش پر سختی سے پابندی لگوائوں گا ۔۔۔انہیں کم از کم اپنے اس ابتدائی خطاب کا پاس رکھنا چاہئے۔
یہ تو ایک ویڈیو ہے جس میں اسلحہ دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا خبر اس روز ایوان میں مختلف جگہوں پر بیٹھے ہوئے نہ جانے کتنے مسلح لوگ موجود تھے؟۔ ممکن ہے کہ وزیر موصوف نے اپنی جیب سے واقعی موبائل نکالا ہو لیکن جب اس ویڈیو کو سلو موشن میں بار بار دیکھیں تو معاملہ مشکوک سا لگتا ہے۔ لیگی رہنمائوں کی سخت زبان کو قومی ادارے مدنظر رکھیں اور یہ مت بھولیں کہ ان کا سامنا نواز لیگ سے نہیں بلکہ ایسی ہی جماعت سے ہے جو کبھی کراچی میں خوف کی علامت ہوا کرتی تھی!!