عمران خان اور آکسیجن….امیر حمزہ
سانس کی روانی سے ہی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اس کی روانی اور تسلسل میں خلل آ جائے‘ تو زندگی کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں‘ تب آکسیجن کے سلنڈر کا بندوبست کیا جاتا ہے ‘تاکہ زندگی کو زندہ رہنے کے لئے سہارا فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان کی اقتصادی حالت کو جان کے لالے پڑ گئے تھے کہ ڈالر 130 روپے سے بھی آگے کی اڑان اڑنے کو تیار تھا۔ یہ جوں جوں پرواز کرتا جاتا‘ پاکستان کا اقتصادی مریض معاشی زندگی سے دور ہوتا چلا جاتا۔ عمران خان کو جونہی اکثریت ملی‘ تو عمران خان کا وجود پاکستان کی معاشی حالت کو آکسیجن دینے لگ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر 30 جولائی تک آٹھ روپے نیچے آ گیا۔ سوچ رہا تھا کہ جس دن خان حلف اٹھائے گا‘ پھر اک وزیر خزانہ بنائے گا۔ امکان ہے‘ اسد عمر بنیں گے‘ وہ جنرل عمر مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ چند سال قبل مہتاب عباسی صاحب کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ میں ان سے ملاقات ہوئی اور تب معاشی معاملات پر ان سے مختصر اور ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ قد بھی لمبا اور سوچ بھی لمبی۔ الغرض! پاکستان کا معاشی وجود درختوں کے سائے میں لمبے سانس لینے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ ہے‘ وہ امید ‘جس کا نقش دنیا بھر کے پاکستانی اپنے سینوں میں سجا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تحریک ِانصاف کی حکومت اس سجاوٹ کے حسن میں اضافہ کرتی چلی جائے۔
الیکشن کے آخری دنوں میںخیبر پختونخوامیں جانا ہوا۔ ہزارہ کے علاقے میں دیوال سے واپس آ رہا تھا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور وادیوں میں بے شمار سفید پتھر دکھائی دیئے۔ میں نے اپنے ہمراہ بیٹھے ہوئے مقامی ساتھی سے پوچھا کہ یہ سفید سفید چیز کیا ہے؟ تو انہوں نے بتلایا‘ عمران کا بلین ٹری (ایک ارب درخت) کا منصوبہ ہے۔ یہ سارے درخت لگائے گئے ہیں۔ مزید بتلایا کہ جنگلات کے درختوں کی لکڑی کاٹنے پر اس قدر سختی ہے کہ چوری ختم ہو کر رہ گئی ہے‘ یعنی صوبے میں عمران خان کی حکومت نے آکسیجن کی فراہمی کا خوب خوب بندوبست کیا ہے۔ خیر اور بھلائی کے دیگر کام بھی ہیں اور ضرور ایسے کام ہوں گے کہ جن کی مجھے خبر نہیں‘ مگر درخت کی چوری روک کر اور مزید درخت لگا کے آکسیجن کی فراہمی وہ صدقہ جاریہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اسی صدقے کی بدولت عمران خان کو پاکستان کی حکمرانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ درخت لگانا حضرت محمد ﷺ کی سنت ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کے لئے ضروری تھا کہ وہ غلامانہ زندگی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کھجور کے پودے لگائیں۔ حضرت محمدﷺ مدینہ منورہ کے حکمران تھے‘ آپﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی مدد کی اور اپنے ہاتھ مبارک سے پودے لگائے‘ جو پودے حضورﷺ کے ہاتھ مبارک سے لگے ‘وہ دنوں کے اندر بڑے ہوئے اور خوب پھلے پھولے۔ ان دنوں ہمارے پاکستان میں برسات کا موسم ہے۔ زمین پودوں کی زینت کے ساتھ لہلہا اٹھتی ہے۔ پاکستان کا پرچم بھی گرین ہے۔ 14اگست بھی قریب ہے۔ عمران خان کی حکمرانی کو اعلان کرنا چاہئے کہ حکمرانی ملنے پر شکرانے کے طور پر تمام اسمبلی ممبران‘ افسران پودے لگائیں‘ عام لوگ بھی پودے لگائیں۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں‘ حضرت محمد ﷺ کھجوروں کے ایک باغ میں تشریف لے گئے‘ یہ باغ ایک انصاری خاتون کا تھا۔ اس خاتون کا نام اُمِّ مبشر تھا۔ موجود لوگوں سے حضور نبی کریمﷺ نے پوچھا: کھجوروں کے اس باغ میں شجرکاری کس نے کی‘ کیا وہ مسلمان تھا‘ یا غیر مسلم تھا۔ لوگوں نے کہا: مسلمان تھا‘ اس پر حضورﷺ نے فرمایا: مسلمان جو پودا بھی لگاتا ہے‘ پھر اس کا پھل ‘انسان کھاتا ہے‘ پرندہ کھاتا ہے یا کوئی جانور کھاتا ہے‘ وہ صدقے میں لکھ دیا جاتا ہے (بخاری 2320:‘ مسلم 1553:)
غور فرمایئے! باغ میں انار ہے‘ امرود ہے‘ سیب ہے‘ ناشپاتی ہے‘ آڑو اور آم ہیں‘ دیگر پھل بھی ہیں۔ ان درختوں پر چڑیوں‘ فاختائوں‘ بلبلوں نے رات بھر آرام کیا۔ فجر نمودار ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیا۔ جونہی سورج طلوع ہونے کے قریب ہوا‘ یہ سب پرندے خاموش ہو گئے۔ اب یہ پھل دار درختوں کا پھل کھانے لگے۔ یقین جانیں میرے گھر کے چھوٹے سے لان میں انار‘ امرود اور مالٹے کے درخت ہیں۔ یہ پرندے میرے گھر میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ انار کے چھلکے میں چونچیں مار کر چھلکا توڑتے ہیں اور انار کے دانے کھاتے ہیں۔ اب چیونٹیوں کو موقع مل جاتا ہے‘ وہ اس سوراخ سے داخل ہو کر انار کے دانے کھا جاتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو موقع مل جاتا ہے‘ وہ یہاں سے رس چوس کر نا جانے کہاں اور کس چھتے میں شہد تیار کرتی ہیں۔ اب میں نے کیا کیا‘ اسی انار کو توڑا ‘اس کا کھایا ہوا حصہ الگ کیا اور باقی انار کے دانے نکال کر اپنی ننھی اور معصوم پوتی کو کھلا دیئے۔ اب چیونٹیاں جو کھا گئیں‘ ان کا اجروثواب‘ کالی‘ سبز اور عام چڑیاں جو کھا گئیں‘ بلبل کھا گئی‘ اس کا اجروثواب‘ شہد کی مکھی کا اجروثواب اور وہ شہد کسی حکیم کے معجون کا حصہ بنا اور بیمار کو شفا ملی ‘تو اس کا اجروثواب اور شہد کس کس نے پیا‘ اس کا اجروثواب اور ایسا بھی ہوا کہ انار کے درخت کی ٹہنی جو بیرونی دیوار کے باہر تھی‘ گزرنے والے نے انار توڑا اور گزر گیا‘ اس کا اجروثواب اور جو میری ننھی بچی نے کھایا ‘اس کا اجروثواب‘ الغرض! ہے کوئی‘ جو اس اجراور صدقے کا شمار کر سکے۔ یقینا کوئی نہیں‘ یہ سب کچھ اللہ کی کتاب اور سپر کمپیوٹر میں درج ہے۔
صحیح مسلم کی دوسری حدیث ‘جو حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔اس میں ہے کہ زراعت‘ یعنی اناج کا کوئی پودا جو شخص بوتا ہے‘ وہ صدقہ بن جاتا ہے‘ یعنی گندم کے دانے‘ مکئی‘ جو‘ سرسوں‘ سونف‘ چاول وغیرہ کے دانے پرندے کھاتے ہیں۔ ان کا بھوسہ پرالی اور توڑی کی شکل میں چوپائے کھاتے ہیں۔ ان دانوں سے پلا ہوا پرندہ کسی کے دسترخوان کی زینت بنتا ہے۔ یہ سب اجر اس شخص کے کھاتے میں ہے ‘جہاں جہاں سے پرندے نے اپنے پوٹ کو بھرا… جی ہاں! مذکورہ حدیث میں حضورﷺ کی مبارک زبان سے ”شَیْیٌ‘‘ کا لفظ بھی نکلا کہ کسی شے نے بھی اس پودے سے فائدہ اٹھایا‘ یعنی اس پودے نے جب درخت کی شکل اختیار کی اس کے گرے ہوئے پودے پر شبنم کے قطروں کو زمین پر رینگنے والے طرح طرح کے کیڑوں نے پی لیا۔ گرے ہوئے پھلوں کو حشرات نے کھا لیا۔ وہ سب اس کے لئے صدقہ بن گیا‘ جس نے اس پودے کو لگایا تھا۔ لگانے والا دنیا میں نہ رہا‘ مگر یہ ایسا صدقہ جاریہ بنا کہ مخلوقات کھا پی رہی ہیں۔ ان پھلوں کے جوس بن رہے ہیں۔ پیکنگ ہو رہی ہے۔ زمین پر بھی انسان پی رہے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر فضائی میزبان اپنے مہمانوں کی تواضع کر رہے ہیں اور اگلے جہان میں اک شخص کے کھاتے میں نیکیاں دھڑا دھڑ جمع ہو رہی ہیں۔ جنت میں درجات بلند ہو رہے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اس نے اللہ کی زمین پر درخت لگائے ہیں۔
لوگو! غور فرماتے چلو‘ میرے حضورﷺ کی ایک اور حدیث میں جو صحیح مسلم میں ہی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے درندے کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ کسی درندے نے کھا لیا تو وہ بھی صدقہ ہے‘ یعنی تربوز‘ خربوزہ اور گنے کی فصل کو خنزیر کھا گئے‘ کوئی اور اسی طرح کا درندہ کھا گیا‘ گیدڑ کھا گئے‘ یہ بھی صدقہ ہے۔ قربان جائوں اپنے حضور نبی کریم ﷺکے فرامین پر۔ اسی حدیث میں ارشاد گرامی ہے کہ باغ یا فصل سے کوئی چوری کر کے لے گیا‘ اس پر بھی صدقہ کا ثواب ملے گا‘ یعنی چور کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے کہ اس کو قیامت کے دن بندے کا حق دینا پڑے گا ‘مگر اضافہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ باغ یا فصل کے مالک کو آخرت میں اجروثواب دے گا۔ کسی نے فصل کو لتاڑ کر کچل دیا تو وہ بھی صدقہ ہے یعنی کسی کی گندم‘ چاول وغیرہ کی فصل ہے۔ لوگ پگڈنڈی کا راستہ چھوڑ کر مختصر راستہ بنا کر فصل میں سے راستہ بنا لیتے ہیں‘ اب ننھے پودے کچلے جاتے ہیں۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ ان کچلے ہوئے پودوں پر صدقے کا ثواب ملے گا‘ اس شخص کو کہ جس کا نقصان ہوا ہے۔ (مسلم: کتاب المساقات)
حضرت ابودردائؓ کہتے ہیں کہ وہ دمشق کے قریب شجرکاری کر رہے تھے‘ ایک شخص گزرا اور کہنے لگا‘ اللہ کے رسولﷺ کے صحابی (بلند مرتبہ) ہو کر یہ کیا کر رہے ہو کہ پودے لگا رہے ہو۔ حضرت ابودرداؓ نے کہا: جلد بازی میں ایسی بات مت کر‘ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے کوئی پودا لگایا‘ اس سے کسی انسان یا اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے کھا لیا تو وہ مذکورہ آدمی کے لئے صدقہ بن جائے گا (مسند احمد 27506:حسن) جی ہاں! درخت کے سائے کا ثواب الگ ہے‘ اسی لئے درخت کے سائے میں پیشاب وغیرہ کرنے سے حضورﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ان درختوں سے آکسیجن ملتی ہے‘ جو ہر جاندار کی جان ہے۔ یہ کیسے محسن ساتھی ہیں‘ جو انسان کے نتھنے سے نکلنے والی آلودہ ہائیڈروجن کو جذب کر لیتے ہیں۔ بارشوں کا باعث بنتے ہیں۔ موسم میں ٹھنڈک کی وجہ بنتے ہیں۔ ماحول کو درست رکھتے ہیں۔ آخر پر میری دعا ہے کہ عمران خان کی حکمرانی مدینہ منورہ کے ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے۔ اہل پاکستان خوشحالی اور سکھ کا سانس لیں ۔(پاکستان زندہ باد!)